اولیاے امت اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نشانیاں ہیں اور ایسی نشانیاں ہیں کہ انہیں شعائر اسلام کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔اسلام کی ان متبرک نشانیوں کے اثرات سے اگر ہماری زندگیاں منور نہیں ہیں تو پھر ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ کہیں ہمارے دل میں جل رہاان کی عقیدت و محبت کا چراغ لو تو نہیں دے رہا ہے۔ایک بڑی غلطی جو ہمارے معاشرے میں دین اسلام سمجھ کرکی جارہی ہے وہ محبت و عقیدت کا غلط استعمال ہے۔ بزرگوں اور اولیاے امت کے تذکرے کرنا، ان کے نام پر محفلیں منعقد کرنا ،نیازوں کا اہتمام کرنا اور ان مواقع پر مسرتوں کے دیپ جلانا بلاشبہہ ضروری ہے اور یہ ساری چیزیں ہماری اجڑی ہوئی روح کی بستی میں چراغاں کرنے کا کام کرتی ہیں مگر کیاہی اچھا ہوتا کہ ان بابرکت چیزوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر ان بزرگوں کی تعلیمات اور ان کی سیرت طیبہ پر عمل کا جذبہ پیدا ہو جائے اور یہ محفلیں ،نیازیں اور مسرتیں ہمارے باطن کو شاداب کر جائیں۔
انہیں اولیاے امت کے سردار اور اللہ کے بڑے محبوب بندے حضور سیدناعبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیزکی ذات بابرکات سے منسوب ربیع الآخرکی گیارہ تاریخ ہمارے مذہبی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔اس گیارہویں کا امتیازیہ ہے کہ یہ سرکار عبدالقادر جیلانی کے سنہ ولادت یا وصال سے منسوب نہیں بلکہ ان کے اس جذبے سے منسوب ہے جس کا اظہار حضرت کی جانب سے ہر قمری مہینے کی گیارہ تاریخ کو مسلمانوں اور اور غریبوں اوربے سہاروں کے لیے ہوتا تھا اور ایک خلق کثیر اس سے مستفید ہوتی تھی۔اس روایت میں تہ میں اتر کر دیکھیں توپتہ چلے گا کہ گیارہویں کے موقع پر سرکار جیلانی حاجت مندوں کی حاجت روائی ،ضرورت مندوں کی مقصد برآری اور مصائب کے ماروں کی مشکل کشائی کے لیے اپنی خانقاہ کا دروازہ ہرکس وناکس کے لیے کھول دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ان کی یادمیں اس ماہ میں نیازوں وغیرہ کا اہتمام خوب ذوق وشوق اور محبت و عقیدت سے کرتے ہیں۔ اپنی اپنی بساط بھر اپنے اپنے گھروں پر جشن کا ماحول پیدا کرتے اور نیازیں کرتے ہیں۔اس موقع پر قرآن خوانیاں ہوتی ہیں اور کسب فیض کے لیے مقدور بھر کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس مبارک موقع پر بعض مقامات پر سرکار عبدالقادر جیلانی کی یادمیں مسلمان جلوس بھی نکالتے ہیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ جب سرکارجیلانی علیہ الرحمة والرضوان نہ گیارہ تاریخ کوپیداہوئے اورنہ اس تاریخ کووصال فرمایا تو کیوں کریہ گیارہویں ان سے منسوب ہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ سلطنت اسلامیہ کے زمانے میں حکومت اپنے ملازمین کو ہر قمری ماہ کی دس تاریخ کو تنخواہ دیتی تھی۔ملازمین کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ان کی تنخواہ کی ایک حصہ سرکار عبدالقادر جیلانی بغدادی کے نام سے منسوب ہوا س لیے وہ ان کے نام پر نیاز وغیرہ کا اہتمام کرتے تھے۔چنانچہ تنخواہ ملنے کے بعد جب شام کو وہ گھر واپس ہوتے تو نیاز کے لیے کچھ نہ کچھ شیرینی وغیرہ لیتے آتے اور اس پرفاتحہ ہوتی۔دس تاریخ گزار کر شام کو فاتحہ پڑھتے پڑھتے گیارہ تاریخ شروع ہو جاتی (قمری سال میں مغرب کے بعد اگلے دن کی تاریخ لگ جاتی ہے )۔اللہ کا فضل کہ یہ رواج ایسا پڑا کہ گیارہ تاریخ سرکار سیدناغوث اعظم جیلانی کی مبارک شخصیت کااستعارہ بن گئی ۔