دِل کو کراچی سمجھ رکھا ہے

Karachi

Karachi

ماں لختِ جگر کو جی بھر کر دیکھتی بھی نہیں۔اپنے خوبررو بیٹے کے ماتھے کو بوسہ بھی نہیں دیتی کہ وہ کونسا گوشہِ جگر کو کِسی محاز پر بھیج رہی ہے۔دیوانی ماں کا تو یقین کامل ہے کہ آفتاب کے چھپتے ہی اُس کا چاند گھر چلا آئے گا۔بیوی جاتے خاوند کو پلٹ کر نہیں دیکھتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ جارہا ہے لوٹ آنے کیلئے وہ یہ بھی جانتی ہے کہ یہ بھول کر نہیں یقینا گھر لوٹے گا۔

بہنیں اِس اُمید پر اپنی باتیں، قصے ،کہانیاں محفوظ کر لیتیں ہیں کہ شام کو بھائی کہ لوٹنے پر تبادلہِ خیال کریں گیں۔بیٹا مسکرا کر،خاوند جلد آنے کاوعدہ کرکے اور بھائی کچھ کھانے پینے کی فرمائش سُن کر واپس آنے کیلئے چلے جاتے ہیں۔

آفتاب بھی چھپ جاتا ہے اور قدرتی چاند بھی نورانیت باٹنے لگتا ہے۔وقت برف سے مقابلہ تن زیادہ رفتار میں پگھلتا جارہا ہے۔یہا ں تک کہ دوبارہ آفتاب کی آمد ہونے کی تیاریاں عروج پر نظر آنے لگی ہیں۔مگر ماں کا چاندپھر کبھی اُس کے آنگن تک نہیں پہنچا۔

خاوند کو بھی مطلب پرستوں نے تاحیات کیلئے وعدہ خلاف کر دیا۔بہنوں کے ارمان اور فرمائشیں کبھی پوری نہ ہوسکیں۔کِسی کی بوری بند لاش مِلی تو کِسی کو اندھی گولی نے ابدی نیند سلا دیا۔گودیں اُجڑتی رہیں ،سوہاگ داغِ مفارقت چھوڑتے گئے،بہنیں بھائیوں کے لاشے تکتی رہیں۔یہ بہت پرانے زمانے کا نہیں دورِ حاضرمیں شہرِ کراچی کا جانا پہچانا افسانہ ہے۔

کتنی ہی ملالائیں جنہوں نے تعلیم کو اپنے ہمراہ جوان کرنا تھا باپ کی شفقت سے محروم ہو چکی ہیں۔انہوں کے آشیانے میں اب چولہا نہیں جلتا کہ اِن ہستی کلیوں کا کفیل دہشت گردوں کی حکمرانی کا نشانہ بن کر تا حیات کیلئے لافانی جہان میں چلا گیا ہے۔بہت سی بیٹیاں ارفعہ کریم رندھاوا کے نقشِ قدم پر چلنے کی خواہش دلوں میں دبائے بیٹھی ہیں مگر انہیں بہترین پلیٹ فارم دینے کی بجائے بے یارومدد گار کر دیا جا تا ہے ۔کراچی کو جلایا نہیں سلگایا جا رہا ہے۔مارا نہیں تڑپایا جا رہا ہے۔صبح گھر سے نکلنے والا شام کو واپس لوٹ آنے پر جشن مناتا ہے ،شکرانے کے نوافل ادا کرتا ہے۔شر پسند عناصر ،دہشت گرد کرتب دکھانے والے مداری ،شعبدہ بازبنے ہیں ،ہم عوام اُن کا ”بچہ جمورا” اور مسندِ اقتدار جمہوریت کے دعویدار تماشائی بنے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

