میں ایک غریب ہوں

Poor man's

Poor man’s

شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
میرے ایک ذہین دوست نے پوچھا ”اچھا یہ بتائو ٹیلی ویژن پرہم جو یہ ریس دیکھ رہے ہیں اِس میں انعام کِس کو ملے گا ؟”میں نے کہا ”ظاہر سی بات ہے سب سے آگے والے کو” اُس نے کہا” تو پھر پیچھے والے کیوں بھاگ رہے ہیں”۔یہ دنیا میدان ہے ،اِس میں امیر اور غریب دونوں ازل سے بھاگتے آرہے ہیں ،امیر دنیا داری میں ہمیشہ سے آگے ہے۔ میرا آج کا موضوع بھی یہ ہی دونوں عظیم ہستیاں ہیں جنہوں کا ذکر عارف شفیق نے اُوپر والے خوبصورت شعر کے ذریعے کیااور دونوں کوبظاہر مار ڈالا ۔ہر ملک ،ہر قوم ،ہر دور میں صرف دو ہی ہیرو ہیں اور(Most Popular)بھی …بچارے ایکٹر ،کرکٹر،سیاستدان وغیرہ تو یونہی بدنام ہیں ۔

دورِ حاضر میں یہ دونوں مشہور ہستیاں انتہائی مصروف ترین ہیں کِسی کے پاس بھی وقت نہیں ۔غریب دو وقت کی روٹی کیلئے چند سکے کمانے کی غرض سے رات دِن مشغول ہے مشقت و مزدوری میںجبکہ امیر رات دِن روپیہ پیسے کی افزائشِ نسل میں لگا ہوا ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ غریب پیسہ کمانے اور امیر پیسہ سنبھالنے میں مصروف ہے۔ سیاہی کی ایک دوات سینکڑو صفحات کو روشنائی سے فیض یاب کر سکتی ہے۔ایک جگنو اندھیروں میں اجالا بانٹتا ہے ۔پھول بھی اپنی خوشبو لٹاتا رہتا ہے۔درخت بھی اپنا پھل دان کرنے میں دریش ہیں ۔حقیقت یہی ہے کہ کچھ کر جائو کِسی کے کام آئو۔نگہت پروین کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
غریب لوگوں کی عمر بھر کی غریبی مٹ جائے گی اے امیرو!
بس اِک دن کے لیے ذرا سا جو خود کو تم سب غریب کر لو

امیر کبھی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا اور غریب کے ناک پر مکھی خود ہی نہیں بیٹھتی ۔مکھیوں کا بھی اپنا ایک معیار ہے انہیں بھی غرور پسند نہیں یہ بھاگ بھاگ کر وہی جاتی ہیں جہاں انّا ہو ،تکبر ہو ،خود پسندی، بظاہری مٹھاس ہو۔بات تو امیر اور غریب کی ہو رہی تھی یہ مکھی کہاں سے اُڑ کر آن ٹپکی ۔اگر گہرا مشاہدہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ آج کل تقریباً سب ہی غریبوں نے امیروں کو گود لے رکھا ہے۔غریب سب سے زیادہ جذبہِ حقوق العباد کے فرائض نبھاتے نظر آتے ہیں ۔بحث قابلِ غور ہے کہ اگر غریب امیروں کے ہاں نوکریاں نہیں کرتے تو کیا ہوتا اور کیا کیا ہوتا۔

صاحب صبح مالی بنکر پودوں کو سیراب کرتا پھر ڈرائیور کی وردی پہن کر خود کو آفس لیکر جاتا واپس گھر آکر اپنا سوٹ بوٹ پہن کر کِسی رکشے میں بیٹھ کر دوبارہ واپس آفس جاتا اور شام کو پھر یہی عمل دہراتا ۔خود اپنے آپ کو چھ چھ ماہ کی تنخواہ نہ دیتا،اپنے آپ کو ڈانٹتا ،اپنی ٹانگیں خود ہی دباتا ،مہمانوں سے جا کر کہتا ابھی صاحب آتے ہیں پھر خود ہی بال بنا کر کے کوٹ پہن کر چلا آتا،خود کو گِن کر سودا سلف کیلئے پیسے دیتا پھر خود پر ہی شک کرتے ہوئے ہر ماہ نہ دینے والی تنخواہ میں سے ایک چوتھائی کاٹ لیتا اِس کے آگے وغیرہ وغیرہ کی لمبی فہرست چلتی چلی جاتی۔میں نے زندگی میں غریب سے بڑا حقوق العباد کا محافظ نہیں دیکھا۔

