سبق بھی مفت نہیں ملتا

Bike

Bike

ایک شخص موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں غرق تھا اور توجہ روڈ کی طرف بھی مبذول تھی مگر اپنی قلیل تنخواہ اور مہنگائی کے طوفان اُس کے ذہن پر بار بار حملے کررہے تھے اِسی اثناء میں اُسے ایک آدمی نے رُکنے کا اشارہ کیا اور لفٹ مانگی۔ آدمی حلیے سے پڑھا لکھا اور معزز معلوم ہوتا تھا لہذا ُس نے اُسے موٹر سائیکل پر بٹھا لیا۔ معزز آدمی بولا’ کیوں نہ میں آپ کو ایک سبق آموز کہانی سنائو؟ وقت اچھا کٹ جائے گا”ضروربائیک سوار خوش اخلاقی سے بول۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کے کسی شجر کی ٹہنی پر ایک بلبل اُداس بیٹھا تھا وہ سارا دن کھاتا پیتا رہا ‘گھومنے پھرنے گانا گانے میں مگن رہا اور اُسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب شام ہوئی اور کب اندھیرا چھا گیا۔بلبل اِسی پریشانی میں تھاکہ اب وہ آشیاں تک کیسے پہنچے۔اِسی اثناء میں ایک جگنواُس کی مدد کو آن پہنچا جگنو نے روشنی کرکے بلبل کو راستہ دکھا دیا اور اُسے منزل تک پہنچا دیا۔معزز آدمی نے کہانی سنائی اور اتنے میں اُس کا سٹاپ آگیا اور وہ موٹر سائیکل سے اُتر گیا۔موٹر سائیکل سوار نے معزز آدمی سے مخاطب ہوکر کہا کہانی سُنانے کا شکریہ مگر یہ میں بچپن میں سُن چکا ہوں۔

معزز آدمی نے کہا دراصل آپ نے بچپن میں جو کہانی سُنی تھی وہ ادھوری تھی۔بقیہ کہانی یہ ہے کہ جیسے ہی جگنوبلبل کو چھوڑ کر واپس جانے کیلئے مڑا بلبل جِسے دوبارہ بھوک لگ چکی تھی اُس نے اپنی چونچ بڑھائی اور جگنو کو ہڑپ کرگیا۔بائیک سوار نے کہا اوہ…مگر اس کہانی سے اخلاقی سبق کیا ملتا ہے؟اس پر معزز آدمی نے کہا یہ تو آپ کو گھر پہنچ کر ہی معلوم ہوگااور موٹر سائیکل والے کا شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔بائیک سوار سوچ میں ڈوبا گھر پہنچا تو اِسے معلوم ہوا کہ اِس کی جیب میں بٹوا نہیں ہے ۔اب اِسے کہانی کا اخلاقی سبق اچھی طرح سمجھ آگیا۔اور ساتھی ہی اپنے ابا جی کا قول کہ بیٹا اِس زمانے میں سبق بھی مفت نہیں ملتا۔

بچپن میں یہ کہانیاں بھی کتنی دل چسپ اور بھلی معلوم ہوتی تھیں۔صرف کہانیاں سُنتے اور اُن سے محظوظ ہوتے مگر بڑے ہوکر پتہ لگا کہ اگر آس پاس بغور اپنے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو کہانیوں کے سارے کردار اپنے اِرد گردگھومتے بلکہ منڈلاتے نظر آئیں ۔ویسے بھی الیکشن کا موسم شروع ہوچکا ہے اور سارے سیاستدان جو پورے پانچ سال اپنی عیاشیوں میں مگن رہے اب پھر عوام کے اِردگرد سائے کی طرح منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔اور کم عقل عوام اُس بائیک سوار کی طرح پھر سے بے وقوف بننے کیلئے تیار ہیں۔

Pakistani Politicians

Pakistani Politicians

عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے دھڑا دھڑ ترقیاتی منصوبے شروع کیئے جارہے ہیں تاکہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے ۔سوال یہ ہے کہ ‘ پانچ سال تک یہ سیاست دان کہا سوتے رہے اور اچانک الیکشن کے دنوں میںجاگ گئے اور ساری ترقیاتی سکیمیں اور خوشحالی کے پلان ایک دم یاد آگئے اگر واقعی حکومت کی مدت ختم ہونے کہ قریب ٹوٹل 6’7 ماہ کے قلیل عرصے میں اتنے ترقیاتی کام ہوسکتے ہیں تو باقی کے ساڑھے چار سال کیا ہوتا رہا۔

میری ذاتی رائے جوکہ شاید نہیں یقینناًبہت سے تجزیہ نگاروں سے مختلف بھی ہوں ‘مگر میں اپنی رائے کا حق محفوظ رکھتا ہوںکسی کی دل آزاری ہو تو معذرت’مگر حقیقت یہی ہے کہ اکثر تجزیہ نگار’ماہرین سے مسلسل سُنتا آرہا ہوں کہ میڈیا کی آزادی اور شعوری مہم اور معلومات کے جدید سے جدید سہولیات میسر آنے کے بعد عوام بہت باشعور ہوچکی ہے ۔وہ اب اپنے مستقبل کے بارے میں بہتر فیصلہ کرسکتی ہے۔

یہ تجزیئے میری سمجھ سے بالاتر ہیں اگر تمام حالات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی ‘وہی ذات برادری کی سیاست وہی سیاست دانوں کے حربے وہی مورثی جانشین۔اور ہمیشہ کی طرح سے الیکشن قریب آتے ہی عوام کے قریب ہوجانا اور سبز باغ اور نوکریوں کے لالچ اور عوام کا اُ ن کے پانچ سال کی کارکردگی بھُول کر پھر سے اُن کے پیچھے چل پڑنا۔

اگر عوام کو پچھلے پانچ سال یاد آجائے تو کیاہی اچھا ہوں۔کہ معیشت تباہ برباد ہوچکی’اس عرصہ میں کوئی ایک ٹھوس جامع پالیسی نہ بن سکی ۔کراچی لہو میں نہاتا رہا ‘بلوچستان سُلگتا رہا ‘خیبر پختوانخوہ میں بم پھٹتے رہے ۔امیر لوگ مڈل کلاس اور
مڈل کلاس لوئر مڈل کلاس کی سطح پر آگئے غربت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیاغربت کی لکیر سے نیچے کا گراف 2008میں45%تھا جو اب 58%ہوگیاکاروبار کے مواقع ناپیدہوگئے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ۔

70فیصد سے زیادہ انڈسٹریز بند ہوگئی لاقانونیت ‘چوری’ڈکیٹیاں’رہزنی میں 100فیصد اضافہ ہوگیا۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔اب الیکشن کا وقت بہت قریب ہے عوام کو واقعی جاگنا ہوگا۔ورنہ پہلے تو کہانیاں سُنانے والے معزز آدمی نے بٹوا غائب کیا تھا ۔اب اگر غلطی ہوگئی تو بٹوے کے ساتھ موٹر بائیک بھی غائب ہوسکتا ہے غالب امکان ہے کہ بائیک سوار بھی۔ویسے بھی اِس زمانے میں واقعی سبق بھی مفت نہیں ملتا۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی