ہر سال کے اختتام پر امریکی صدر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جنوری یا فروری میں خطاب کرتا ہے جس میں ملکی صورتحال پرروشنی ڈالی جاتی ہے اور صدرپارلیمنٹ کے ارکان کو یہ بتاتا ہے کہ آنے والے سال میں وہ کیا اہم فیصلے اور قانون سازی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس میں سینٹ اور کانگرس کے ارکان سے کس تعاون کی توقع کی جاتی ہے۔اس طرز کا پہلا خطاب امریکہ کے بانی قائد جارج واشنگٹن نے8 جنوری 1790 کو نیو یارک شہر میں اس لئے کیا تھا کیونکہ ا سوقت نیو یارک امریکہ کا عبوری دارالحکومت تھ.
1880 میں امریکی صدر تھامس جفرسن نے اس روایت کو یہ کہہ کرختم کردیا کہ اس خطاب میں شاہانہ طرز عمل کی جھلک نظر آتی تھی اس کے بعد پارلیمنٹ کے ارکان کو صدر کا سالانہ پیغام لکھ کر بھیجا جانے لگا لیکن پھر 1913 میںصدر Woodrow Wilson نے خطاب کرنے کی پرانی روایت کو دوبارہ شروع کردیا۔
صدر کی اس تقریر کو شروع میں کانگرس کیلئے صدر کا سالانہ پیغام کہاجاتا تھا لیکن 1934 میں صدر روز ویلٹ نے State of the Union کی اصطلاح پہلی دفعہ استعمال کی جو آج تک جاری ہے۔ صدر اوباما کا حالیہ خطاب ان کا اپنے دورِ حکومت کا پانچواں State of the Union Adress تھا۔اس خطاب میں اوباما نے ایک تو امریکی ہنر مندوں کیلئے فی گھنٹہ اجرت کو بڑھا کر 9ڈالرز کردیا اور کہا کہ اس سے ایک تو بہت سارے امریکن خطِ غربت سے اوپر نکل آئیں گے .
دوسرا یہ کہ بیمار معیشت میں بھی کچھ نکھار آئیگا لیکن اس خطاب میں سب سے اہم بات جو امریکہ کے علاوہ یورپ اور جنوب ایشیا کیلئے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے وہ افغانستان سے 2014 تک نیٹو اتحادیوں کے انخلا کے تاریخی فیصلے کا اعادہ تھا۔ قارئین آئیے اب ہم کالم کی مختصر Space میں چند اہم سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ آخر کار امریکہ انخلا کا فیصلہ کرنے پر کیوں مجبور ہوا.
U.s.
دوسرا یہ کہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکہ کیلئے کونسی احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہونگی؟ تیسرا یہ کہ امریکی انخلا کے بعد خطے کے سیاسی اور سکیورٹی ماحول کے خدوخال کیا ہونگے؟ اور آخری یہ کہ متوقع صورتِ حال کا بطریق احسن مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو کیا کرناچاہئے؟قارئین سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے پاس فی الوقت افغانستان کو چھوڑ کر بھاگنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں چونکہ جانی نقصان بہت زیادہ ہے اور فتح کے دور دور تک امکانات نہیں۔2012 کے سال میں اگر تقریبا300 امریکن،افغان طالبان کے ہاتھوں اپریشن میں ہلاک ہوئے تو 340 امریکی فوجیوں نے اس کے علاوہ خودکشیاں کرکے اپنی جان لے لی۔
اتنی زیادہ خودکشیوں کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔کوئی بھی بڑے سے بڑا ملک جس کا ہر دن غروب آفتاب سے پہلے ایک سپاہی دشمن کے ہاتھوں ماراجائے اور ساتھ دوسرا خود اپنے آپ کو ذبح کر رہا ہو اتنا بڑا جانی نقصان دس سال کے لمبے عرصے تک برداشت نہیں کرسکتا خصوصا ایسے حالات میں جب ان جانی قربانیوں کے باوجود آپ دریا عبور کرنے کیلئے آگے بڑھنے کی بجائے دریا کے گہرے پانی میں مزید ڈوب رہے ہوں۔