مداری کیا کمال کے کرتب باز ہیں بڑی صفائی اور مہارت سے جان کو جسم سے جدا کردیتے ہیں ۔اور شعبدہ بازی میں وہ ملکہ رکھتے ہیں کہ لمحوں میں یوں غائب ہو جاتے ہیں جیسے سینگوں کے نیچے سے گدھا ۔ یہ شعبدہ باز ،کرتب نگار،ساحر بادشاہ آخر ہیں کون…؟ایک بات تو روزِ روشن کی طرح واضع ہے کہ یہ مسلم ایمان نہیں ہیں۔اور نہ ہی کِسی فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہیں،یہ نہ ہی تو سُنی ہیں اور نہ ہی شیعہ ،نہ ہی دیو بند ہیں اور نہ ہی اہلیحدیث تو سوال پھر وہی کھڑا ہے کہ حکومت اور انٹییلی جینس اِن خون کی ہولی کھیلنے والوں کا شجرہ نسب کیوں منظرِ عام پر نہیں لاتی؟کیا بیرونی ہاتھ اتنے ہی لمبے اور طاقت ور ہو گئے ہیں کہ ہماری جانوں تک آن پہنچے ہیں۔

کراچی منتشر ہوتا جا رہا ہے۔ نارتھ ناظم آباد، سخی حسن ،بلدیاں ،آگرہ تاج، میٹروول، برنس روڈ،گلبرک ،گارڈن، لانڈھی، لیاقت آباد، عاشہ منزل، اورنگی،،کورنگی، ناگن چورنگی، سہراب گوٹھ ،منگو پیر، لیاری، ویٹا چورنگی ،عثمان آباد، سول لانڈھی، بھینس کالونی، ما واچھ گوٹھ، دھوبی گھاٹ، پاک کالونی،صدر وغیرہ کراچی کا کوئی علاقہ ،بازار ،محلہ ایسا نہیں جہاں خون کی ہولی نہ کھیلی جا رہی ہو۔

killed People Karachi

killed People Karachi

پندرہ سے بیس بے گناہ معصوم روزانہ لقمہِ اجل بن رہے ہیں۔رواں سال گزشتہ ماہ جنوری میں تقریبا ً245افراد کو جابحق کر دیا گیا ۔کون جواب دہ ہے لواحقین اپنے پیاروں کا لہو کِس کی آستینوں پر تلاش کریں؟بسیں جل رہی ہیں ،سڑکوں پر کاروں سے بوری بند لاشیں کھلے عام پھنکی جا رہی ہیں۔

کلینکس میں گھس کر ڈاکٹرز کو نہ صرف زدو کوب کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں بھی اندھی گولی کا نشانہ بنا یا جا رہا ہے،بسوں میں فائرنگ، پولیس موبائل اور تھانوں پر دستی بموں کے حملے ہو رہے ہیںملک کے محافظ ہی محفوظ نہیں،روڈ بلاک کر دئے جاتے ہیں،آئے روز ہڑتال کاروباری مراکز سکول سب بندہے۔پولیس کی اضافی نفریاں بھی طلب کی جارہی ہیں مگر کچھ چارہ گر نہیں ہو پا رہا۔

کبھی آباد کرتے ہیں کبھی برباد کرتے ہیں
دِل کو کراچی سمجھ رکھا ہے لوگوں نے

مجھے یاد ہے گزشتہ دِنوں رحمان ملک نے کہا تھا کہ آئندہ ماہ فروری میں کراچی میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری ہو سکتی ہے۔صاحب یہ بھی فرما رہے تھے کہ کراچی میں تین کالعدم تنظیمیں قتلِ عام کر ہی ہیں اور قانون نافظ کرنے والے ادارے ٹارگٹ آریشن کر ہے ہیں۔ ملک صاحب خدارا اب یہ بھی بتادیجئے کہ یہ آپریشن کب تک چلتا رہیگاI.C.Uسے کراچی کو کب نکالیں گے؟ آپ کے بیان کہ مطابق آپ موجودہ دہشت گردی سے متعلق کافی علم کا خزانہ سینے میں چھپائے بیٹھے ہیں۔

فروری کی پیشن گوئیاں جنوری میں دے رہے ہیں تو اِن انہونیوں کا دفاع کیوں نہیں کرتے ؟ظاملوں کو کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جا رہا ؟دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک بصیرت کیوں نہیں جاتی۔یہاں علمِ غیب کام کرنا کیوں چھوڑ دیتا ہے؟؟اآخر کب تک جمعہ کی نمازوں میں موبائل سروس بند کرتے رہیں گے۔موٹر سائیکلوں پر پابندی یہ سب تو عوام کو مزید پریشان کرنے کا طریقہ ہے۔جِس نے تخریب کاری کرنی ہے اُس نے ثبوت ساتھ لے کر نہیں پھرنا ۔حکومتِ وقت کومیری عاجزانہ و مودبانہ گزارش و چند مشورے و تجاویز ہیں۔ کہ شہرِ کراچی کے داخلی اور خارجی تمام راستوں پر اہلکار تعینات کر دیں جِن میں سے ایک پسِ مورچہ رہ کر مونیٹرنگ کریں۔ شہرمیں ہر آنے اور جانے والی گاڑی کی مکمل جامع تلاشی لی جائے۔

