ایک جانب الیکشن عروج پہ ہیں اور دوسری طرف ملک میں بدامنی اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔بلوچستان ،کوئٹہ اور کراچی نوحہ خواں ہے وہاں کے حالات دیکھ کر ہر حساس انسان کی آنکھ بھر آتی ہے۔آنکھیں اشکبار اور دل خون کے آنسو روتا ہے کہ نجانے یہ بے گناہ کس جرم کی سزا پا رہے ہیں ،فرقہ پرستی کی آڑ لیکر مسلمانوں کا قتلِ وعام کیا جا رہا ہے۔کیا یہ کسی مسلمان کا کام ہے؟نجانے کیوں میرا دل گواہی نہیں دیتا ،بارہا یہ گمان گذراکہ پس پردہ کوئی اور ہے جو نہ صرف میرے وطن کی سا لمیت کے بلکہ ترقی و بقاء کے بھی دشمن ہیں ۔
جو اس پر غاصبانہ قبضہ چاہتے ہیں ۔ہم سب یقیناء ان سے واقف ہیں مگر اسے بہت محتاط لفظوں میں نادیدہ ہاتھ یا بیرونی قوت کے نام سے نواز کے بری الذمہ ہو جاتے ہیںاب عقل محو تماشائے لبِ بام اس پہ ہے کہ یہ نادیدہ قوت آئی کہاں سے؟بقول ہماری حکومت ہمارا دفاعی نظام بہت مضبوط ہے یا پھر یہ آستین کے سانپوں کا کمال ہے یاکالی بھیڑوں کا،جو ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں ان میں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ،کہنے کو تو ہم آزاد ملک میں رہتے ہیں اور آزاد وطن کے باشندے ہیں مگر آزادی کاایک جورخ نظر آتا ہے تو ببانگِ دہل کہہ سکتی ہوں کہ ہم بہت مظلوم اور آزادغلام ہیں۔
ہماری مثال جتے جتائے جانوروں جیسی ہے جو چوبیس گھنٹے اپنے مالکوں کے جرم میں بھوک و پیاس اور دھوپ کا مقابلہ کرتے ہوئے انصاف کا انتظار کرتے گذار دیتے ہیں ۔مگر انصاف کا یہ عالم ہے کہ کسی غریب ،بے کس اور بے زر کا تو اس میں کوئی عمل دخل ہی نہیں ،راہزنی،لوٹ ما ر،دھوکہ دہی،فریب،قتل و غارت گویا ہماری زندگی میں اس طرح لازم و ملزوم ہیں جیسے زندگی کے لئے آکسیجن کی فراہمی اب تو عالم ہوش و حواس کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی دن یہ خبر ملے کہ آج ملک میں امن رہاتو لگے گا کہ آج سورج مغرب سے طلوع ہوا ہے کیونکہ یہاں دن رات جو نظارے پیش کیئے جاتے ہیں وہ سزا قبل از ثبوت کے شاہکار ہوتے ہیں انسانوں کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،مقدمات پیدا کیے جاتے ہیں چشمِ دید گواہیاں ڈھالی جاتی ہیں ثبوت گھڑے جاتے ہیں اور جبر کو عام اجازت ہے کہ وہ انسان نما چیز کے ہر حصے سے خراج وصول کرے ۔مار پیٹ اور سخت سے سخت سزا کا نام تحقیق وتفتیش رکھ دیا گیا ہے۔ تھانوں میں اتنے نمبروں کے چھتر ہوتے ہیں کہ کیا ہی کسی شوز کمپنی میں ہونگے۔
Terrorism
انسداد جرائم کے نام پہ فروغِ جرائم کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ملک میںترقی وامن کی قلت اور بیانات کی فراوانی ہے،اور اخباروںمیں ٹاپ آف دی لسٹ رکھا جاتا اگر ایک دن ایک لیڈر بیان دیتا ہے تو اگلے دن کوئی دوسرا بنگال ٹائیگر اس کی تردید کرتا ہے ،یعنی سارازور بیانوں پر ہے۔بڑی سے بڑی دہشت گردی پر ہمارے سربراہان نادیدہ ہاتھ کہہ کر ہاتھ جھاڑتے چلے جاتے ہیں۔اب ہم ہی کم فہم اور کجی عقل ٹھہرے کہ نادیدہ ہاتھ کو سزا دلوانے کے چکر میں رہتے ہیں جو پہلے ہی نادیدہ ہو وہ دیدے والوں کو کہاں دیدار کروائے گا کہ آئو مجھے پکڑو ۔
اقتدار کے اعلی منصب سے بیان آتا ہے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔بلاشبہ جو قابض ہیں وہ بلکل محفوظ ہیں،اب کس طرح تو عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے البتہ عوام اپنا بندوبست کر لیں کیونکہ وہ بلکل غیر محفوظ ہیں ۔اگر بیانات دینے سے ملکی امن و امان قائم ہو سکتا ہے تو بہتر ہے تمام محکموں کو بر خاست کر کے بیانوں سے کام چلایا جائے ۔عزیزانِ من ملکی حالات کو دیکھ کر آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کیسی ترقی کے منازل کو طے کرنے میں مشغول ہے اہک بار الیکشن پھر سے سر پہ ہیں گرچہ ہونا تو وہی ہے جو ہوا تھا اور ہوا وہی تھا جو اس سے پہلے ہوا تھا پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے ۔ ہم بھی اس کسان کی ماند ہیں جو خشک زمین میں دھان کے پودے لگا رہا ہے اور زرخیزی کی توقع کرتے ہوئے ایسی زمین کی تلاش میں ہے۔
جہاں وہ اپنے نظریات کا بیج بو سکے،وہ چشمِ تصور سے ان کونپلوں کا جا بجا سر سبز ہوتے دیکھ رہا ہے جہاں اس نے نظریات کی تخم ریزی کی تھی وہ اس دن کے خواب میں گم ہے جب انقلاب کا ریلا آئیگا اور ملک میں امن وسکون کی ہریالی پھیلائے گا ۔کون جانے یہ خواب کب شرمندہ ِ تعبیر ہو گا کیونکہ حالات ایسے نظر نہیں آتے ۔ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