غریب کے گھر آٹے کا کنستر ہوتا تو ہے مگر صرف کچن کی زینت میں اضافے کیلے مگر کنستر ہوتا ضرور ہے۔بچارے امیر کے گھر تو آٹے کا کنستر ہوتا ہی نہیں ہے۔امیر کے گھر تو آٹے کے بڑے بڑے ڈرم ہوتے ہیں ۔غریب بھی گوشت کھاتا ہے مگر صرف بکر عید ،عقیقہ یا عبداللہ کی شادی پر۔امیر کے ہاں کبھی دال نہیں پکتی کیونکہ اس کے پاس اتنے کھلے پسے ہی نہیں ہوتے کہ دال منگوا سکے۔دال تو دس ،بیس کی گیم ہے جو امیر کیلئے شیم ہے۔

poor Man

poor Man

کھائے امیر یا غریب کھانی اُسی گندم کے آٹے کی روٹی ہے۔غریب کی ایک سب سے بڑی برائی یہ بھی ہے کہ غریب کبھی ملاوٹ نہیں کرتا حالانکہ احباب جانتے ہیں کہ اشیاء کو بڑھانا بھی ایک فن ہے ۔ایک زخیرہ اندوز تاجر اگر سو بوری سُرخ مِچ میں سو دو سو پنجابی اینٹیں پیس کر کے مِلا دیتا ہے تو کونسا کوئی چوری کر ڈالی کوئی آٹھ دس بوری کا اضافہ ہی ہوا نہ بیت المال میں۔

امیری ایک ایسا نشہ ہے جِس کے ہوتے امیر آدمی صرف وہ دیکھتا ہے جو وہ چاہتا ہے جبکہ غربت انسان کو نا چاہتے ہوئے بھی سب کچھ دیکھا دیتی ہے۔ارسطو نے لکھا ہے
کہ ”ایک دِن شاہ حیرون کی ملکہ نے سمانا ویس سے پوچھا داشمند ہونا بہتر ہے کہ دولتمند ہونا ؟ سمانا نے جواب دیا دولتمند ہونا بہتر ہے ۔ہم داشمندوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ہر وقت امراء کے دروازوں پر بیٹھے رہتے ہیں ۔

شائد اسی لیے علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ ”غربت ام الخبائث ہے۔ امیر پیدائشی آزاد ہوتا ہے ۔شیشہ کیفے،ڈانس کیفے وغیرہ امیروں کے لختِ جگروں کی مرہونِ منت ہی روزی روٹی کما رہے ہیں۔غریب کا بچہ پیدا ہوتا ہی غلامی کی زنجیریں پہن لیتا ہے۔مگر یہ سب وقتی ہے ۔ صبح کا آخر رات ہے اور رات کا آخر صبح کائنات میں ہر شے کا آخر ہے ۔غریب اور صابر کیلئے اللہ پاک نے بڑے عظیم مراتب رکھے ہوئے ہیں۔

ایسا نہیں ہوتا کہ پیٹ بھرا ہو اور جیب بھی، اور تن پر کپڑے بھی ستھرے ہوں اور زبان پر ذکرِ خدا بھی ہو۔”پروفیشنل غریب مذہب اور خدا کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے”پیٹ میں آنتڑیاں بھوک سے سمٹ رہی ہوں اور نہ جیب ہو نہ نوٹ تو زبان پریہی ورد رہتا ہے ”یا اللہ مدد ،یا اللہ خیر”۔تمام تر حیات کا حاصل صرف دو ہی چیزیں ہیں جِن میں سے مِلنی صرف ایک ہی ہے ۔ایک ”دنیا” اور دوسری ” آخرت”کس نے کیا کمانا ہے یہ سب اُس کی اپنی خواہش ہے۔کِسی کو بھر پور دنیا مِل گئی تو کِسی کو بھر پور آخرت۔امیر کی دنیاوی تما م تر رغبتیں ختم ہو چکی ہوتی ہیں۔

کِسی دانشور نے غریب کے جزبات کی کیا خوب منظر کشی کی ہے کہ”ایک مرتبہ بستر ناریہ میں ایک ماریا (قدیم باشندہ)کو موت کی سزا دی گئی پھانسی دینے سے قبل اِس سے پوچھا گیا کہ آخری خواہش کیا ہے؟کوئی دِل پسند کھانا؟اِس نے کچھ چپاتیاں اور مچھلی کا ایسا سالن مانگا جو شہری طریق سے تیار کیا گیا ہو یہ اسے مہیا کر دیا گیا تو اِس نے اس میں سے آدھا بڑی رغبت سے کھایا اور باقی ماندہ کو ایک پتے میں لپیٹ کر جیلر کو دیا اور اس سے کہا کہ اس کا چھوٹا سا پوتا جیل کے دروازے پر باہر کھڑا انتظار کر رہا ہے لڑکے نے کبھی ایسی لذیز چیز نہیں چکھی لیکن اب اسے یہ ملنی چاہیے۔

ویریر ایلون لکھتا ہے ”مجھے یادہے کہ ایک دِن ایک خاندان ہمارے پاس روتا ہوا آیا کیونکہ ان کی جھگی اور سارا اثاثہ آگ سے تباہ ہو گیا تھا ۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کیلئے کتنے روپے کی ضرورت ہے ؟ تو انہوں نے کہا:چار روپے یہ ہے غربت میں روز تپتی ریت کی سی گرمی محسوس کر کے، سمندر میں ڈوب کراورحسرت کی آگ میں جل کر روز خاک ہوتا ہوں ،سلہگتا ہوں، دہکتا ہوں،مچلتاہوں،مگر زندگی سے شکوہ کیے بنا ہی جیتا ہی چلے جاتا ہوں کیونکہ میں ایک غریب ہوں۔

Muhmmad Ali Rana

Muhmmad Ali Rana

تحریر : محمد علی رانا
muhammadalirana26@yahoo.com
0300-3535195