ڈگری صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ وہ معتبر چیز ہے جسے ہر طالب علم اسے سند کا درجہ دیتا ہے اور سند کے لفظی معنی ہیں کسی درجہ پر فائز ہونے کے۔ مگر جس ملک میں انسان اور انسانیت کی کوئی قدر نہ کی جاتی ہو وہاں انسان کی حاصل کی گئی ڈگر یسند کو کون اہمیت دیتا ہے۔
مگر جن لوگوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سالوں کو گنواں کراور محنت سے تعلیم حاصل کرکے یہ سند حاصل کر رکھی ہیں وہ اسے کبھی کاغذ کا ایک ادنیٰ سا ٹکڑا ماننے سے گریزاں ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ انہوں نے بغیر پڑھے اور بغیر کچھ حاصل کئے ڈگری نہیں لی۔
کاش کہ اس ڈگڑی کی اہمیت کو ہمارے لوگ سمجھ سکتے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ: جو شخص حصولِ علم کی مشکلات برداشت نہیں کرتا اس کو جہالت کی سختیاں ساری عمر برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مگرکچھ ایسے لوگ بھی ہمارے یہاں ملتے ہیں جو یہ جملہ کہنے میں بھی نہیں چُوکتے۔ ” ڈگری تو ڈگری ہوتا ہے چاہے اصلی ہو یا نقلی” افسوس کا مقام ہے کہ یہ جملہ ہمارے ملک کے ایک قابلِ قدر صوبے کے وزیرِ اعلیٰ نے کسی موقعے پر کہا تھا۔
کامیاب لوگ اپنے وقت کو بہترین انداز اور مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہ کامیابی انہیں حصولِ ڈگری کے بعد ہی میسرآتی ہے نہ جعلی طریقے سے لی ہوئی ڈگریوں سے۔ پڑھنا، مطالعہ کرنا ایک فن ہے وہ طلباء یا وہ افراد جو اس فن سے آگاہ ہوتے ہیں وہ کم محنت سے زیادہ نمبر حاصل کرنے میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے چند نا عاقبت اندیش لوگوں نے ڈگری بیچنے کا گھنائونا کاروبار کرکے ملک کے تعلیمی اداروں کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
اس کاروبار کو وسیع کرنے میں عام افراد بھی ضرور شامل ہونگے مگر سیاسی دائو پیچ کے ماہر لوگوں نے اس کاروبار کو بامِ عروج پر پہنچانے کو کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ وقتاً فوقتاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ عدلیہ نے کتنے سیاستدانوں کی ڈگریاں جعلی قرار دے کر ان کی رکنیت معطل کر دی تھی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔عدلیہ کے کہنے پر کئی جامعات نے ان کی ڈگریوں کی Verificationکی تو پتہ چلا کہ یہ تو جعلی ہیں اور ایسے لوگ ان جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر عوام کے ووٹوں کے ساتھ اعلیٰ اسمبلیوں میں پہنچ کر ان کے ووٹوں کی توہین کر رہے ہیں۔
ایک اور وفاقی وزیرِ موصوف نے یہ بیان داغنے میں کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کہ جعلی ڈگریوں سے کوئی قیامت نہیں آگئی ۔ کوئی بتلانے انہیں کہ ہم بتلائیں کیا۔ کم از کم انہیں اتنا تو معلوم ہونا ہی چاہیئے کہ یہاں بات صرف جعلی ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ بات اس جعل سازی کی ہے جو ان ارکانِ اسمبلی نے کی ہے اور ابھی تک کر رہے ہیں۔
دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو آج پاکستان میں کیا چیز جعلی نہیں ہے بلکہ سچ لکھ دوں تو آپ سب کو کڑوا ہی لگے گا ۔ چلیں لکھ ہی دیتا ہوں۔ کہ ہم تو پوری دنیا میں ماہر جعل ساز مانے جا چکے ہیں۔ جعلی دوائیں، جعلی پانی، جعلی الیکٹرانک کا سامان، جعلی پلاسٹک میٹریل، جعلی فوڈ آئٹمز، اور نہ جانے کیا کیا۔ دوائیوں کی بات کی جائے تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ جعلی دوائیں پی کر ہمارے ملک کے کتنے ہی جوان، بوڑھے، خواتین اور بچے موت کی نیند سو چکے ہیں۔
Member Parliament
