سال 2012 کا آخری سورج بھی غروب ہو گیا ہے آج 2013ء کا پہلا سورج طلوع ہوا ہے 2012ء میں ہونیوالے کئی اہم واقعات جن میں دہشتگردی اوباما کا دوبارہ صدر بننا منتخب وزیر اعظم کا نااہل ہونا ملالہ پر حملہ ہونا کہا جاتا ہے کہ سب واقعات اہم ہیں مگر میری نظر میں جو سب سے اہم ہے جس میں میں کہوں گا کہ سال 2012 ء سب سے منحوس سال تھا کیونکہ اس سال ہمارے سرور کائنات پر یہودیوں نے غلط باتیں کیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ بات نہ بھولنے والی ہے ہم یہ بات کیسے بھول سکتے ہیں کہ سر ور کائنات کے خلاف یہودی نازیبا الفاظ استعمال کریں۔
ہمیں چایئے کہ ہم یہوددیوں کے خلاف کو ئی ایسا قانون بنائیں جس میں وہ اگر ایسی زبان استعمال کریں تو ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائیے سال 2012 ء کے آخر میں ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد ہوئی ہم خوش ہوگئے تھے ڈاکٹر صاحب اتنے بڑے اجتماع میںناموس رسالت پر بات کریں گے۔
لانگ مارچ بھی اسی بات کاایک حصہ ہوگا مگر طاہر القادری کولیڈر بننے کاشوق ہے وہاں انہوں نے سرور کائنات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جو ان کے لیے افسوس کی بات ہے مولانا صاحب جس نے یہ پودا لگایا تھا کیا اس کا حق نہیں کہ وہ اس کی چھاوں لیں کل تک جن کی مسجد کے آپ امام تھے اور مسجد امام ہونے کے ناطے وہ آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔
اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ کل آپ نے ان کے خلاف ہی آواز اٹھانی ہے تو وہ کبھی آپ کو ایسی عزت نہ دیتے جو کسی کے ساتھ کرتا ہے اس کے ساتھ بھی ویسے ہوتا ہے میاں نواز شریف نے جب سیاست کا آغاز کیا تو سب سے پہلے میاں صاحب چوہدری شجاعت کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے اپنی شا دگر دگی میں لے لیں اور مجھے سیاست سکھا ئیں چوہدری شجاعت نے میاں صاحب کو دیکھتے ہی کہا کہ منڈا بہت تیزہے اور سیاست سیکھ جائے گا جو اپنے استادوں کے ساتھ کرتے ہیں وہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
Tahir ul Qadri
ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنے استادوں کے ساتھ کچھ ایساہی کیا ڈاکٹرصاحب کو آج ریاست کیسے یاد آگئی ڈر کر ملک چھوڑ کر بھا گ جانے والے کو ملک یاد کیسے آیا جس ملک نے ڈاکٹر صاحب کوشہرت عزت دی سب سے بڑھ کر اپنا نام دیا آج وزیر اعظم کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری پانچ سال کہاں تھے پہلے اس ریاست کا قر ض تو اتار لیں پھر لانگ مارچ کرنا کہیں ایسا نا ہو کہ آپ کا لانگ مارچ کامیاب نہ ہو اور دوبارہ ملک چھوڑ کرنا بھاگنا پڑ ے۔
کہیں ایسا تو نہیں یہ لانگ مارچ وزیر اعظم بننے کے لئے کیا جا رہا ہے کہ مجھے نگر ان وزیراعظم بنایا جائے نہیں تو اس بھولی بھا لی عوام کو ریاست کے نام پر میں سٹر کوں پر لے آو گا پورے لاہور کو دلہن کی طرح سجایا گیا اتنی رقم لگا نے کی کیا ضرورت تھی۔
حالانکہ آپ کو چایئے تھا کہ اس رقم سے ملک کی غریب لڑکیوں کی شادیاں کروا دیتے جس سے آپ کو ثواب بھی ہوتا اور غریبوں کی دعائیں بھی لیتے اتنی بڑی رقم سے کوئی فلاحی کام کروا دیتے مگر مولانا صاحب کوتو سیاست کا شوق ہے کینیڈا کی شہریت رکھنے والے کو چاہیئے کہ وہ پہلے ملک کی شہریت تو حاصل کر لیں اور اپنی جماعت کو رجسٹرڈ بھی کروائیں پھر جناب کو آٹے اور دال کے بھاو کا علم ہو جائے گا اس کے ساتھ ساتھ اپنے استادوں سے بھی معذرت کرلیں کیونکہ استاد استاد ہوتا ہے ان کے احسان کو ماننا چاہیئے مولانا صاحب ایم این اے منتخب ہوئے تو کون سی ایسی بات تھی کہ آپ کو سیاست اچھی نہ لگی اور ایم این اے شپ سے استعفیٰ دے دیا اگر جناب نے دوبارہ وزیراعظم کا خواب دیکھا ہے تو اس کے لیئے ایم این اے بننا ضروری ہے۔
اب جناب نے اتنا چندہ تو اکٹھا کر لیا ہوگا کہ جس سے الیکشن کا خرچا نکل آیا ہوگا اب جیب سے خر چ کر نے کی ضرورت نہیں پڑ ے گی آپ کی طرح سونامی خان نے بھی بہت بڑی باتیں کیں ہیں وہ تو اب خود کو وزیراعظم کہتے ہیں ہر جلسے میں کہتے ہیں کہ وزیراعظم میانوالی کا ہوگا۔
سونامی خان کو تو صرف وزیر اعظم کا پروٹوکول دینا ہی باقی رہ گیا ہے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کسی نے بھی اس ملک کیلئے نہیں سوچا جو آتا ہے اپنی اپنی زبان بولتا ہے اس ملک کو اچھے لیڈر کی ضرورت ہے ملک اس وقت جہاں کھڑا ہے وہ سب جانتے ہیں اس ملک کو قوم کی ضرورت ہے لانگ مارچ کی نہیں ملک کو کمزور مت کرو جب جس کا دل چاہتا ہے لانگ مارچ کی دھمکی دے دیتا ہے کبھی ہم نے سوچا کہ اس ملک کو ہم نے کیا دیا۔