یوں تو کوئی بھی واقع یا سانحہ بھولنے والا نہیں ہوتا اورنہ ہی اُسے کوئی بھُلا سکتا ہے یا مِٹا سکتا ہے مگر انسانی دماغ کی میموری کچھ اِس قسم کی ہے کہ نیا مواد آنے سے گزشتہ پہ پردہ پڑھ جاتا ہے اور جب کبھی ویسے ہی حالات پھر سے پیدا ہوجائیں تو وہ پردہ بھی پھر سے اُٹھتا ہے جس سے انسان کبھی پھولوں کی طرح کھِل جاتا ہے مہک اُٹھتا ہے ،کبھی خشک لکڑی کی طرح جل کے راکھ ہوجاتا ہے، توکبھی خوف کے مارے خود کو چھپانے کی جگہ ڈھونڈتا ہے یا پھر اپنے کئے پر اِتنا پچھوتاتے ہوئے آنسوبہانا شروع کردیتا یا پھراُن گُزرے لمحا کو یاد کرکے خدا سے دُعا کرتا ہے کہ خدا کرے وہ وقت دوبارہ نہ لوٹے یہی وجہ ہے کہ کوئی تو ہر وقت گُزرے لمحات دہرانے کیلئے کوشاں رہتے ہوئے آئے روز نئے نئے طریقے ڈھونڈتا ہے دوسروں کو ٹِشو پیپر کی طرح اِستعمال کرتا ہے یا پھر اپنا مقصد حل کرنے کیلئے دوسروں کے جذبات سے ایسے کھیلتا ہے کہ اُس کا اپنا مقصدتو حل ہو جاتا ہے مگر صدمے کے مارے اُس کھلونا بنے بے چارے کی جان جانے تک کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مگر اُسے رتی برابر بھی اثر نہیں ہوتااسی طرح کوئی ایسے حالات کام یاکلام کرنے سے کنارہ کشی کیلئے کوشاں ہوتا ہے کہیں پھر سے وہی نوبت نہ آجائے وہی وقت نہ دیکھنا پڑے یا میں پھِر سے کہیں اُسی
میں نہ پھنس جائوںجس میں میں پہلے بھی کبھی وہ پھنسا ہویعنی کہ آگ کا مارا جُگنو سے بھی ڈرتا ہے، ایسا ہی کُچھ گُزشتہ روز میرے ساتھ بھی ہوا میں اپنے کمرے میں تھااور فیس بُک پہ لوگ آن ہواتو ایک واش رُوم کی پکچر آئی اِس پکچر میںواش کے ساتھ ہی باتھ روم بھی اٹیچ تھاجِس کے اندرلگے فواروں اورچار دیواری کے کونوں میں مکھی کی جسامت کے برابر خفیہ کیمرے تھے جِن پر سرخ رنگ کے دائرے لگے ہوئے تھے مگر میں نے اِس پِکچر پر کوئی غور نہ کیا اور اپنے کام میں مست رہا اِتنے میںلاہور کی رہائشی ایک دوشیزہ کا میسیج آیا جو کُچھ ہی دِن قبل میری فرینڈ لسٹ میںآئی تھی سلام کہنے کہ بعد خیریت دریافت کی اور تھوڑی دیر رُکنے کے بعد موبائل نمبر مانگا جِس سے مُجھے میری زِندگی کا ایک اِنتہائی بھیانک واقع پھر سے یاد آگیا۔
جس میں میری جان بھی جا سکتی تھی مگر میں اپنی ماں کی دعائوں اور خدا کی رحمت سے بچ گیا جو فیس بُک پرپرسنل موبائل نمبر دینے کی وجہ سے پیش آیا تھامگر اس کا احساس مُجھے کُچھ دِن گُزرنے کے بعد ہوا اس لئے میں اپنا پرسنل موبائل نمبر دینے سے گریز کرتا ہوںاورڈرتے ڈرتے اُسے ایک دوسرا نمبر دے دیاجو شام کے وقت صرف دو گھنٹے کیلئے آن رہتا ہے اور کُچھ دیر خاموش رہا اتنے میں پھر میسیج آیا کہ مُجھے وہ نمبر چاہئے جو دن بھر آن رہے اور کِسی بھی وقت آپ سے بات ہو سکے جس پر کافی بحث مباحثے کے بعد نمبر لینے کی وجہ اُس واش روم والی پکچر سے متعلق بریفنگ جان سکا اور میں نے جواب دیا کہ یہ نمبر دن بھرآن رہے گا آپ جب چاہیں کال کرلیں اتنے میں وہ لوگ آئوٹ ہوگئی اور اگلے دِن موبائل میں دن بھرفارغ تھا اِس لئے موبائل میںنے اپنے پاس آن رکھا بارہ بجے کے قریب ایک فون آیا اُس نے اپنا تعارف کروا اور کہا کہ آپ میرے بڑے بھائی ہیں میں دوبارہ کبھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی صرف آج فون پہ تھوڑا ٹائم دے دیں اور پرسنل نمبر لینے کا مقصد کالج ٹائم میں کسی بھی وقت بات کرنا تھا۔
Mother Sisters Weep
