عزم انقلابی کاکا شرارتی بچپن سے ہی تجزیہ کار بن گیا ہے۔ وہ روز صبح سکول جانے سے پہلے اخبار کا مطالعہ کرتا ہے اور پھر اس مطالعے کی روشنی میں بعض خبروں پر تبصرے بھی کرتا رہتا ہے۔ آج بھی حسب معمول وہ اخبار پڑھ رہا تھا مگر ساتھ ہی اس کی ہنسی بھی رُکنے میں نہیں آ رہی تھی۔
گھر والوں نے خیال ظاہر کیا کہ شاید اُس نے اپنے پسندیدہ بچوں کے صفحے پر کوئی لطیفہ پڑھ لیا ہوگا ورنہ ماضی میں کاکا شرارتی اتنی گہرائی سے اُس وقت ہنسا تھا جب اُسے پتا چلا کہ افغانستان میں امریکی فوجی پیمپرز باندھ کر طالبان سے لڑتے ہیں۔
اُس وقت چونکہ کاکا شرارتی خود بھی پیمپرز پہنا کرتا تھا اور افغانستان کے پڑوسی ممالک میں اس کی قیمتیں بڑھ جانے کے سبب اُسے بہادر امریکی فوجیوں کا یہ اقدام اپنے اور کروڑوں دیگر بچوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف لگا۔ بہرحال کاکا شرارتی سے جب اس ہنسی کی وجہ پوچھی گئی تو اُس نے اخبار ہاتھ میں پکڑا دیا اور افغان جنگ بارے خبر کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ تین کالمی شہ سرخی کے ساتھ خبر کچھ یوں تھی کہ افغانستان سے اتحادیوں کے انخلاء کی صورت میں طالبان کے حملے بڑھ گئے ہیں۔
یہ خبر غور سے پڑھنے کے باوجود بھی کسی کو کاکا شرارتی کے زوردار طریقے سے ہنسنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی مگر ساتھ ہی ایک اور دو کالمی شہ سرخی پڑھ کر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس خبر میں امریکا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ طالبان کو محفوظ راستہ دینے پر کام ہو رہا ہے۔
اتحادی افواج پر طالبان کے تابڑ توڑ حملوں والی شہ سرخی کے باکس میں اس خبر کے چھپنے سے کاکا شرارتی کے ہنسنے کی اصل وجہ تو معلوم ہو گئی لیکن اُس کی ہنسی پھر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور فوراً بول پڑا اصل خبر یہ ہونی چاہئے تھی کہ طالبان سے بچنے کا محفوظ راستہ ڈھونڈنے پر کام ہو رہا ہے، کیونکہ افغان طالبان کے پاس تو پہلے ہی کئی محفوظ راستے ہیں البتہ امریکا کے پاس باعزت طور پر افغانستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف قابل قدر کارروائیوں، بیش قیمت فتوحات اور طالبان کی شکست کے بلند بانگ امریکی دعوئوں کے باوجود زمینی صورتحال اس سے قطعی مختلف دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق طالبان افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ جیت رہے ہیں اور نیٹو کی سربراہی میں افغانستان کی مہم مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔
افغانستان کی سرزمین پر طالبان پچھلے گیارہ سال سے امریکا کی درگت بنا رہے ہیں اور اتحادی افواج کو ہر محاذ پر ذلت اُٹھانا پڑ رہی ہے۔ امریکا اپنی تمام تر ٹیکنالوجی اور اتحادیوں کے باوجود اس عرصہ میں افغانستان پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکا اور امریکی چھتری تلے بننے والی کرزئی حکومت بھی صرف کابل تک ہی محدود ہے مگر طالبان نے اب کابل کے دروازے پر بھی دستک دینا شروع کر دی ہے۔
امریکا کو یہ ڈر ہے کہ افغانستان کے ستر فیصد سے زائد علاقے پر کنٹرول رکھنے والے طالبان نے اگر اتحادی افواج کی موجودگی میں کابل فتح کرلیا تو پھر اُس کی باعزت واپسی ممکن نہیں ہو سکے گی ، شاید اسی وجہ سے امریکا نے 2014ء شروع ہونے سے پہلے ہی افغانستان سے فوجی انخلاء کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنی دوسری مدت کے پہلے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں افغانستان سے چونتیس ہزار امریکی فوجیوں کے انخلاء کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ 2014ء کے اختتام تک افغانستان میں امریکی جنگ اختتام پذیر ہو جائے گی۔
