پاک ایران گیس پراجیکٹ

Pakistan Energy

Pakistan Energy

پاکستان میں انرجی کے بحران کی صورتحال اور بجلی کی قلت روز بروز سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے۔بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے مملکت اسلامیہ پاکستان کی معاشی مالیاتی اور صنعتی اداروں کا پیہہ جام کررکھا ہے جوہماری معیشت کی دگر گوں پوزیشن اور صنعتی بدحالی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ قبل ازیں ایران نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ سستی گیس کا ایگرمنٹ کیا تھا۔ لوڈ شیڈنگ کے تاریک اندھیروں میں ایک خبر نور بن کر گرجی اور یوں مایوسی کے تاریک سائے روشنیوں کا مرقع بن گئے۔

حوصلہ افزا خبر کا اعلان ایران میں پاکستانی سفارت کار نے پریس کانفرنس میں کیا کہ پاک ایران صدور زرداری اور احمد نژادی کے مابین7.5 ارب ڈالر مالیت گیس پائپ لائن پراجیکٹ کا منصوبہ طے پاگیا ہے۔ دونوں صدور11مارچ کو اس تاریخ ساز ایگری منٹ کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ علاوہ ازیں گوادر میں دو مقامات گند و پسنی میں ائل ریفائنری قائم کرنے کی تقریب الگ سے منعقد کی جائیگی۔ صدر زرداری دو روزہ دورہ ایران کے بعد پاکستان واپس اگئے ہیں۔

صدر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام مذاکرات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ دیر اید درست اید کے مطابق گیس پراجیکٹ پاکستان اور ایران برادرانہ تعلقات کا روز روشن ثبوت ہے۔ امریکی تہران دشمنی میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ روز اول سے پاک ایران گیس پروجیکٹ کی متعصبانہ مخالفت کر رہے ہیں۔ بھارت جو اس ایگری منٹ میں تیسرا ملک تھا وہ امریکی جنبش ابرو پر اس معاہدے سے دستبردار ہوگیا۔ امریکہ مختلف مواقعوں پر پاکستان پر دباو ڈالتا رہا کہ ایرانی گیس پراجیکٹ ختم کردیا جائے۔صدر زرداری نے امریکی دباو سے یکسر انکار کردیا۔

پاکستان ایران گیس لائن ایگریمنٹ پر امریکن ایوان کانگرس اور سینٹ کے ممبران دھمکیوں کی غلیظ زبان استعمال کررہے ہیں۔ کوئی پاکستان کو اقتصادی پابندیوں سے ڈرا رہا ہے تو کوئی پاکستان کے شورش ذدہ علاقوں میں خون ریزی اور فتنہ و فساد کوشدت دینے کی سازشوں کا جال بن رہے ہیں مگر صدر مملکت نے ان رکاوٹوں کے باوجود لاہور میں برملا اعلان کیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران گیس پراجیکٹ کو نہیں رکوا سکتی۔ زرداری نے اقوام عالم پر ڈنکے کی چوٹ یوں ماری کہ ہم ایک ازاد ملک ہیں جو اپنی ضروریات کے لئے دنیا کے کسی ملک کے ساتھ معاہدے کرسکتے ہیں۔

Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

زرداری نے دورہ ایران میں کہا تھا کہ ہم باہمی تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ خطے کے کئی ملکوں نے دو برادر ممالک کے مابین اختلاف باہمی کشا کش اور فساد کو فروغ دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اب انہیں پتہ چل گیا ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ کس طرح نپٹا جاتا ہے۔ صدر زرداری کے دورہ ایران میں دئیے گئے بیانات سے یہ سچائی مترشح ہوتی ہے کہ صدر مملکت عالمی سامراج اور امریکی دباو کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔اگر زرداری امریکن غلام ہوتے تو یہ معاہدہ کسی حال میں شرف قبولیت سے دوچار نہ ہوتا۔ پاک ایران ایگری منٹ کی رو سے پاکستان تہران سے روزانہ21.5 ملین کیوبک میٹر گیس خریدے گا۔

ابتدا میں یہ سہ فریقی معاہدہ تھا جس میں نیو دہلی اسلام اباد اور تہران شامل تھے۔ اس پروجیکٹ کا اغاز1994 میں ہوا تھا مگر شو مئی قسمت بھارت نے 2009 میں امریکہ کے ساتھ جوہری پارٹنرشپ قائم کرنے کی خاطر ایگری منٹ کو خدا حافظ کہہ دیا۔ ایران نے پاکستانی باڈر تک پائپ لائنوں کی تنصیب مکمل کرلی ہے جبکہ پاکستان نے795 کلومیٹر لائن بچھانی ہے۔ماہرین کے مطابق اگر حالات ساز گار رہے تو پاکستان کو15 مہینوں بعد گیس کی ترسیل شروع ہوجائے گی۔