اب ہم دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ امریکی انخلا کے وقت امریکہ کو جن اہم امور کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ کیا ہیں؟(1) پہلی بات یہ ہے کہ امریکی انخلاادھورہ نہیں بلکہ مکمل ہونا چاہئے۔ افغانستان میں فوجی اڈے قائم رکھنے کی امریکی خواہش خام خیال ہے اگر پچاس ممالک کی ڈیڑھ لاکھ فوج اپنی ساری تکنیکی صلاحیتوں کے باوجود بھاگنے پر مجبور ہوئی تو دس یا پندرہ ہزار امریکی فوجیوں کے چند افغانی ہوائی اڈوںپر قبضے کو افغان قوم کیسے برداشت کریگی؟ ان پر ضرور بار بار حملے ہونگے۔
(2) انخلا کی منصوبہ بندی کرتے وقت پاکستان کی حکومت اور فوجی قیادت کو اعتماد میں لینا اشد ضروری ہوگا(3) امریکی انخلا کے بعد کرزئی کی حکومت کا دھڑن تختہ نوشتہ دیوار ہے اس لئے کرزئی حکومت کی جگہ قومی حکومت لانا ضروری ہے ورنہ بغاوت کا ڈرہے(4) پوسٹ امریکہ افغانستان میں افغانستان کا امریکی آئین نہیں چلے گا۔آئین سازی کا کام افغانستان کی قومی حکومت پر چھوڑنا چاہئے۔ (5) مذکورہ بالا اہم ترین اورحساس معاملات کو بطریق احسن طے کرنے کیلئے امریکہ پاکستان اور طالبان سے سہ فریقی مذاکرات ضرور کرے۔
قارئین تیسرا اہم سوال امریکی انخلا کے بعد خطے کے خدوخال سے متعلق ہے۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نقاط اہم ہیں۔ (1) امریکہ اور نیٹو کے خلاف تاریخ کی ایک طویل ترین جنگ کے بعد افغانستان مزاحمتی فورسز یا افغان طالبان نے فتح حاصل کرلی ہے۔اس لئے امریکہ یہ بات ذہن نشین کرلے کہ طالبان پر کوئی حل تھونپنے یا ان کو نظر اندازکرنے سے خانہ جنگی ہوگی ۔امریکی رعونت میں اس خدشے کو عملی جامہ پہنانے کے جراثیم موجود ہیں۔(2)افغانستان سے پاکستان میں امریکی اور ہندوستانی مداخلت اور دہشت گردوں کیلئے مالی اور عسکری تعاون ختم ہونے کے بعد پاکستانی طالبان کی مزاحمت کمزور پڑ جائیگی اور وہ خود پاکستان کی نئی جمہوری حکومت سے سیاسی مذاکرات کے ذریعے حالتِ جنگ سے پر امن ماحول کی طرف Exit مانگیں گے۔
Pakistan Army
(3) امریکہ کی خطے میں عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستانی فوج کھل کر مسلح باغی عناصر کا قلع قمع کرسکتی ہے چونکہ پھر پوری پاکستانی قوم یہ مانے گی کہ یہ جنگ امریکہ کی نہیں پاکستان کی سلامتی کی ہے۔(4) امریکی انخلا کے بعد قبائلی پٹی کے لوگوں کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنے،ان کی معاشی خوشحالی کے منصوبے بنانے اور ان کی حکمرانی کے نظام کی ازسر نو تعمیر کیلئے دوررس سوچ والا تجربہ کار States Man چاہئے ان گھمبیر معاملات کو سلجھانا موجودہ حکمران سیاسی اتحاد کے بس سے باہر ہے۔
لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم (5) امریکی انخلا کے بعد بھی افغانستان پر پاکستان، ایران، روس، چین، ہندوستان اور سب سے بڑھ کر خود امریکہ کی نظریں مرکوز رہینگی۔ پاکستان کو غیر جانبدار رہ کر افغان بھائیوں کے دل جیتنے ہونگے تاکہ وہ پاکستان دشمن طاقتوںکے ہاتھوںکا آلہ کار نہ بنیں۔ قارئین آخری سوال یہ ہے کہ متوقع سیاسی، سفارتی،معاشی اور عسکری ماحول میں پاکستان کی ترجیحات کیاہونی چاہئیں۔اس سلسلے میں مندرجہ ذیل معروضات پیش خدمت ہیں۔(1) پاکستان کو امریکہ،طالبان مذاکرات کیلئے خلوصِ نیت سے راہ ہمواراور ان کو کامیاب بنانے کیلئے مثبت کردارادا کرناچاہئے۔