میں نے کہا ٹھیک ہے بتائیں اُس نے سب سے پہلے تو تمہید باندھی کہ میں نے اس پکچر سے متعلق بہت سارے رپورٹر اور اخبارات کے دفاتر میں فون کئے ہیںمگر کسی نے میری بات نہیں سُنی یہ نہیں کیا وہ نہیں کیا پھر میری تعریف شروع کردی مگر مُجھے وہ مصنوعی سی لگی اور میں نے سختی سے کہا کہ بیٹا آپ کام کی بات کریںمیں جو ہوں جیسا ہوں جانتا ہوں آپ کہنا کیا چاہتے ہیںجس پر وہ ہچکچائی سی آواز میں بولی کہ انکل رات والی تصویر پراگر آپ تھوڑالکھ دیں تونہ جانیں کتنی ہی معزز شخصیات و معصوم مائیں بہنیں بلیک میلنگ سے بچ جائیں اور حقائق جان کرآپ کو دعائیں دیں میں نے کہا کہ بیٹا اِس تصویر میں ایسا خاص کیا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ اس تصویر میں مَیں نے واش رومز اور باتھ رومز میں لگے خفیہ کیمروں کی سُرخ دائرے لگا کروضاحت کی ہے جِن کے ذریعے ان کیمروں کو مانیٹر کرنے والے خواتین اور معزز شخصیات کی مخالفین کے اشاروں پربھاری قیمت کے عوض یا انہیں بلیک میل کرنے کیلئے برہنہ حالت میں اُن کی تصاویریں بناکراُنہیں کمپیوٹر کے مختلف پروگرامز کے ذریعے دوسرے لوگوں سے جوڑتے ہیں۔
پھر وہ آگے دکھا کر اپنے ناجائز مقاصد حل کرتے ہیںجِس پر میں نے کہا کہ آپ فون بند کریں میں دیکھتا ہوںوہ کبھی انکل کبھی بھائی کہہ رہی تھی جواب میں اُس نے کہا کہ بھائی اپنے کالم یا خبر میںمیرا نام نہ ظاہر کرناورنہ پرھنے والے سمجھیں گے کہ شاید اِس لڑکی کے اپنے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے جواب میں مُیں نے کہا ایسا کُچھ نہیں ہوگا اسی لئے نام نہیں ظاہر کررہامگر ایسے گھنائونے فعل پہ حیرانی اور افسوس انتہا کا ہواکیونکہ کیمرے تو ہر بڑے چھوٹے سرکاری و غیر سرکاری آفسزاور ہوٹلز میں موجود ہیں جِن کا لوگوں کو علم بھی ہوتا ہے مگر یہ کسی کو کیا خبر کہ واش رومز اور باتھ رومز میں بھی لگے ہوںاور دوسری بات یہ کہ واش رومز اور باتھ رومز میں اگرکیمرے لگ سکتے ہیںتو پھربڑے بڑے نامور ہوٹلز جن میں رہنے اور سونے کیلئے بھی کمرے دستیاب ہوتے ہیں۔
اُن کمروں میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایسے کیمرے نسب نہ ہوںجِن سے ہم میں سے شاید کوئی بھی واقف نہ ہو لہذا اب حقائق کا علم ہونے پر میںقانون نافذ کرنے والے یا حساس اداروںسے اس معاملہ پر فوری نوٹس لینے یا تمام تر پبلک پلیسزز کی چھان بین کرنے کی گزارش اِس لئے نہیں کر رہا کہ وہ کونسا اپنے فرائض سر انجام دینے کی تنخواہ ہمارے دیئے گئے ٹیکسزز سے لیتے ہیںتنخواہیں تو اُنہیں دفاتر میں آرام پرستی اور گپ شپ کرنے کی ملتی ہیں اور میرے گزارش کرنے پر مُجھے جواببھی یہی ملے گا کہ عزت مآب آپ ہمیں نشان دہی کریں ہم کاروائی کرتے ہیںاور نشان دہی یہ ہے کہ کِس بڑے نامور ہوٹل یا سرکاری دفتر میں کیمرے نہیں ؟مگر یہ علم ہو جانے کے باوجود کہیں بھی کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک طرف منتھلی سسٹم عروج پر ہے تو دوسری طرف ہر غیر قانونی کام کے پیچھے کسی نہ کسی وڈیرے یا سیاستدان کا ہاتھ ہے لہذامیں اپنے قارئین سمیت ہر خاص و عام تک یہ پیغام پہنچانے کا اہل ضرور تھا جو پہنچا دیا اب ان بڑے بڑے ہوٹلز میں رہائش رکھنے و دیگر معاملات سرانجام دینے سے گریز کرنا یا نا کرنا اُن کا یعنی کہ آپ سب کا فعل ہے مگراپنی آرا سے ضرور نوازیئے گا اور اپنا بہت بہت خیال رکھئے گا۔
M Amjad Khan
تحریر : محمد امجد خاں Mobe:0343 6999818 Email:Pardahchaak@gmail.com