پاکستان کے لئے یہ منصوبہ کئی سالوں سے مختلف النوع مسائل سے دوچار رہا ہے۔پاکستان کے لئے کبھی معاشی تنگ دستی نے مسائل کھڑے کئے تو کبھی یو این او کی قرادادوں اور اقتصادی پابندیوں نے اسکی تکمیل روڑے اٹکائے۔ اس پر طرہ یہ کہ اسلام اباد کو امریکی پابندیوں کے خدشات نے بھی پسپائی پر مجبور کئے رکھا۔ امریکہ نے بھارت کو یقین کروایا ہے کہ یہ ایگری منٹ ختم ہوجائیگا۔ بحرحال ایران پاک ایگری منٹ دو برادر ملکوں کے لئے نئے دور کا اغاز ہے جو ایک طرف دو دوست ملکوں کے مابین باہمی ہم اہنگی یگانگت اور معاشی استحکام کو فروغ دیگا تو دوسری طرف منصوبے کی تکمیل کے بعد عالمی منڈی سے انرجی ریسورسز خریدنے کے اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی۔ایران نے منصوبے کے لئے پانچ سو ملین ڈالر کا قرض بھی دیا ہے۔

ایران نے گیس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے کئی علاقوں کو بجلی دینے کی پیشکش کی ہے۔ ارباب اختیارطور ہنگامی اور جنگی بنیادوں پربجلی کے معاہدے کو عملی شکل دیں تاکہ گیس کی طرح یہ منصوبہ سالوں کھٹائی میں نہ چلاجائے۔ پاکستان کی طرح ایران بھی علاقے میں امریکی مفادات کا نگہبان تھا۔ ایران کے بادشاہ رضا پہلوی کو امریکی تھانیدار کا شہرہ حاصل تھا۔ خمینی انقلاب کے فوری بعد پاسداران انقلاب اسلام کے مجاوروں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرلیا۔ یوں ایران اور امریکہ کے درمیان تناو کا اغاز ہوا۔

پاسداران انقلاب وقت کے ساتھ ساتھ خمینی کی امامت میں مضبوط سے مظبوط تر بنتے گئے اور پھر ایران نے جوہری توانائی کی خاطر ایٹمی پروگرام شروع کردیا تو یہود و ہنود بلبلا اٹھے ۔ امریکہ اور اسکے مغربی اتحادی تہران کی جوہری قوت کی مخالفت کررہے ہیں۔ایران نے بار بار یقین دہانی کروائی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی بجائے جوہری توانائی پیدا کررہا ہے مگر امریکہ اور اسرائیل نے ایرانی موقف رد کردیا۔امریکہ اور اسرائیل درجنوں مرتبہ ایران کو جنگی دھمکیاں دے چکے ہیں تاہم ایرانی قیادت اور قوم نے ہمیشہ امریکہ کی گیدڑ بھبکیوں کو جوتے کی نوک پر رکھا۔

Iran

Iran

ایرانی قوم گروہی سیاسی اور لسانی اختلافات کو بھلا کر امریکہ کی متوقع جارہیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ ایرانی قوم کی وحدت اور استقامت سے یہ ممکن ہوا ہے کہ ایران کا جوہری سفر کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ امریکہ ایران کے جوہری سسٹم کو پر امن سمجھنے پر تیار نہیں۔ امریکہ ائے روز ایران پر ناروا پابندیاں مسلط کرتا ہے بلکہ کسی دوسرے ملک کو اجازت دینے کا روادار نہیں کہ وہ ایرانی تیل و گیس کی خرید و فروخت کرسکے۔ امریکہ ایران کے ساتھ رنجش رکھتا ہے۔ وائٹ ہاوس کو اخلاقی اورائینی طور پر یہ حق حاصل نہیںہے۔

وہ کسی ازاد ملک کی خود مختیاری پر اثر انداز ہو۔ امریکہ کا عالمی فریضہ تو یہ ہے کہ وہ پاک ایران منصوبے کی مخالفت سے الگ رہے کیونکہ پاکستان اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ایرانی گیس اندھیروں کو بڑی حد تک روشنی کے نور میں بدلنے کے لئے لازم ہے۔ امریکی بروفراختہ ہیں۔ وہ بار بار یہ بھاشن دے رہا ہے کہ پاکستان کو ایران پر عائد کی جانیوالی اقتصادی پابندیوں کے عالمی فیصلے کی پاسداری کرنی چاہیے۔

امریکہ منصوبے کو تار تار کرنے کی سازشیں کررہا ہے مگر صدر مملکت زرداری نے امریکی مخاصمت دھونس دباو کو رد کرکے ملک و قوم کی خاطر پاک ایران گیس ایگری منٹ کرکے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ گوکہ عوام کا ایک دھڑا سیاسی قائدین اور بونگی اپوزیشن پی پی پی حکومت پر ناکامی اور نااہلی کے تازیانے برسا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ نقطہ نظر کچھ حد تک درست بھی ہو مگر امریکی دباو کے باوجود صدر زرداری کا جرات مندانہ اقدام لائق داد تحسین ہے جسکی ہر حال میں تعریف کی جانی چاہیے ورنہ یہ تاریخی بددیانتی ہوگی۔
تحریر : روف عامر