میرے کمپیوٹر اسکر ین پر اس وقت کراچی کی پچا س اور ساٹھ کے دہا ئی کی نا در تصاویر جگمگا رہی ہیں جو کراچی لو ورثہ کی ویب سائٹس پر موجود ہیں ان خوبصورت تصاویر کے آئینہ میں آج کے کر اچی کو د یکھا جا ئے تو زمین آسما ن کا فر ق نظر ا تا ہے کجا وہ تصو یریں کہ سکو ن ، امن ، محبت کا منہ بو لتا ثبو ت اور کہا ں آج کا کر اچی کہ دہشت گر دی ، لا قانو نیت اور خوف کی تصویر بنا یہا ں پر بسنے والوں کی لا چا ری کانو حہ سنا رہا ہے پر انے کر اچی کی ان تصو یروں میں ایک قیمتی تصویر حضر ت عبدا للہ شا ہ غازی کے مزار کی ہے اس زمانے میں یہ مزار ایک بڑ ے ٹیلے پر نظر آ رہا ہے جس کے آس پاس کوئی عما رت نہیں کو ئی نا جا ئز قا بضین نہیںدور دور تک بس سمند ر کی لہر یں ہیں۔
اور یہ مزا رہے اس تصویرکو دیکھ کر بے اختیار کچھ عر صہ قبل اس مزارپر ہونے والے خود کش بم دھماکے کی یا د آئی کہ کس طر ح معصو م زا ئرین کو خون میں نہلا دیا گیا تھا ان بے گنا ہ شہر یوں کاکیاقصورتھا اس مقدس مزارکے تقدس کو پا ما ل کیا گیا جس کے با رے میں اہل عقید ت کا پختہ یقین ہے کہ کلفٹن کے سا حلو ں کی چنگھا ڑ تی مو جوں کے سامنے کھڑے اس مز ار کے دم قدم نے ان غضب آلو د لہروں کو آگے آنے سے روکے رکھا ہے ورنہ کر اچی شہرکب کا ڈوب گیا ہوتا ۔
ڈوب توآج کر اچی خو ن میں رہا ہے اس کے بے گنا ہ شہر یوںکے ساتھ درندے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں کیا یہ اسی پا کستان کی تصویر ہے ؟جس کے خواب قا ئداعظم اور ان کے سا تھیوں نے دیکھے تھے کیا کبھی ان پر انی تصا ویر میں مو جو د لو گو ں نے سو چا ہو گا ان کے شہرپر ایسی افتا د بھی آن پڑے گی ۔ شہرکرا چی جو سند ھ کے سر کا تا ج مانا جا تا ہے اس کے بر طا نو ی راج کی عما رتیں جو تاریخی ،تہذ یبی ورثہ کہلا تی ہیں کر اچی کا پر انا تہذ یبی ، ثقا فتی ور ثہ بند ر روڈ ، فیر ئیر روڈ بر نس روڈ ، را م با غ جسے اب آرام با غ کا نا م دیا جا تا ہے ان تصاویر میں ان کے خالق اور ان کی تعمیر کا سن ان کے تا ریخی یا د گا ر ہو نے کا احسا س دلا تی ہیں بر طا نوی راج میں بننے والی ڈینسو ہال ، میر ٹ ہال اور لا ئٹ ہا وس جس پر دو سال عاشورہ میں آگ لگا ئی گئی کیا ؟ اہل کر ا چی اس شام غر یبا ں کو اپنی یا داشت سے محو کر سکیں گیں ۔
Karachi
کر اچی میں تازہ دہشت گر دی کا تا زہ وا قعہ اتوار کی شام عباس ٹاون میں پیش آیا جب دہشت گر د وں نے بارود سے بھری گاڑی سے رہا ئشی علاقوں کومشانہ بنایا دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ہمارے گھر جو کافی دور بلاک میں واقع ہیںیہاں کی کھڑکیاں بھی لرز اٹھیں تھیں ہم بھی خوف زدہ ہوکریا ا للہ خیر ہو ،کی دعا ئیں کر تے رہے مگر کیا کریں کہ اس قوم پر ایک کے بعد ایک عذاب نازل ہونا دستور ہو چکا پہلے سانحہ بلدیہ ، کو ئٹہ میں ہزارہ ز پر عتاب اور اب یہ نیا واقعہ جس میں عباس ٹاون کے معصوم مکین شامل ہوئے اب تک ٥٠ کے قریب ہلا ک ہوچکے ہیں قریب لگے بجلی کے ٹرانسفارمر کی آگ نے مزید تبا ہی مچا دی دو سو فلیٹس ، ما رکیٹ کی دکا نیں ، گلیا ں آگ سے خاک اور انسانی خو ن سے رنگین دکھا ئی دے رہی ہے ۔عوام اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کو لپک رہے تھے رضا کار تنظیمیں اور شہر بھر کی ایمبو لینس دل جمعی سے کام میں مصروف تھیں ہماری گورنمنٹ کی انتظامیہ کھائی نہیں دی ۔
