آج کل کے دور جدید کو دیکھا تو سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے یہ سب ماڈرن تعلیمی نظام کی وجہ سے ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کی راہیں صرف تب ہی کھل سکتی ہیں جب ملک میں تعلیمی نظام ٹھیک ہوگا.وہی ملک ترقی کی منزلوں تک پہنچتا ہے جس کا تعلیمی نظام سب سے بہتر ہوتا ہے ایک پڑھا لکھا نوجوان اور پڑھا لکھا معاشرہ ہی اپنے ملک کو ترقی کی روشن راہوں کی طرف لے جاسکتا ہے .
اگر غور کیا جائے تو ہمارا ملک پاکستان تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے ہے یہ اس وجہ سے ہے دیہاتوں میں سکولوں کی کمی ،سکولوں اور کالجوں میں سہولیات کی عدم دستیابی،اساتذہ کی کمی،غربت اور دہشت گردی یہ ایسے مسئلے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک میں تعلیمی فقدان پیدا ہو چکا ہے کیونکہ دیہاتوں میں سکول اور کالجز نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اگر دیہاتوں میں سکول اور کالج موجود بھی ہوں تو وہاں سہولیات میسر نہیں ہوتیں بعض سکولوں میں کمروں کی چھتیں موجود تک نہیں ہوتی.
بچے بغیر چھت کے تعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں کئی سکولوں میں فرنیچر کی عدم دستیابی کی وجہ سے بچے زمین پر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ان میں زیادہ تر بچے سردی کے دنوں میں زمین پر بیٹھ کر بیمار ہوجاتے ہے سکولوں کی بجائے ہسپتالوں میں زیادہ نظر آتے ہیں.اساتذہ کی کمی بھی تعلیمی فقدان کا باعث بن رہی ہے دیہاتوں کے علاوہ شہروں میں بھی اساتذہ کی کمی ہے جو تعلیم کا ایک اہم مسئلہ ہے دیہاتوں میں ایسے کالجز اور سکول بنی موجود ہیں جہاں پر اساتذہ صرف حاضری لگانے کے لئے آتے ہے اور پھر غائب ہو جاتے ہیںاور گورنمنٹ سے ماہانہ تنخواہ لیتے رہتے ہیں.
گذشتہ دن میں ایک نجی اخبار میں ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ راوپنڈی کے سرکاری سکولوں میں ٣٥٠٠ اسامیاں اساتذہ کی خالی ہیں لیکن وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے.اگر یہ اسامیاں پڑھے لکھے لوگوں کو فراہم کی جائیں تو ایک طرح سے بے روزگاری بھی کم ہوسکتی ہے اساتذہ کرام کو تو ماں باپ کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن ایسے اساتذہ کو پھر کیا درجہ دیا جائے جو اپنی ڈیوٹی میں کوتائی کرتے ہیں.
Poverty
بقول شاعر۔ اے طاہر لا ہوتی ہے اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتائی غربت بھی اس ہی ذمرے میں آتی ہے کیونکہ پاکستان کا زیادہ تر طبقہ غربت کا شکار ہے اور موجودہ دور میں جہاں مہنگائی کا رونا رویا جارہا ہے وہاں غریب کے لئے تعلیم حاصل کرنا کسی کٹھن راستے سے کم نہیں ہوگا.موجودہ دور میں مہنگائی نے زور پکڑ لیا ہے اور غریب آدمی کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کسی سرکاری اچھے سکول میں تعلیم دلواسکیں کیونکہ انکے پاس اتنے وسائل موجود نہیں ہوتے کہ وہ تعلیمی اخراجات پورے کر سکیں اس لئے وہ بچے کو بچپن میں ہی کسی کام میں لگا دیتا ہے تاکہ مزدوری کرکے وہ اپنا اور گھر کا پیٹ پال سکے حالانکہ اس کی عمر ابھی کھیلنے کودنے اور پڑھنے کی ہوتی ہے.
پڑھنے کے لئے کتابیں خریدنا اور دوسرے اخراجات برداشت کرنا ان کے لئے ممکن ہی نہیںبلکہ بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں بے روزگاری بھی طول پکڑ چکی ہے اگر غریب دن بھر کچھ مزدوری کر بھی لے تو شام تک وہ پیسے دووقت کی روٹی کھانے میں وہ خرچ ہوجاتے ہیںپاکستان میں اس وقت دہشت گردی کی بناء پر لوگ بچوں کو سکول بھیجنے سے ڈرتے ہیں زیادہ تر سوات اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی عروج پر ہے سوات کے علاقوں میں ڈرونز حملوں کی وجہ سے کافی سکولز تباہ کر دیئے گئے ہیں ابھی کچھ ہی ہفتوں پہلے سوات میں ہونے والے فائرنگ حملے میں شدید زخمی ہونے والی معصوم بچی ملالہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں سوات اور اردگرد کے دیگر علاقوں میں تعلیم حاصل کرنا کتنا پر خطر نظر آتاہے.
پاکستان میں دہشت گردی عام ہے اسلئے لوگ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے گھبراتے ہیں.یہ ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے تعلیمی فقدان روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور ملک کی تباہی کا ایک مسئلہ ہے کیونکہ جتنا پڑھا لکھا معاشرہ ہوگا اتنا ہی روشن مستقبل ہوگا. حکومت پاکستان کو ان مسائل کا سدباب ضرورکرنا چاہیے کیونکہ ملکی ترقی اور روشن مستقبل صرف تعلیمی نظام میں بہتری اور تعلیمی فقدان کو ختم کرنے میں ہیں.ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل پر تعلیم کو عام کرنے کے لئے ایڈز چلائے جارہے ہیں ان میں سے مجھے ایک بہت پسند آیا کہ” پڑھنے لکھنے کے سوا پاکستان کا مطلب کیا”.
اس جملے میں زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے قائد نے پاکستان کی ترقی کے لئے حصول تعلیم پر بہت ذور دیا ہے اس لئے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ تعلیمی فقدان کو ختم کرنے کے لئے ایسے سدباب اور اقدامات کرے کہ جتنے بھی مسئلے تعلیم کی راہوں پر منڈلا رہے ہیں وہ ختم ہو سکیں اور پاکستان میں ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تکمیل پا سکے اور پاکستان کا ہر شہری مہذب اور تعلیم یافتہ بن سکے.جہالت کا جڑسے خاتمہ صرف تعلیم کے حصول میں ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی راہوں میں کوئی دشواریاں نہیں ہوں گی.