امام احمد رضا فاضل بریلوی (1921-1856) ایک عظیم فقیہ، محدث، دانشور اور دور اندیش عظیم مسلم رہنماء تھے، آپ کی ذات سیاسی بصیرت اور مومنانہ فراست کا بہترین نمونہ تھی، آپ اُمت ِمسلمہ کے داخلی اور خارجی مسائل و مشکلات پر حساس نظر رکھتے تھے اور مسلمانوں کی حالت ِ زار اور اُن کی فلاح و نجات کیلئے تدبیریں بھی پیش فرماتے تھے ، زندگی بھر مولانا احمد رضا کی فکر و نظر کا محور یہی رہا کہ اسلامی تہذیب دنیا کی ہر تہذیب پر غالب اورمسلمان بلند و بالادست رہیں ،آپ دین و مذہب ، سیاست و صحافت، معیشت و معاشرت، تعلیم و تجارت، غرضیکہ ہر میدان میں مسلمانوں کو سرخ رو اور پیش رو دیکھنا چاہتے تھے،اِس مقصد کیلئے آپ نے مسلسل جد و جہد فرمائی،بار بار اُمت مسلمہ کو جھنجھوڑا،علما اور قائدین کوفرائض منصبی کا احساس دلایا، کوتاہیوں پر زجر و توبیخ فرمائی اور آزادی و خودداری کی راہ ٔعمل متعین کی۔
گوآپ نے عملاً سیاست میں حصہ نہیں لیا،لیکن سیاست دانوں کی رہنمائی کا فریضہ بخوبی سرانجام دیا،جس وقت مسلم زعماء نے گنگا جمناتہذیب کو اپنا مرکز بنایا، پیشانی پر تلک کانشان سجایا اور ہندوؤں کو مساجد کے منبروں پر بیٹھایا،اُس وقت مولانا احمد رضا خاں نے انہیں نہ صرف متنبہ کیا بلکہ کفار کی دوستی اورشعار کو اپنانے سے بھی روکا اورقرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمایا کہ کفار ومشرکین کبھی بھی مسلمانوں کے بہی خواہ نہیں ہوسکتے ،اُس دور پر آشوب میں مولانا احمد رضا خاں وہ واحد مذہبی رہنما تھے جنھوں نے ہر اُس فتنے کے خلاف ابلاغ حق کا فریضہ بلا خوف لامتہ لائم ادا کیا جس نے عامة المسلمین کے مفاد کے خلاف کام کیا، اِس معرکے میں آپ کے خلفاء و تلامذہ نے بھی اہم کردار ادا کیا اور اعتدال و سنجیدگی کے ساتھ شریعت مطہرہ کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا،عالم اسلام کا یہ آفتاب 25صفر 1340ھ مطابق1921ء کو نمازِ جمعہ کے وقت بریلی میں غروب ہوگیا۔
مولانا احمد رضا فاضل بریلوی ایک کثیر التصانیف عالم دین تھے، دنیائے اسلام میں آپ کی تصنیف و تالیف کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے، ایک اندازے کے مطابق آپکی تصانیف 50علوم و فنون میں ایک ہزار سے زائد ہیں، اِس قدر تصانیف کے علاوہ آپ نے مختلف علوم و فنون کی تقریباً80کتابوں پر تعلیقات و حاشیے بھی تحریر کئے ہیں، اِس علمی سرمایہ کے علاوہ آپ کے دو علمی و فقہی شاہکار خاص طور پر قابل ذکر اور لائق ستائش ہیں، ایک 12 ضخیم جلدوں پر مشتمل فتاویٰ رضویہ جس کا پورا نام ”العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ” جبکہ دوسرا علمی شاہکار قرآن مجید کا اردو ترجمہ ”کنزالایمان فی ترجمة القرآن” ہے۔
Book