(2) پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے دروازے بند کئے بغیر بہترین سراغ رسانی سے مسلح دہشت گردوں کی باغیانہ روشن کو کچلنے کیلئے ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔(3) قبائلی پٹی میں Maliksکے خاتمے کے بعد پرانا انتظامی ڈھانچہ برباد ہوچکا ہے۔اب زمینی حقائق کے مطابق نئے حکمرانی کے نظام کے خدو خال سامنے لانا ہونگے۔نئی سیاسی قیادت اس بات کافیصلہ کرے کہ قبائلی پٹی پہلے کی طرح نیم آزاد ہو ،خیبر پختون خواہ میں ضم ہوجائے یا نئے صوبے کی شکل میں ابھرے۔(4) بین الاقوامی اداروںکی مدد سے قبائلی پٹی میں فلاحی منصوبوں اور معاشی خوشحالی کا ایک بہترین نظام ترتیب دیاجائے۔
قارئین ہزارہ برادری کے ہمارے بھائیوں کے حالیہ ظالمانہ قتل سے ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ ملک دشمن عناصرجب ہماری سلامتی پرحملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیںتو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور ان کی سراغ رساں ایجنسیاں لوگوںکی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہوگئی ہیں اسکے خواہ ہم101 بہانے بنالیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ خصوصا بلوچستان میں پولیس نام کی کوئی موثر تنظیم نہیں، وزارت داخلہ کے نیچے کام کرنے والی فرنٹیر کور بے بس نظرآتی ہے۔
Terrorists
حکومت دہشت گردوں پر انکے مذموم عزائم کی تکمیل سے پہلے ان پر حملہ آور ہونے کی بجائے خود Passive،Defensive اورReactive موڈ میں ہے اس لئے ہمیں ملک کے اندر موجود دہشت گرد تنظیموں کو جڑ سے نکال کر باہر پھینکا ہے لیکن یہ بھی نہ بھولاجائے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی اس خونی جنگ میں ان بیرونی طاقتوںکا بھی برابر کا حصہ ہے جو ایران سے گیس پائپ لائن پاکستان لانے کی مخالف ہیں اور گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنے سے متعلق فیصلے کو تو امریکہ اور ہندوستان کیلئے ہضم کرنا بھی بہت ہی مشکل ہوگا۔
اس لئے میرا یہ ایمان ہے کہ افغانستان سے امریکی اور ہندوستانی انخلا سے حالات بہتر ہونگے اور پاکستان کے حالیہ انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں اہل، مخلص، دیانتدار اور غیر کرپٹ حکومت کے آنے سے کہنہ مشق بین الاقوامی سفارتکاری ،موثر اندرونی حکمرانی،دوررس قانونی اصلاحات اور کڑے احتساب کی وجہ سے پاکستان امن اور خوشحالی کی پٹڑی پر دوبارہ ضرور چڑھے گا لیکن اس کیلئے نیتوں کا صاف ہونا ضروری ہے ہماری ملکی قیادت کو ذاتی مفادات سے اٹھ کر قومی سوچ کو اپنانا ہوگا اقبال کے اس شعر پر کالم ختم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں…. خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصلدل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ تحریر : لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم