حکمران ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے مسائل پرتوجہ دیتے تو آج ملک کے حالات بہتر ہوتے۔گزشتہ روز وزیرداخلہ جناب رحمان ملک کا بیان پڑھ کر انتہائی دکھ ہوا جس میں انھوں کہا کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب نے بدتمیزی بند نہ کی تو میں اُن سے بھی زیادہ بدتمیزی کے ساتھ پیش آئوں گا۔
بڑے دکھ کی بات ہے کہ عوام مہنگائی ،دہشتگردی ،بدامنی،بے روزگاری،بدانتظامی،بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ،ناانصافی اور دیگر مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں اور حکمران ایک دوسرے کے ساتھ بدتمیزی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتیں ہمیشہ سے رونا روتے رہی ہیں کہ جمہوریت کو پورا وقت نہیں ملا،ہمیں عوام کی خدمت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا،اگر ہمیں پانچ سال پورے ملے ہوتے تو ہم یہ کر دیتے ہم وہ کردیتے۔
آج جب حکومت اپنی آئینی مدت یعنی پانچ سال پورے کررہی ہے تب بھی حکمران عوام کے لیے کچھ نہیں کرائے بلکہ آج عوام آمروں کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ سیاست دانوں سے تو فوجی ہی اچھے تھے۔ کم ازکم روزگار تو ملتا تھا اور مہنگائی بھی بہت کم تھی۔
Elections
اب اگر کوئی کہے کہ اُسے اپنی مدت پوری نہیں کرنے د ی گئی تو یہ بالکل بے معنی بات ہوگی۔ کیونکہ کوئی سیاسی جماعت نہیں جس نے الیکشن لڑا ہواور وہ کسی نہ کسی طرح حکومت میں شامل نہ رہی ہویا شامل نہ ہو۔
اب جب کہ عام انتخابات سرپر ہیں پھر بھی سیاست دان سنجیدہ نہیں ہیں ایسی بیان بازی کرتے ہیںجس کا مقصد سوائے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے اور کچھ نہیں۔
عوام شیدید پریشانی کے عالم میں یہ سوچ رہے ہیں کہ اب ووٹ کس کو دیں یہاں تو سارے کے سارے ہی ایک جیسے ہیں۔ ہر باشعور شہری ملک میں جمہوریت کے مستقبل کوسوچ کر پریشان ہے۔کیونکہ اگر سیاست دانوں نے اپنے آپ کونہ بدلا تو کون کہہ سکتا ہے کہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہ پائے گا۔
حکمرانوں نے جو گزشتہ پانچ سالوں میں کیا ہے اگراسی کو عوام کی خدمت کہتے ہیں توپھر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ خُدارا ایسی خدمت بندکردیں جس میں حکمران صرف ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔
ایسی خدمت کا عوام کو کیا فائدہ جس میں عوام روٹی کے لیے ترس رہے ہیں ،بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہوکر خودکشیاں کررہے ہیں۔