دنیا آج دونظاموں کا ٹکراؤ دیکھ رہی ہے۔ایک وہ نظام ہے جو کائنات بنا نے والے اس کے اسرار رموز سے واقف’فطرت کی موجد ہستی کا ہے جس نے ہر شئے کو تخلیق کرکے اس کو ایک مکمل پروگرام کے تحت جاری و ساری کر دیا ہے ۔دوسرا نظام ایسے انسانوں کا بنا یا ہوا ہے جو خود اپنے جسمانی نظام سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہو سکے۔خواہشات ِ نفس کے غلام انسان کا تخلیق کردہ نظام آج بد ترین انجام سے دوچار ہونے کو ہے۔اس حقیقت کو اہل مغرب اب بخوبی جان چکے ہیںاس لئے گرتی ہو ئی دیوار کو سنبھالنے کیلئے مغرب اپنے تمام کیل کا نٹوں سے لیس ہو کر میدان میں کود پڑا ہے۔بابا اقبال بہت پہلے یہ فرما چکے کہ: دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
تہذیب کے درندے کون ہیں؟مغربی مادہ پرست نظام کا فلسفہ حیات پیش کرنے والے وہ مفکرین جو کفر و الحاد میں اتنی دور نکل گئے ہیں کہ ”طاغوت” کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔ نفس کی غلامی نے ان کو پستی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔فرائڈ’کارل مارکس ایڈم سمتھ نطشے نجانے کتنے مغربی مفکرین ”کیڑے مکوڑوں”سے بھی بدترذہنیت لیکر پیدا ہوئے اور اپنے معاشرے کو خدا سے بیزاراور خواہشات کا غلام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔خود غرضی اور نفس پرستی کے گھن نے معاشرے اور تہذیب و تمدّن کوتباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
تہذیب کے درندے اب ”مشینوں” کے سہارے خدائی نظام کے ساتھ ٹکرانے چلے ہیں۔یہ غرض کے بندے اعلیٰ اخلاقی اقدار’اوصاف سے محروم انسان جو اندر سے نہائت کریہہ اور سفاک ہیں اپنی مٹتی تہذیب کو چھپانے کیلئے ٹینکوں’توپوں جہازوں نیپام و فاسفورس بموں سے مسلح ہو کرپوری امت مسلمہ کے او پربھوکے درندوں کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔دوسری طرف امت مسلمہ اس صورتحال کی سنگینی کو اس طرح محسوس نہیں کر رہی جیسا کہ اس کا تقاضہ ہے۔
ہمیں دوطرفہ یلغار کا سامنا ہے۔ہماری جغرافیائی اور نظریاتی دونوں طرح کی سرحدیںشدید خطرات کا شکار ہو چکی ہیں۔شیطانی تہذیب نے اب مسلم معاشرے میں اپنے پنجے اس مکاری کے ساتھ گاڑھے ہیں کہ ہماری زندگی کا وہ ایک لازمی جزو بن کر رہ گئے ہیں۔ ٹی وی چینلز’کیبل’نیٹ’اور موبائل اس کے مؤثر اور کاری ہتھیار بن کر ہمیں اندر سے ہر طرح سے کھوکھلا اور ناکارہ بنا رہے ہیں۔یہ وہ ایجادات ہیں جن سے اگر نوعِ انسانی نے فائدہ اٹھایا ہے تو نقصان بھی لا محدود ہوا ہے۔ابھی تک ہمارا ایک بڑا حصہ اس سے ہونے والے بہت بڑے زیاں کا احساس نہیں رکھتا’لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس طوفانِ بد تمیزی نے مسلمانوں کی اعلیٰ اقدار اور قابل فخر روایات’تہذیب و تمدّن کوبری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
Poor Man
اچھائی اور برائی کو پہلے گڈ مڈ کیا گیا شکوک و شبہات اٹھائے گئے۔حقوق کے نام پر ایک ایسی بحث چھیڑ دی گئی جس نے حقوق کی حدود و قیودکا تعین کرنے کی بجائے اسے ”احساس محرومی”کی مہم بنا ڈالا’ نتیجتاً بغاوت کا سیلاب آ گیا۔نوجوان نسل نے اپنی ہی حفاظتی دیوار ں کوتوڑ ڈالا اور جب یہ باغی نسل بے رحم انسانوں کے ہاتھ لگی تو انجام کار فرسٹریشن اور خود کشی کے سواکچھ حاصل نہیں ہوا۔کیا یہ حقیقت نہیںکہ ترقی بہبود حقوق اور روشن خیالی کے خوش کن الفاظ کے دھوکے میں آ کر ہم نے اپنے گھروں کے دروازے ذہنی غلاظت اخلاقی تباہی اور زہریلی کثافت کیلئے کھول دیئے ہیں؟کل ماںباپ’بہن بھائی’بچے اور بزرگ ایک پاکیزہ احترام کے رشتے میں بند ھے تھے۔
