ابھی تو کل کی بات ہے کہ ایک امریکی شہری منصور اعجاز نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں حسین حقانی پر پاکستان کے خلاف ایک سازش تیار کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور اس سازش میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو بھی ملوث کیا گیا تھا۔
منصور اعجاز کا اصرار تھا کہ جوہری اثاثوں کے بارے میں حسین حقانی نے اپنے خط میں جن امور کا ذکر امریکی حکومت کو لکھے گئے میمو میں کیا ہے وہ صدرِ پاکستان کی اشیرواد کے بغیر ممکن نہیںتھا۔یاد رہے منصور اعجاز امریکی شہری ہیں اور ان کے پاس پاکستانی شہریت نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ نے انکی اس دخواست کو جس طرح پذیرائی بخشی اس نے بڑے بڑے قانون دانوں کو ورطہِ حیرت میں گم کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست پر ایک لارجر بنچ تشکیل دیا اور یکایک مقدمے کی کاروائی شروع کر دی ۔میاں محمد نواز شریف بھی اس مقدمے میں ایک فریق بن گئے تو رہی سہی کسر پوری ہوگئی۔اب پی پی پی کے گلے میں غداری کا طو ق سجانے میں کوئی کسر باقی نہ رہ گئی تھی کیونکہ میڈیابھی منصور اعجاز کی زبان بول رہا تھا لیکن منصور اعجاز نے پاکستان میں اپنی سیکورٹی کے حوالے سے ناقص انتظامات اور اپنی جان کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر سپریم کورٹ میں پیش ہونے سے معذرت کر لی تو مقدمے کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور حکومت کے مخالفین کی ساری خواہشات چکنا چور ہو گئیں۔
وہ تو اس پٹیشن سے صدرِ پاکستان کو غداری کا مرتکب ثابت کر کے قصرِ صدارت سے رسوا کن انداز سے باہر پھینکنا چاہتے تھے۔ مخالفین کی سر توڑ کوشش تھی کہ اس پٹیشن کی ہر حالت میں شنوائی ہو لہذا انھوں نے ایک اچھوتا خیال پیش کیا۔انھوں نے تجویز پیش کی کہ چونکہ یہ مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے لہذا عدالت امریکہ میں جا کر منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کرے۔
سپریم کورٹ نے حکومت مخالفین کی اس رائے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے لندن میں منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں حکومت کو نیچا دکھانے کیلئے عدالت نے غیر ملکی سرزمین پر اپنی عدالت لگا لی۔پاکستان کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جس میں کسی غیر ملکی کی خوشنودی کی خاطر عدالت بیرونِ ملک سجائی گئی تھی۔مقدمے میں کچھ تھا ہی نہیں لہذا وہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔
Supreme Court
مخالفین کی ہار یقینی تھی کیونکہ سب کچھ بد نیتی پر مبنی تھا لیکن پھر بھی مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔حیرانگی کی بات یہ تھی کہ ایک امریکی شہری کی پٹیشن کو اتنی اہمیت دی گئی کہ اس کیلئے عدالت نے اپنی توقیر کی بھی پرواہ نہ کی اور عدالت لندن میں لگا ڈالی تا کہ آصف علی زرداری کو شکار کیا جا سکے لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ سب کچھ جھوٹ پر مبنی تھا اور یوں مخالفین کی سر توڑ کوشش کے باوجود آصف علی زرداری اس سازش سے بالکل مامون و محفوظ رہے اور مخالفین کو ذلیل و خوار ہونا پڑا۔
اب ایک دوسرا منظر ہمارے سانے آتا ہے۔ ادارہ منہاج القرآن کے چیرمین ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری الیکشن کمیشن کی تشکیل پر سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرتے ہیں لیکن عدالتی کاروائی سے ا یسے محسوس ہوتا ہے جیسے عدلیہ ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری کی تذلیل کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ کہاں ایک غیر ملکی کی ناز برداریاں اور کہاں ایک پاکستانی شہری کو غیر ملکی کہہ کر اس کی پٹیشن کا ستیا ناس کرنا اور اسے بدنیت قرار دینا۔کیا یہ دووہرا معیار نہیں ہے؟ عدالت کاکام سوالی کی نیت پر شک کرنا نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے تضحیک کا نشانہ بنانا ہوتا ہے بلکہ آئین و قانون کی روح کے مطابق فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے۔سائل کو یہ کہنا کہ دوہری شہریت کی وجہ سے وطن سے آپ کی وفا داری مشکوک ہو گئی ہے ایسے ریمارکس ہیں جو کسی بھی شخص کو طیش دلانے کے لئے کافی ہیں ۔ہر پاکستانی سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان سے اپنی وفادای پر شکوک و شبہات کے بادل برداشت نہیں کر سکتا۔
اگر عدالت کے روبرو ڈاکٹر علامہ طاہر القادری جیسی دبنگ شخصیت ہو تو پھر ایسی شخصیت کو اپنے ردِ عمل سے روکنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح کے ریمارکس کے بعد ایسی شخصیت کا خاموش رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے پاکستان اور اسلام کیلئے بے پناہ خدمات سر انجام دی ہیں لہذا اس الزام کو برداشت کرنا ان کیلئے ممکن نہیں تھا لہذا انھوں نے چیف جسٹس کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنی صفائی میں عدالت کے روبرو وہ کچھ کہہ دیا جو شائد ججز کو اچھا نہیں لگا اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔آئین بنانے والوں کو بھی اس بات کا علم تھا کہ وہ اپنے شہریوں کو دوہری شہریت کی اجازت دے رہی ہے تو دوہری شہریت کے حامل افراد کو دوسرے ملک کا حلف بھی اٹھانا ہو گا۔انھیں اس حلف کی عبارت کا بھی علم ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اجازت دیتی ہے کیونکہ ریاست محسوس کرتی ہے کہ اس کے شہریوں کے تحفظ کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔اب جسے ریاست قانونی شکل عطا کر دے کسی بھی اد ارے کو اسے غیر آئینی کہنے کا حق نہیں ہوتا ۔اس قانون کو پار لیمنٹ نے آئین کا حصہ بنایا ہوا ہے لہذا عدالتوں کو فرض ہے کہ وہ اس قانون کی روح کے مطابق فیصلے صادر کریں۔ذاتی پسند و نا پسند کو قانون کی راہ میں حائل نہیں ہو نا چائیے ۔ ڈاکٹرعلامہ طاہرا لقادری کوئی پہلے فرد نہیں ہیں جھنوں نے دوہری شہریت کے رکھی ہے۔اس سے قبل لاکھوں پاکستانی دوہری شہرت کے حامل ہیں۔اب ان سب کی نیتوں پر بھی شک کیا جائے گا اور انھیں غیر ملکی کہہ کر پکارا جائے گا تو پھر پاکستانیت کی خوشبو کہاں سے آئے گی؟ یہ بات ہر شخص کے علم میں ہے کہ ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری دوہری شہریت کے حا مل ہیں اور عدالت بھی اس سے باخبر تھی۔اب اگر عدالت کو دوہری شہریت کی وجہ سے اس پٹیشن کو سننا ہی نہیں تھا تو پھر وہ اس پر اعتراض لگا کر التوا میں ڈال سکتی تھی تاکہ عدالتی فیصلے کی وجہ سے جو بد مزگی پیدا ہو گئی ہے اس کی نوبت نہ آتی۔اس بات پر تو کوئی شخص یقین کرنے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستان سے وفاداری کسی مخصوص گروہ کے ساتھ مخصوص ہے۔
Election
ہر پاکستانی اپنے وطن سے وفادار ہے جس کا ثبوت اس نے اکثر وبیشتر اپنے لہو سے دیا ہے لہذا عدالت کو اس طرح کے ریمارکس سے پرھیز کرنی چائیے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہو اور دوہری شہریت والے پاکستانی غیر ملکی قرار پاتے ہوں۔ سمندر پار پاکستانی اس فیصلے کے بعد خود کو اچھوت سمجھ رہے ہیں اور انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ جب سے عدلیہ آزاد ہوئی ہے اس میں جارحیت کا عنصر زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے جسے عوام آزاد عدلیہ کے نام پر برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔عدلیہ کبھی کبھی آئینی حدود سے تجاوز بھی کر جاتی ہے جسے قانونی ماہرین عدالتی ایکٹوازم کا نام دیتے ہیں اور اس۔ عدالتی ایکٹو ازم کا نشانہ وفاقی حکومت بنتی ہے کیونکہ میاں بردران کے ساتھ عدلیہ نرم گوشے کا تاثر دیتی ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئینی طریقہ کار کو ملحوظِ خا طر نہیں رکھا گیا۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابرا ہیم کی کی حد تو تو بات ٹھیک ہے لیکن اس کے چاروں ممبران کی نامزدگی پر سوالیہ نشانات ہیں ۔بہتر ہوتا کہ اس مسئلے کو انتخابات سے پہلے طے کر لیا جاتا تا کہ انتخابات کے بعد کوئی انہونی صورتِ حال پیدا نہ ہو جائے ؟آج کل ٹیلیویژن پر ١٩٨٨ کی اسمبلی کی بحالی کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر بڑے تواتر سے کیا جا رہا ہے ۔کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ ١٩٨٨ میں سپریم کورٹ اسمبلی کی تحلیل کو ناجائز سمجھ رہی تھی لیکن پھر بھی اسے بحال نہ کیا کیونکہ قوم انتخابات کے لئے تیار ہو چکی تھی لہذا انتخابات کے راستے کو روکا نہ گیا۔اسی تناظر میں ان افراد کا موقف ہے کہ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئینی راستہ نہیں اپنایا گیا لیکن چونکہ اب انتخابات سر پر ہیں لہذا بہتر ہو گا کہ اس آئینی سقم کو بھول کر اسے قبول کر لیا جائے اور انتخابات کی راہ نہ روکی جائے کیونکہ حاجی سیف اللہ کیس میں سپریم کورٹ نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا۔اس طرح کے دلائل دینے والے افراد عوام کو گمراہ کرنے کی کشش کر رہے ہیں۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ حقیقت نہیں ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ جنرل ضیاا لحق کی موت کے بعد سپریم کورٹ جنرل ضیا لحق کے اسمبلی توڑنے کے حق کے خلاف فیصلہ دینا چاہتی تھی۔
اس وقت کی اسمبلی کو بحال کرنا چاہتی تھی لیکن جنرل اسلم بیگ اور صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کو اس طرح کا فیصلہ قبول نہیں تھا۔جنرل اسلم بیگ نے اپنے حالیہ ٹی وی انٹر ویو میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جب ہمیں اس بات کی بھنک پڑ گئی کہ سپریم کورٹ اسمبلی کو بحال کرنا چاہتی ہے تو ہم نے سینیٹ کے چیرمین وسیم سجاد کے ذریعے سپریم کورٹ کو یہ پیغام پہنچایا کہ اگر اسمبلی بحال کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر ہمیں سڑک پار کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔اس بیان کے بعد وہ فیصلہ آیا جس کا ریفرنس آج کل ٹیلیویژن پر بار بار دہرایا جا رہا ہے۔وہ فیصلہ سپریم کورٹ کا نہیں تھا بلکہ وہ فیصلہ فوج کا تھا۔
سپریم کورٹ تو اسمبلی بحال کرنا چاہتی تھی لیکن فوج کو یہ قبول نہیں تھا کہ اسمبلی بحال ہو اس لئے سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ سنانا پڑا کہ چونکہ قوم انتخابات کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہے اس لئے اسمبلی تحلیل کرنے کے غیر آئینی فیصلے کے باوجود ہم اسمبلی کی بحالی کا حکم نہیں دے رہے بلکہ انتخابات کا انعقاد کے فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ آئینی طور پر کسی غلطی کو محض اس وجہ سے کہ قوم انتخابات کی جانب جا رہی ہے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فرض کریں کہ انتخابات کے بعد دھاندلی کی وجہ سے نتائج تسلیم نہیں کئے جاتے اور یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کے وقت آئینی تقاضے پورے نہیں کئے گئے تھے تو پھر ان انتخابات کی آئینی حیثیت کیا رہ جائے گی۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ( چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)