(2) کرائے کہ گھروں اور ہوٹلوں میں موجود افراد کی مردم شماری کی جائے اور اِن رہائش گاہوںمیں فیملیز اور چھڑوں کی الگ الگ فہرستیں مرتب کی جائیں اور اِن تمام مردوں کا ذریعہ معاش اور شہریت کے بارے پو چھا جائے۔
(3) کراچی شہر میں غیر قانونی اسلحہ داخل نہ ہونے دیا جائے۔ایک نوٹس جاری کیا جائے کہ تمام تر اسلحہ رکھنے والے اپنا اپنا لائسینس دوبارہ نئے سرے سے بنوائیں اور اس کام کیلئے صرف ایک ماہ کی مہلت دی جائے۔پُرانے تمام لائسینس کینسل کر دیئے جائیں۔
(4) اگر کوئی ایک بھی تخریب کار، دہشت گرد بمعہ ثبوت پکڑا جاتا ہے تو اُسے کِسی آباد چوراہے میں کھڑا کر کے عین اُسی طرح گولی ماری جائے جِس طرح اُس نے معصوموں کو نشانہ بنایا ۔تاکہ اُس کے پیٹی بھائیوں کو آئینہ دکھایا جاسکے۔
(5) تمام کاروں اور موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹس کا سائز ذرا بڑا اور واضع کر وا دیا جائے تاکہ نمبرز نمایاں ہو سکیں ۔ اِس طرح بہت سی بے نمبر گمنام گاڑیاں بھی سامنے آ جائیں گیں۔اپلائیڈ فار کو مین روڈ پر چلنے کی قطعی اجازت نہ دی جائے۔
(6) مین بازاروں میں سیکیورٹی کیمرے نسب کیے جائیں جنہیں باقاعدہ مونیٹر بھی کیا جا رہا ہو ۔بڑی نمبر پلیٹ سے نمبر واضع مونیٹر کیا جاسکے گا۔عین موقع پرمونیٹرنگ کرنے والے کی نشاندھی پرمجرم اگلا اشارہ بھی کراس نہ کر پائے گا۔
(7) ایک ہی شخص کے نام پر ایک سے زائد سمیں بلاک کر دی جائیں۔ہو سکے تو ایزی لوڈ کا نظام ہی ختم کر دیا جائے ۔ کارڈ یا ایزی لوڈ جِس کے نام سِم جاری کی گئی ہے اُس کے اصلی شناختی کارڈ یا کاپی اور نام بتانے پر دیا جائے۔ہر سِم کی منیاد مقرر کر دی جائے۔
(8) نوجوانوں کی مخصوص سولین فورس تیار کی جائے اورجو 15اور 1122کی مانند تیز ترین سروس مہیا کر ے اور ایک مخصوص نمبر پر کال کرنے سے یہ ٹیم فوراً متعلقہ علاقے کا محاصرہ کر لے چند ہی گھنٹوں میں سرچ آپریشن کر کے گناہ گاروں کو تلاش کرے۔اور اِس مخصوص ٹیم کے اہلکار عام عوام کا حصہ بھی ہوں۔

اگر صرف تماشائی ہی بنے رہنا ہے توبرائے کرم ایک اشتہار دے دیا جائے کہ شہری گھروں سے نکلتے وقت کلمہِ طیبہ پڑھ کر اپنی اپنی جیبوں میں اپنے گھروں کا ایڈریس اور گھر والوں کے موبائل نمبرز رکھ کر نکلا کریں۔

Muhammad Ali Rana

Muhammad Ali Rana

تحریر : محمد علی رانا (کراچی)
muhammadalirana26@yahoo.com
0300-3535195
NIC # : 42501-4909639-1
http://www.facebook.com/muhammadalir1
http://www.facebook.com/NiceBookKashMainBetiNaHoti?fref=ts