صرف امریکا ہی نہیں بلکہ اتحادی ممالک کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان ایک بار پھر آسانی کے ساتھ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے اور یہ کام اُن کیلئے بہت آسان ہے۔ شاید اسی وجہ سے امریکا اور اتحادی افواج کی جانب سے تین لاکھ پچاس ہزار افغان پولیس اور فوج پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی جا رہی ہے جسے اتحادی افواج کے افغانستان چھوڑنے سے قبل ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
Afghanistan War
امریکی فوجیں مقررہ وقت کے مطابق جب اگلے سال کے اواخر تک افغانستان سے نکل آئیں گی تو وہاں جنگ ختم نہیں ہوئی ہوگی بلکہ افغان فوج اور پولیس برابر طالبان سے برسرپیکار ہوگی۔طالبان نے امریکا اور نیٹو کے اس اقدام کا موازنہ چوبیس سال قبل سوویت یونین کے افغانستان سے انخلاء سے کیا ہے جس میں تمام اختیارات سابق افغان صدر نجیب اللہ کے سپرد کر دیئے گئے تھے۔
روس نے بھی افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد اُس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی مدد جاری رکھی تھی مگر 18اپریل 1992ء کو جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں ایک گروہ نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کیلئے خانہ جنگی شروع ہو گئی اور 1996ء میں طالبان کے رہنماء ملا عمر نے قابل پر قبضہ کر کے افغانستان کو اسلامی امارت قرار دیا۔
اس وقت افغان فوج کے سپاہیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوراسی ہزار ہو گئی ہے جبکہ پولیس فورس ایک لاکھ چھیالیس ہزار کی نفری پر مشتمل ہے۔ اگر صرف تعداد کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ تاثر ملتا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز اب اپنے اس ہدف کے قریب پہنچ گئی ہیں جو طالبان کے خطرے سے ملک کا دفاع کرنے کیلئے درکار ہے مگر پھر بھی طالبان کی جیت یقینی نظر آتی ہے۔ اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلاء کا آغاز ہو چکا ہے اور ساتھ ہی امریکا ابتدائی مرحلے میں ساٹھ فیصد فوجی سازوسامان بھی واپس لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو گیارہ سال سے اتحادی فوج بھی اپنے فوجی سازوسامان کے ساتھ افغان فوج اور پولیس کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف برسرپیکار ہے مگر پھربھی طالبان کی طاقت ختم نہیں ہو سکی اور جب اتحادی افواج اپنے فوجی سازوسامان کے ہمراہ افغانستان چھوڑ جائیں گی تو پھر افغان فوج اور پولیس طالبان کا راستہ کیسے روک سکیں گی؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کے ستر فیصد سے زائد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے اور اب وہ دارالحکومت کابل کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔
طالبان نے شیڈو کابینہ پر مشتمل عبوری حکومت تشکیل دینے کے علاوہ افغانستان کے چونتیس میں سے تینتیس صوبوں کیلئے گورنر بھی نامزد کر دیئے ہیں۔ طالبان کی انٹیلی جنس افغان عوام ہیں اور اگر وہ سی آئی اے کے ساتھ ہوتے تو یقینا امریکا جنگ جیت جاتا۔ ایسے میں کاکا شرارتی کا تجزیہ بالکل درست لگتا ہے کہ طالبان کو محفوظ راستہ دینے کی بجائے امریکا خود بھاگنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