ابھی دس جنوری کو کوئٹہ کے علمدار روڈ پر رونما ہونے والے المناک خونی کھیل جس میں معصوم انسانوں کا خونِ ناحق خشک نہیں ہوا تھا کہ سترہ فروری کی اندوہناک شام کوئٹہ کے ہزارہ کالونی میں امن کے دشمنوں اور انسانی خون کے پیاسوں نے ایک اور دھماکہ کر دیا جس نے تقریباً نوے سے زائد زندہ معصوم انسانوں کا خون چوس لیا اور دو سو کے قریب افراد کو زخمی کر دیا۔
اس طرح ایک بار پھر ہزارہ برادری کے لوگوں نے لاشوں سمیت پہلے ہزارہ ٹائون اور پھر پورے پاکستان میں دھرنا دے دیا۔دھرنا ان کا جائز حق ہے کیونکہ جہاں قتل و غارت گری رکنے کا نام نہ رہی ہو اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہو وہاں اس قسم کا احتجاج لازمی امر ہے۔ شہید و زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے ، ایک قیامت ہے جو بپا ہے ہزارہ ٹائون پر ۔ اس المناک، خونی اوربھیانک منظر کو دیکھ کر انسانی ضمیر کانپ اٹھتا ہے مگر ایسے مردہ ضمیر جو انسانی خون کے پیاسے ہوں ان ضمیر پر کوئی خلش نہیں ہوتی۔
حکومت کی طرف سے تو حسبِ روایت مذمتی بیان داغ دیا گیا ہے اور قاتلوں کو پکڑنے کا وہی پرانا نعرہ بھی دے دیا گیا ہے اور رپورٹ بھی حسبِ روایت طلب کر لی گئی ہے۔ مگر کیا سوگ کا اعلان کرنے سے اور لاکھوں روپئے مرنے اور زخمی ہونے والوں کے دیئے جانے کے اعلان سے ان کی روح پر لگے زخموں کو مندمل کر سکیں گے۔
پوری ریاستی مشینری عوام کو ان دہشت گردوں سے تحفظ دینے میں مصلحت کا شکار ہیں، ہر ایسے خونی واقع کے بعد کوئی تنظیم واقع کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہے ۔ ایک معتبر روزنامہ نے اٹھارہ فروری کو اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ اس سانحہ کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی نے قبول کر لی ہے تو حکومت کا یہ اعلان کہ اطلاع دینے والے کو دو کروڑ کا انعام دیا جائے گا کیا معنی رکھتا ہے؟ ان کے خلاف کاروائی کون کرے گا؟ ہر ایسے بھیانک سانحہ کے فوری بعد مذمتی بیان ، واقع کی رپورٹ جیسے، حکومتی بیان آتے ہیں مگر سانحات دوسرے دن بھولی بسری داستان بن کر گم گشتہ ہو جاتی ہیں۔
ملک میں امن قائم کرنے اور عوام کو تحفظ دینے والے ادارے مصلحت کے خول سے باہر نکل کر دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کاروائی عمل میں نہیں لاتے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ پھر تو ایسے خونی کھیل جاری ہی رہیں گے جب تک مجرموں کی پکڑ کو مضبوط طریقے سے عمل داری کے زمرے میں نہیں لایا جاتا۔
کوئٹہ میں تین دن سے جاری زندوں اور مُردوں کے احتجاج نے امن و سکون سے رہنے والوں کی آنکھیں کھول دی ہیں حکومت نے لاشوں اور ان کے ورثاء کی جی بھر کر تضحیک کی ہے ، تین دن تک کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہ تھا ، تین دن کے بعد آخر انہیں بھی خیال آ ہی گیا اور ایک مذاکراتی ٹیم وہاں پہنچی ہے اب دیکھئے کہ وہ کیا گل کھلاتے ہیں۔
اب تو وہاں ایک ہی التجا گونج رہی ہے کہ شہر کو فوج کے حوالے کیا جائے۔ شاید لاشوں کی بے حرمتی اور بدبو اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے اسی لئے ایک ٹیم روانہ کی گئی ہے ورنہ نہ جانے اور کتنے دن تک اس مسئلے کو درگزر کیا جاتا رہتا۔
چلیں حکومت خوابِ خرگوش سے جاگی تو سہی دیر آید درست آید ، شاید کہ کوئی کارہائے نمایاں ہو جائے اور دھرنا اختتام پذیر ہو۔ اب تو لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جا رہے ہیں کہ جو نظام لاشوں کی بے حرمتی بہت ہی آسانی سے ہضم کر سکتا ہے اس نظام سے اچھائی کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ میرے خدا میرے ایک بھی ہم وطن کے لئے حیات تنگ نہ ہو ‘ زندگی وَبال نہ ہو پشاور کی ایک جماعت نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے اور اس جنگ میں ابھی تک ان کے بھی کئی نامور لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ صدر صاحب کا بھی بیان آیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی مگر کیا اس عزم کے ذریعے ابھی تک ان کا قلع قمع کیا گیا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کاروائیاں مزید تیز ہو گئی ہیں۔ اس پر یقینا ہماری فوج گہری نظر رکھے ہوئے ہوگی اور ملک کو درپیش ظاہری اور پوشیدہ خطرات سے نمٹنے کے لئے تیار بھی ہوگی۔
pak Army
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے ارادے اور عزم میں مضبوطی اور اس کے خاتمہ تک کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کے لئے عزم و استقلال بھی جمع کر رکھا ہوگا۔ یقینا ہمیں اپنی افواج پر رشک ہے۔ سوات میں کامیاب آپریشن ہماری فوج کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے کوئٹہ کے عوام بھی اب فوج کو بلا رہے ہیں۔اس لئے ان کی داد رسی کو آیئے ورنہ تو ہمارے یہاں ہر روز ہی کوئی نہ کوئی درد ناک سانحہ رونما ہوتا ہے اور دوسرے دن بھولی بسری داستان بنا دیا جاتا ہے۔
آج کی موجودہ صورتحال متقاضی ہے اس بات کی کہ ملک اور ملک کے عوام کی فوری داد رسی کی جائے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کیا جائے کہ حکومت اور ملک کی تمام پارٹیاں عوام کے ساتھ ہیں اور جس سے یہ ثابت ہو کہ ہم اپنے فرائضِ منصبی سے برادرانِ وطن کی خدمت کو اپنا ترجیحی مقصد سمجھتے ہیں۔ ہم صرف اپنے قول و عمل کو درست کر لیں اور اپنے دلوں کو کشادہ کر لیں تو واقعی اس طرح کے عمل سے ہمارے دل کو بھی سکون و راحت ملے گی اور فرائضِ منصبی کی ادائیگی کیلئے راہ بھی ہموار ہوتا جائے گی۔
ہم ایسا کب کریں گے اس کا فیصلہ کب ہوگا ، اس بات کے انتظار میں ہزارہ ٹائون کوئٹہ اور پورے ملک کے عوام ہیں۔بالآخر چیف جسٹس صاحب نے سانحہ کوئٹہ کا از خود نوٹس لے لیا ہے میتوں کے ہمراہ احتجاج کا یہ اپنے طرز کا انوکھا احتجاج جاری ہے اور ساتھ ساتھ ملک گیر دھرنے بھی جاری ہیں ۔ تیس گھنٹے گزر جانے کے باوجود جاں بحق ہونے والوں کی تدفین نہیں کی گئی، وکلاء براردی بھی اس احتجاج میں عدالتی کاموں کا بائیکاٹ کرکے شامل ہیں۔ دیکھئے کہ اس از خود نوٹس سے بھی عوام کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں کیونکہ کراچی بد امنی کیس سے تو ابھی تک عوام کو کوئی افاقہ نہیں ہوا ہے۔ اس لئے عوام تذبذب کا شکار ہیں ۔ اس وقت سانحہ کوئٹہ کی وجہ سے قوم رنج و غم میں مبتلا ہے۔
وحدت المسلمین کے مطابق بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ہے۔ اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی قیمت ہے اورنہ ہی اس نے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ وہ یہ بھی اٹل حقیقت گردانتے ہیں کہ دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو خدانخواستہ کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔اس وقت تک یہی محسوس ہو رہا ہے کہ پوری قوم ہزارہ برادری کے غم میں برابر کی شریک ہے اور کیوں نہ ہو کہ خونِ ناحق تو پاکستانیوں کا ہی بہا ہے۔
Quetta
آج کے جمہوری دور میں احتجاج کے بھی کچھ نرالے اصول بن چکے ہیں۔ آج کی یہ عوامی حکومتیں پُر امن اور مظلوم قوموں کی درد بھری فریاد کو بھی ” ووٹ بینک” کی عینک سے دیکھنے کی عادی بن چکی ہیں۔ کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے درد ناک اور انسانیت سوزواقعات نے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ لیکن حکومت نے مستقبل میں ایسا کوئی دوسرا واقعہ نہ ہو اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام ابھی تک نہیں کیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بار بار کے احتجاج اور مطالبے کے باوجود بھی حکومت نہ تو حکومت چھوڑنے کو تیار ہے اور نہ ہی فوج بلانے کو تیار ہے اور نہ ہی وہ امن برقرار رکھنے میں مخلص ہے۔ کوئٹہ حکومت کو چاہیئے کہ لوگوں کے زخم کو ناسور بننے سے پہلے مداوا ضرور کرے۔