ازادی بنگلہ دیش کے ہیرو ولیم کی کتابuntold facts اور پھر اسکے اردو ترجمہ >پاکستان سے بنگلہ دیش ان کہی جدوجہد< کو پڑھا جائے تو ماضی کے کئی ایسے تاریخ ساز واقعات طشت ازبام ہوتے ہیں کہ عقل تحیر انگیز ہو جاتی ہے۔ ولیم لکھتے ہیں کہ جنرل جگجیت سنگھ اخری دنوں میں پچھتایا کرتا تھا کہ اس نے مشرقی پاکستان کومغربی حصے سے الگ کیوں کروایا؟ فاتح بنگال جنرل اروڑہ کہا کرتا تھا کہ رنگوں نسلوں فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی قوم کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا اسان ہوتا ہے۔ بنگالی مسلمان تو دھنیو ہیں دھنیو چٹاگانگ میں پیدا ہونے والی مرچ ہے۔
ولیم کی کتاب بتاتی ہے کہ جس سانحہ مشرقی پاکستان کو جدوجہد ازادی کے نام پر موسوم کیا جاتا ہے اصل میں وہ کیا تھا۔ اپنوں کے مظالم تو اپنی جگہ تھے مگر جو قتل و غارت شیخ مجیب اور مکتی باہنی نے کی اس پر ہلاکو چنگیز خان اور ہٹلر کی روحیں بھی شرما گئیں۔ ولیم کے مطابق مجیب الرحمن اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے نسل کشی کے انگشت بدنداں ریکارڈ قائم کئیؤ۔ ہر اس انسان کے سینے میں گولیاں پیوست کی گئیں جنکے دلوں میں زرہ بھر پاکستان سے محبت اور بھارت سے نفرت کا شائبہ تھا۔ پاکستان سے گلہائے عقیدت رکھنے والے بنگالیوں اور مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھانے کا جو خونی اغاز مجیب الرحمن نے کیا تھا اسکی قہرالود سفاکیت کا سلسلہ اج بھی جاری و ساری ہے۔
کرنل شریف الدین والیم پاک فوج کے ان تین فوجیوں میں شامل تھا جو باڈر کے راستے بھارت پہنچے جہاں انڈین فورس کی ہائی کمان نے انکی راہ میں دیدہ دل فرش واہ کردئیے تھے۔اندرا گاندھی نے بقلم خود بھگوڑوں کی سیاسی پناہ کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا۔ ولیم کسی زمانے میں جنرل اروڑہ کی انکھ کا تارا تھا۔اس نے مکتی باہنی کے شرپسندوں کو عسکری تربیت دی۔ سرمئی عقاب کے نام سے شہرت رکھنے والے ولیم کو جنگ ازادی میں کارنامے سرانجام دینے کے بدلے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ایوارڈ بیراتم دیا گیا۔1971 کی جنگ میں ولیم اپنے ایک بازو سے محروم ہوگیا۔ولیم کتاب میں اعتراف کرتاہے کہ اسے اج بھارتی فوج اور شیخ مجیب کا الہ کار بننے پر دکھ ہے۔
بنگالیوں کی جنگ کا ہیرو اج در در کی خاک چھان رہا ہے کیونکہ وہ بنگلہ دیش کا مطلوب ترین ملزم بن چکا ہے۔ولیم پر شیخ مجیب الرحمن کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ ولیم نے فرار کے وقت کوئٹہ میں دیگر فوجی دوستوں کو بتایا تھا کہ بھارت دونوں مشرقی اور مغربی حصوں کی تاک میں ہے۔ بھارتیوں کو ہمیشہ یہی خدشہ تھا کہ ڈھاکہ اور اسلام اباد نیو دہلی کا سینڈ وچ بناسکتے ہیں۔ ولیم منظر عام سے غائب ہے۔ ولیم کی داستان حیات اور تازیانہ عبرت بنے ہوئے انجام سے تاریخ کی یہ سچائی منکشف ہوتی ہے۔ کہ غداری کرنے والے کبھی ہیرو نہیں بن سکتے اور انکا انجام زیرو کی ریڈ لائن پر خش و خاک کی طرح مٹ جانا ہوتا ہے۔
Bangladesh
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے پاکستان کے خلاف محاز گرم کررکھا ہے۔ حسینائی سرکار نے جنگی جرائم کے نام پر خود ساختہ جنگی عدالت تشکیل دیکر پاکستانیوں کو پھانسی کے تختے کا دولہا بنانے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ دلاور حسین سعیدی کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ سزائے موت کے خلاف بنگال میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور اب تک 50 افراد مارے جاچکے ہیں۔ مجیب کی بیٹی نے ہیرو بننے کے چکر میں نفرت کو ہوا دیکر تعصب کی اگ کو شعلہ جوالہ بنا دیا۔ war courts کو16 مارچ1971 سے لیکر16 دسمبر1971 کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی میں سرزد ہونے والے جرائم کی تحقیق و تفتیش اور سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہے۔