کے اِس عظیم مفکر،مدبر،عالم اور فقیہ کی اُن تقاریظ کا مجموعہ ہے ،جسے آپ نے مختلف کتب ورسائل اور فتاویٰ جات کے ضمن میںاردو،عربی اور فارسی زبانوں میں تحریر فرمایا، یہاںیہ بات واضح رہے کہ کسی تصنیف کی خصوصیت پر تحریری اظہار رائے نثری ادب میں تقریظ کہلاتا ہے ،تقریظ ہمیشہ کتاب کے شروع میں بطور افتتاحیہ درج ہوتی ہے،یہ وہ کلمات ہوتے ہیں جو ایک قاری کو مطالعے سے قبل کتاب، صاحب کتاب ، اسلوب ِتحریر،طرز نگارش اور اصل موضوع سے روشناس کراتے ہیں، اردو زبان میں”دیباچہ،پیش لفظ،مقدمہ اور تمہیدی کلمات ”جیسے الفاظ بھی تقریظ کے متبادل کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت کی تحریر کردہ اِن تقاریظ کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلیٰحضرت کو اِن تینوں زبانوں میں مکمل عبور اور کامل دستر س حاصل تھی ،آپ کی یہ تقاریظ فصاحت وبلاغت اور زبان وبیان کی خوبیوں اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے منفرد مقام وشان کی حامل ہیں،امام احمد رضا کا تبحر علمی محققانہ شان اور زبان وادب میں مہارت کا مظہر ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت زبان وبیان اور تحریر میں حددرجہ احتیاط ودیانت کے قائل تھے،آپ کو اگر کسی کتاب کی تحریر میں کوئی شرعی،علمی یا ادبی خامی نظر آتی تو آپ اُس کتاب پر تقریظ لکھنے سے انکار فرمادیتے،اِس لحاظ سے کسی کتاب پر آپ کی تقریظ کی موجودگی اُس کے معتبر ومستند ہونے کی اوّلین دلیل ہے۔
یہ درست ہے کہ ایک میعاری تقریظ لکھنا مشکل کام ہے، لیکن کسی مصنف کی تقریظات کو یکجا کرنا اِس سے بھی زیادہ دشوار عمل ہے اور وہ بھی اعلیٰ حضرت جیسی شخصیت،جن کی بیشتر کتابیں آج بھی تاریکی کے دبیز پردوں میں چھپی ہوئی ہیں،اِس تناظر میں یقینا یہ ایک مشکل کام تھا، مگر محترم صابر حسین شاہ بخاری نے اِس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا اور 25سال کی محنت وشاقہ اور مسلسل تلاش وجستجو کے نتیجے میں 50تقاریظ ”تقاریظ امام احمد رضا” کے نام سے یکجا کرکے نوادرات رضا میں ایک منفرد اضافہ فرمایاہے،قابل ذکر بات یہ ہے کہ اِن تقاریظ کی ترتیب و تدوین موصوف نے ضلع اٹک کے ایک دور افتادہ علاقے برہان شریف میں مکمل کی،اِس مقصد کیلئے صاحب مولف نے نہ جانے کتنے احباب سے رابطہ کیا ہوگا، کتنی کتابوں پر نظر دوڑائی ہوگی اور کتنے کتب خانوں و مدارس کی خاک چھانی ہوگی؟۔
مگر جب ارادے اٹل، عزم جواں اورحوصلے بلند ہوں تو کامیابی کا حصول ناممکن نہیں،
Sabir Hussain Shah Bukhari
مام احمد رضا کے علوم وفنون کے بحر بیکراں سے ”تقاریظ امام احمد رضا”کی شکل میں جو چند موتی چن کر لائے ہیں،اُس پر وہ ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں،اُن کی یہ کوشش جہاں تحقیق و مطالعہ رضویات کے حوالے سے نئے گوشے اور نئے زاویئے متعارف کرانے کی بہترین کوشش ہے،وہیں ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد مظہری کے پندوہ جلدوں پر مشتمل سوانح اعلیٰ حضرت کے جامع منصوبہ ”دائرہ معارف امام احمد رضا” کے ایک عنوان کے تکمیل کی ترجمان بھی ہے ،اب یہ اہل علم اور قارئین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شاہ صاحب کی تحقیق وجستجو اور محنت کی قدر کرتے ہوئے کتاب کو محبانِ اعلیٰ حضرت تک پہنچانے کی سعی ٔبلیغ کریں۔