دو نمبر کے کام کرنے والے افراد ہمارے لئے قومی المیہ سے کم نہیں ہیں مگر حکومت اس پر کوئی کاروائی نہیں کرتی۔ ہمارے قومی ادارے حتیٰ کہ اساتذہ تک میں جعلی ڈگریوں کے حامل افراد موجود ہیں جو جعلی ڈگریوں کی بدولت قوم کا مستقبل بگاڑ رہے ہیں اور اپنا مستقبل سنوارنے میں لگے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس چالیس ارکانِ پارلیمان کی ڈگریوں کا کوئی ریکارڈ سرے سے موجود ہی نہیں الیکشن کمیشن اس سلسلے میں تحقیقات کر رہی ہے اور اس کام میں وہ مصروفِ عمل ہیں کہ ڈگریاں کمیشن میں جمع کرائے بناء وہ ارکانِ اسمبلی کیسے پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ اس لئے تو لوگ یہ کہتے ہوئے شرمندہ بھی ہوتے ہیں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
اب تک تو ہم لوگ صرف طلباء برادری کو ہی خبروں میں دیکھتے رہے ہیں کہ انہوں نے نان گریجویٹ منسٹرز سے اسناد لینے سے انکار کر دیا ہے اور احتجاجاً اس کی پُر زور مذمت کرتے ہوئے وہاں سے واک آئوٹ کر گئے۔
آپ تصور کریں یہ کتنی درد ناک اور کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ طلبا ڈگری لینے سے معذرت کر رہے ہیں صرف اس لئے کہ جعل سازی سے اسمبلی میں پہنچ کر منسٹر بن جانے والے نان کوالیفائڈ منسٹر ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ایچ ای سی کے پاس اس جیزی پچپن جعلی ڈگریوں اور دو سو پچاس مشکوک ڈگریوں کی مثالیں ہیں اور یہ ایک مستند اخبار کے مطابق یہ تمام لوگ اس وقت نا صرف پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں بلکہ ان میں سے بعض افراد وزارتوں سے بھی خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں اور جعلی ڈگری سیاستدانوں کا ببانگِ دہل یہ دعویٰ بھی ہے کہ ان کی ڈگریوں کا راز افشاں نہیں ہو سکے گا کیونکہ بانسری بجانے کے لئے ہوتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بانس ہی ختم ہو جائے۔
شاید اسی دن کے لئے یہ محاورہ مشہور ہوا تھا کہ ”نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کا بانسری۔”ایک اور رپورٹ اُس وقت تھی کہ آج کے سابق وزیراعظم نے بھی فیک ڈگری ہولڈر اپنے رشتہ دار کو پاسپورٹ آفسز کا سربراہ بنا دیا۔اس رپورٹ میں کیا جھوٹ اور کیا سچ ہے اس سلسلے میں تو وہی لوگ جواب دے سکتے ہیں۔
جعلی ڈگریوں کے حوالے سے بدنامی جب اس حد تک پیل جائے کہ دنیا کو آپ میں کوئی خوبی نظر نہ آئے تو زمانہ آپ کو آپ کے حال پر ہی چھوڑ دینا چاہتا ہے کہ یہ دُم تو سیدھا ہونے والا نہیں۔ آج ہماری درسگاہوںکا المیہ بھی کچھ ایسا ہی دنیا بھر میں دکھایا جا رہا ہے کیونکہ تالاب میں اگر ایک مچھلی گندی ہو تو پورا تالاب ہی گندہ ہو جاتا ہے۔آج معاملہ چاہے جعلی ڈگریوں کا ہو یا کوئی اور اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے شخص سے لیکر نمائندہ افراد تک کا دامن صاف نہیں ہے۔ ہم کب تک خود کو اور اپنے وطن کو غیروں کے سامنے شرم شار کرتے رہیں گے۔
آخر ہم لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے اور علامہ محمد اقبال کے اس بیان کو حقیقت کیوں نہیں جانتے کہ ” خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ، جس کو خیال نہ ہو اپنی حالت کے بدلنے کا۔”ہمیں ان سے سیکھنا چاہیئے جو ہمیں چھوڑ گئے ہیں۔ قائداعظم ، علامہ محمد اقبال، سر سید احمد خان اور دیگر کے فرمودات پر عمل کیوں نہیں کرتے۔
پاکستان میں شفاف الیکشن کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن جعلی ڈگریوں کے حامل کسی بھی امیدوار کو انتخابی عمل سے دور رکھے۔ تاکہ پڑھا لکھا طبقہ اسمبلی میں پہنچ سکے اور جب تعلیم یافتہ طبقہ اسمبلیوں میں پہنچے گا تو پاکستان کو ترقی کے دوام پر لے جانے کے لئے اپنی تعلیمی استبداد کے مطابق عمل در آمد ضرور کرے گا۔ناکہ ایسے لوگ دوبارہ عوام پر مسلط کر دیئے جائیں جس سے ملک کا وقار مجروع ہو۔
Election Commission
الیکشن کمیشن اور فخرو بھائی سے عوام کو یہ امید ہے کہ آنے والا الیکشن انتہائی شفاف طریقے سے کرائیں گے اور کسی دبائو میں آئے بغیر اپنے فرائضِ منصبی کو نبھائیں گے کیونکہ یہ صرف چند لوگوں کا سوال نہیں ہے بلکہ پاکستان کے اٹھارہ کڑوڑ عوام کے مستقبل اور ترقی کا سوال ہے۔خدائے بزرگ و برتر ہم اور آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