اب جب بھی لفظ ”گیارہویں شریف” بولا جاتا ہے تو دل و دماغ میں سرکارجیلانی کے اسم مبارک کی خوشبو پھیل جاتی ہے اور بے اختیار ہماری جبین عقیدت خم ہو جاتی ہے۔ سرکار عبدالقادرجیلانی نے اللہ کے یہاں اتنا عظیم مرتبہ پایا کہ ماہ ربیع الثانی نے کو اللہ نے انہیں سے منسوب کر دیا چنانچہ اب مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں یہ رچ بس گیا ہے کہ ربیع الاول حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے اور ربیع الثانی سرکار عبدالقادر جیلانی کامہینہ ہے۔ اب چاہے فاتحہ اور نیاز کا اہتمام گیارہ تاریخ کو ہو یا اس مہینے کی اور کسی تاریخ میں ،کہا یہی جاتا ہے کہ یہ گیارہویں شریف کا پروگرام ہے یا یہ گیارہویں شریف کا جشن ہے۔
برصغیر کے معروف عالم دین مولانا احمد یارخاں نعیمی علیہ الرحمہ نے اپنی ایک کتاب میں ”کتاب یازدہ مجلس ”کے حوالے سے لکھا ہے کہ سرکار جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارہ ربیع الاول کے موقع پر ہر سال بڑے ذوق و شوق اور عقیدت و محبت سے میلاد شریف کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ایک شب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عبدالقادر!تم بارہ تاریخ کو ہماری یاد مناتے ہواب گیارہ تاریخ کو ہمیشہ تمہاری یاد منائی جائے گی۔اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہی کہا جائے گا کہ اب یہ گیارہ تاریخ سرکار جیلانی علیہ الرحمہ کا حوالہ قرار پا چکی ہے اور ربیع الآخر کا مہینہ انہیں سے منسوب ہو چکا ہے۔اس گیارہ تاریخ کی تاریخیت اس وجہ سے اور بھی مسلم ہوگئی کہ دس تاریخ کو بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے جو اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین حصہ بن گئے۔حضرت آدم زمین پرتشریف لائے،حضرت آدم کی حضرت حواسے ملاقات ہوئی،حضرت نوح کی کشتی کنارے لگی،حضرت یونس مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے،حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی ،حضرت یعقوب کی اپنے فرزندسے ملاقات ہوئی،حضرت ایوب کو شفا نصیب ہوئی اور حضرت امام حسین کی شہادت ہوئی اور انہیں سیدالشہداء کادرجہ ملاوغیرہ وغیرہ۔اس مقدس ومتبرک دس تاریخ کے بعد جو شب آئی وہ گیارہویں کی شب تھی۔اس میں بھی معلوم نہیں اللہ کی کون سی حکمت ومصلحت کار فرماہے کہ بارہ تاریخ نبیوں کے سردارحضورصلی اللہ علیہ وسلم کاحوالہ بنی اورگیارہ تاریخ ولیوں کے سردار سرکار جیلانی قطب ربانی کے حوالے کے طور پر مشہور ہوئی۔
Abdul Qadir Jilani Roza
ماہ ربیع الثانی کی گیارہ تاریخ کو عقیدت مند مسلمان شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کی یاد مناتے اور ان کے مبارک عمل پر آگے بڑھاتے ہوئے ذکر و فکر کرکے اپنی عاقبت سنوارتے ہیں۔اس موقع پرہم یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان نیازوں ،دیگوں ،دعوتوں ،جلسوں اور جلوسوں وغیرہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے ۔حالانکہ خراج عقیدت کے اوربھی بہت سارے طریقے ہیں۔ان طریقوں سے سرکار محی الدین عبدالقادر جیلانی قطب ربانی شہنشاہ بغداد کے فیوض و برکات بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں اور آج کے مطالبات بھی پورے ہو سکتے ہیں۔آج کے دور میں ایک نہیں متعدد مسائل ہیں ،نت نئے تقاضے ہیں اور بہت سارے چیلنج ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔
ایسی صورت میں دانش مندی یہی ہے کہ ہم ترجیحی بنیادوں پر کام کریں اور اہم اہم تقاضوں کو پورا کر کے امت کو ان مسائل سے نجات دلائیں۔بلاشبہہ نیاز و فاتحہ بھی ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس طرف بھی دیکھیں کہ ہمارے عوام کی دوسری ضروریات کیا ہیں۔آج تعلیم و تربیت کے بغیر ترقی کا ایک زینہ بھی نہیں چڑھا جا سکتا۔ہمارے بچے فیس نہ ادا کر پانے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں، ہمارے بے قصور مسلم نوجوان جیلوں میں بند ہیں ،غریب بچیوں کی شادی نہیں ہورہی ہے،اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ا س طرح کے نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن سے ہم دو چار ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔اللہ کے فضل سے ہمارے پاس بہت سارے وسائل ہیں ،ضرورت صرف ہمارے عوام کو صحیح راستہ دکھانے اور ترجیحی کاموں کی اہمیت بتانے کی ہے۔ہم ذیل میں چند تجاویز تحریر کر رہے ہیں انہیں عملی جامہ پہنائیں اور سرکار سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمة والرضوان کی بارگاہ میں اپنا بہترین خراج عقیدت پیش کریں۔
٭جن کے گھروں میں کھانے پینے کی اشیانہ ہوں اس تاریخ کو وہاں حسب استطاعت راشن پہنچائیں۔ ٭جن کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہ ہوں ان کے لیے کپڑے کا انتظام کر دیں۔ ٭شہر کے چوراہوں اور عوامی جگہوں پر ایسے بینرس لگائیں کہ ان میں حضور تاجدار بغداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیمات درج ہوں اور یہ بینرس ہندی،اردو،انگریزی ،گجراتی ،مراٹھی اور علاقائی زبانوں میں ہوں۔ ٭غریب بچوں کی فیس کا انتظام کریں۔ ٭اپنے محلے کی مسجد کے امام،حفاظ اور ضرورت مندعلما کی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔ ٭قرض داروں کے قرضے کی ادائیگی کے لیے رقوم کا انتظام کر دیں۔ ٭مریضوں کی شفایاب کے لیے بلاتفریق مذہب وملت علاج و معالجے کا انتظام کریں ،یاتوطبی کیمپ لگائیں اور یا انہیں دوا وغیرہ کے لیے پیسہ فراہم کریں۔ ٭اپنے اہل خانہ خصوصاً اپنے بچوں کو گھر میں جمع کریں اور انہیں سرکار جیلانی کی تعلیمات سمجھائیں اور انہیں عمل کرنے کی تلقین کریں۔ ٭لنگر کا اہتمام مسلم محلوں سے زیادہ غیرمسلم محلوں اور عوامی چوراہوں پرکریں تاکہ لوگ اس گیارہویں کی اہمیت اورگیارہویں والے سے اچھی طرح آشناہوسکیں۔ ٭غیرمسلموں میں سرکار غوث پاک کی حیات و خدمات نیز تعلیمات پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کریں۔ ٭جن علاقوں میں مسلمان اس موقع پرجلوس کااہتما م کرتے ہیں وہاں کوشش کی جائے ٹرافک کانظام درہم برہم نہ ہو۔
Abdul Qadir Jilani
یہ سارے کام سرکار عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی محبت اور گیارہویں کی خوشی میں کیے جائیں تو حالات بہت بدل سکتے ہیں۔اگرہم اس طرح سے کام کریں گے تو عوام کی ضرورتیں بھی پوری ہو ںگی اور سیدنا شہنشاہ ِبغداد کی بارگاہ میں ایک عظیم خراج عقیدت بھی ہوگا۔واقعہ یہ ہے عصر حاضر کے تناظر اور مسلمانوں کی پسماندگی کے سیاق میں اس گیارہویں کے موقع پران تجاویزپر عمل کر کے ان کی بارگاہ اقدس میں اس سے بڑا خراج عقیدت کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ اب تقاضے بدل رہے ہیں رجحانات تبدیل ہو رہے ہیں اسی لیے اسی کے مطابق کام کیے جانے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کی تعلیمات و ہدایات پرعمل کی توفیق بخشے۔آمین۔