چار دہائیوں بعد جنگی ٹریبونلز کا قیام نفرت کی دبی ہوئی چنگاریوں کو دوباہ شعلوں میں بدلنے کے مترادف ہے۔ ہماری نئی نسلیں مشرقی پاکستان کی دلگداز واردات سے نا اشنا ہیں مگر بنگالیوں کی دوسری و تیسری نسل عشق پاکستان کے روگ میں سزائیں بھگت رہی ہیں۔یوں اندرا گاندھی کا طنزیہ جملہ ہمیشہ کے لئے باطل ثابت ہوا کہ ہم نے دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔16 دسمبر1971 کے بعد مجیب کی انڈین نواز انتظامیہ میں بے سروپا ایکٹ کے تحت ہزاروں لوگوں کو پابند سلاسل رکھا۔پاکستان سے محبت کرنے والے بزرگ سیاسی رہنماوں کی وہ برادری جو بھارتی فورسز اور مکتی باہنی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتی تھی وہ تو نایاب ہوچکی ہے۔
متحدہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے اخری اسپیکر عبدالقادر خان کو اخری قداور پرو پاکستانی لیڈر قرار دیا جاسکتا ہے۔عبدالقادر ملا ابوالکلام ازاد کے بعد دلاور سعیدی تیسرے قد اور رہنما ہیں جنہیں بنگلہ دیشی ائین سے متصادم امرانہ جنگی ٹریبونل نے سزائے موت کی سزا سنائی گئی۔ سقوط ڈھاکہ تک پاکستانی بنگالیوں پر لازم تھا کہ وہ اپنے وطن کی سلامتی کی خاطر سربکف ہوجائیں۔حسینہ واجد کا جنگی ٹریبونل uno اور عالمی عدالت انصاف کے تقاضوں اور نظائر سے متصادم ہے۔
سعید دلاور نے چالیس سال پہلے مکتی باہنی اور باغیوں کے خلاف کاروائیوں میں حصہ لیا تھا۔ وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ میرے موکل دلاور حسین سعیدی کو غلط فہمی سے سزا دی جارہی ہے۔ اصل مجرم دلاور حسین ملک تھا جو رضاکار تھا اور تحریک ازادی بنگلہ دیش کے دوران مارا گیا تھا۔پاکستان دوست بنگالیوں نے پھانسی کی سزا پر ڈھاکہ کی گلیوں میں رقص کیا مگر افرین ہے ان بنگالی نوجوانوں پر جو اج بھی اپنے کافوری خون سے ڈھاکہ کے بازاروں میں دو قومی نظرئیے کی ابدی سچائی قلمبند کررہے ہیں۔ سلام ہے ایسے وفاشعار بنگالیوں کا جنکا دل اج بھی پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے۔
Hasina
حسینہ واجد کے جابرانہ اقدامات دو قومی نظرئیے کو جو اج کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے کو مسخ کرنے کی بھونڈی و گھناونی پالیسی پر عمل پیرا ہیں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی کو ولیم کی داستان الم کی روشنی میں جنگی ٹریبونلز کا فوری طور پر خاتمہ کردیں ورنہ انکا انجام بھی ولیم سے بدتر ہوگا۔ حسینہ واجد 4دہائیوں بعد ایک ایسی دھنیو بنی ہوئی ہیں جو ماضی کے ناسور بنے ہوئے زخموں پر لال مرچیں چھڑک رہی ہیں۔
حسینہ کو چٹاگانگ کی دھنیو بننا چاہیے جسکی ایک چٹکی اگر کمرے میں رکھ دی جائے تو اسکی چمک اور بو مخالفین کو تڑپنے پر مجبور کردیتی ہے۔ حسینہ واجد اور اسکے کم فہم وزرا کو جنرل اروڑہ کے اس جملے پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو چند قابل تقلید منظر عیاں ہوتے ہیں اروڑہ نے کہا تھا بنگلہ دیش خطرناک ملک بن چکا ہے جو نہ سنی ہیں اور نہ شیعہ وہ نہ تو بریلوی ہیں اور نہ ہی دیوبند مسلمان بس ایک ثقافت ایک رنگ ایک نسل میں گندھے ہوئے ہیں یہ جس روز یک جان ہوئے اور انکا مغز گھوم گیا تو پھر ہمارا سارا کھیل چوپٹ ہوسکتا ہے۔ تحریر : روف عامر