شہرکرا چی کی سڑ کیں عوام کی خو ن سے رنگی ہو ئی ہیں ان حالا ت کو دیکھ کر پرا نے کر اچی کے اس چہرے میں جب صاف ستھری سڑ کیں ، با رونق با زار اور آلو دگی سے پا ک سا حل سمند ر نظر آتا ہے شہرکر اچی جس نے گلگت سے گو ادر تک پا کستا ن کے ہر مذہب ، ہر نسل ، ہر علا قے کے لو گوں کو اپنے دامن میں جا ئے پنا ہ دی لو گوں کو رزق کما نے کے مو اقع دیے پر سکو ن آب و ہوا میں یہا ں لو گ چین کی نیند سوتے تھے کہیں کو ئی لینڈ ما فیا ،ڈر گ ما فیا ، اسلحہ ما فیا اور بھتہ ما فیا کا کو ئی تصو ر نہ تھا مگر آج شہر کر اچی کے سڑکو ں پر دن دہا ڑے بے گنا ہ لو گوں کو گو لیوں کا نشا نہ بنا یا جا تا ہے۔ ا غوا بر ائے تا وان کا کا روبار زوروں پر ہے گھر سے روز گا ر کے حصو ل کے لیے جا نے والے تعلیم کے لیے نکلنے والے ان کا نشانہ ہیں کو ئی پتہ نہیں کب کو ئی گو لی کہاں سے آئے اور ایک ہنستے بستے گھر کو ویرا ن کر جائے ایک بھی قاتل گر فتا ر نہیں ہو سکا کر اچی کی تبا ہی وبر با دی ایک سو چے سمجھے منصو بے کا حصہ لگتی ہے کبھی ڈا کٹرو ں کی با ری ہو تی ہے تو کبھی مختلف مسا لک سے تعلق رکھنے والے علما ء کرا م کے کھا تے کھو لے جا تے ہیں اور کبھی بے گنا ہ شہر یوں کے نا م قر عہ فا ل نکلتا ہے۔
Karachi Blood
شہرکرا چی لہو لہو ہے یہا ں کے رہنے والے اربا ب اختیا ر سے سوال کر تے ہیں آ خر کب تک یہ سلسلہ چلے گا؟ وہ کب تک اپنے پیا روں کی لا شیں و صول کر تے رہیں گیں؟ عوام کے ان سولا ت کاجو اب دینے والوںکے پا س مسلسل بہا نے ترا شنے کے کچھ نہیں کہ ہر سا نحے کے بعد کچھ مصنو عی اقداما ت ، پر زور بیا نا ت اور انکو ئری کمیٹی کا اعلان کر کے قوم کو جھو ٹی تسلی و دلا سہ کب تک ان کو بر ی ا لذمہ کر ے گا ادھر روزانہ دس بیس لا شیںگرتی ہیں آخر اس مسئلہ کو سنجید گی سے حل کر نے کا وقت کب آئے گا ہما رے حکمرا نوں کو یہ با ت سمجھ لینی چا ہیے کہ اقتدار بھی ان ہی کے پا س رہتا ہے جو تد بر سے کا م لے کر مسا ئل حل کر تے ہیں محا ذ آرائی اور مسلسل محاذ آرائی سے سب کچھ ختم ہو جا تا ہے عر صہ دراز سے سیا سی پا ر ٹیا ں آپسی دشمنی کا رویہ اپنا ئے ہو ئے ہیں ۔
اس سے ان کو خیالی فتح تو حا صل ہو سکتی ہے لیکن حقیقی فتح کبھی نہیں مل سکتی دہشت کا کھیل کئی سالوں سے جا ری ہے اور آج بھی کھیلا جا رہا ہے مگر کسی شہر کو کب تک بندوق کے زور پر کو ئی یر غما ل بنا سکتا ہے مجھے امید ہے اس شہر کو یر غمال بنا نے والے ایک دن ضرور ہا ر جا ئیں گیں اور ایک دن شہر کر اچی امن وسکو ن کی تصو یر ضرور بن جا ئے گا ہم انسانوں سے نا امید ہوسکتے ہیں اوپر والے سے نا ا مید نہیں ۔ تحریر : عینی نیازی