ایک تقدس تھا مگر اب ہمارے گھر ”اوپن ڈسکشن”کا فورم بن چکے ہیں جہاں ہر قسم کی گفتگو کیلئے حدود ختم ہو چکی ہیں۔”ٹاک شوز” نے حساس موضوعات کو چھیڑ کر حجاب جیسی نازک و پاکیزہ خوبی کو ناپید کر دیا ہے۔موضوع جنس ہو یا پسند کی شادی ہم جنس پرستی ہو یا شادی سے پہلے کی دوستیاں’ازدواجی مسائل یا غیر مذہب میں نکاح کون سا ایسا مسئلہ ہے جو اب ”مسئلہ”رہ گیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ ہم ایک دو نہیں کئی تہذیبوں کی معجون بنتے جا رہے ہیں۔
جدیدیت کے نام پر ہم اپنی اور نئی نسل کی جو شخصیت تعمیر کر رہے ہیں وہ کسی صورت آ ئیڈیل نہیں کہلا ئی جا سکتی ۔یہی وجہ ہے کہ جن اقوام نے اپنی تہذیب کا گند ہم پر انڈیلا ہے ‘وہ ہماری حالتِ زار پرقہقہے لگاتی اور تمسخر اڑاتی ہیں۔دنیا کی تعمیر و ترقی ہو یا دنیا کو عظیم علمی ورثے کی عطاء اعلیٰ اخلاقی اقدار نظام حکومت ہو یا متاثر کن شخصیات اور اوصاف ہوں مسلمانوں نے جتنی عظمت اور شان و شوکت سے وقت گزارا ہے ‘اس سے نا صرف ہم خود نا واقف ہیںبلکہ اس ”فخر”اور اس ورثے کو اپنانے سے نئی نسل کو بھی محروم کر رکھا ہے۔ ہمیں ایک عظیم معاشرہ اور نظام حکومت قائم کرنے کیلئے اپنے درخشاں ماضی کی طرف پلٹنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم کے ساتھ ہمیں ٢٧ رمضان المبارک کی عظیم الشان برکتوں والی رات کو اپنے درخشاں ماضی کی طرف پلٹنے کا ایک بہترین موقع اس لئے عنائت فرمایا کہ ہم نے اپنے رب کے ساتھ اپنی دعاؤں میں اس بات کا عہد کیا تھا کہ ہم اس کے بندوں کو جو بندوں کے غلام بنا دئے گئے ان کو دوبارہ اپنے رب کریم کی بندگی میںلائیں گے’لیکن ہم نے پچھلے٦٥ برس ”اوفوبالعہد” کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ہر آنے والے دن میں ایفائے عہد کی خلاف ورزی کی اور آج ان تمام نافرمانیوں کی بناء پر ہم پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے گئے ہیں کہ شب بیدار بھی چیخ اٹھے ہیں۔
ایک ایسی افراتفری کا ساماں ہے جو غلامی کے شکنجوں کو مزید مضبوط کرتا چلا جارہا ہے۔قوم بار بار ان شکنجوں کو توڑ کران سے گلو خلاصی کروانا چاہتی ہے لیکن پہلے سے زیادہ آ ہنی شکنجہ اور سانس بند کر دینے والا طوق ایک نئے نام کے ساتھ گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔١٨ فروری ٢٠٠٨ء کو قوم نے صہیونی طاقتوں کے نمائندوں سے جان چھڑانے کیلئے ایک تبدیلی کا خواب دیکھا تھا لیکن موجودہ حکومت کے اقدامات نے روزِ روشن کی طرح بتا دیا کہ کچھ تبدیل نہیں ہوابلکہ اگلے دوہفتوںمیںپہلے سے بھی بدترحالات میں مبتلا کرکے رخصت ہونے والے ہیں۔
U.S.
جس طرح امریکہ بہادر کیلئے ان کی چھوٹی سے چھوٹی ریاست یا اس کا چھوٹے سے چھوٹا علاقہ ان کیلئے دنیا ہوتا ہے،پورا امریکہ ان کیلئے دنیا ہے،اسی طرح پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے تو پاکستان ہی دنیا ہے اور اگر امریکہ کے صدرساری دنیا سے اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے اعلانات کریں،پاکستان کیلئے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کریںاور ایسا نمائندہ مقرر کریں جو پہلے بھی پاکستان کیلئے خصوصی نمائندہ رہا ہوتو یہی سمجھا جانا چاہئے۔
امریکہ پاکستان سے بھی خصوصی تعلقات رکھنا چاہتا ہے لیکن اقدامات بتا رہے ہیں کہ تعلقات تو خصوصی ہیں لیکن ان کی نوعیت دوسری ہے۔نئی انتظامیہ کی آمد اور باراک اوبامہ کے دوبارہ حلف اٹھانے کے باوجود پاکستان کے تعلق سے کوئی چیز تبدیل نہیں ہوئی ہے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان پر ڈرون حملوںمیں کوئی کمی نہیںآئی گویا باراک اوبامہ نے دوبارہ حلف اٹھاتے ہی خوں آشام شکار کے تسلسل سے یہ پیغام دیاہے کہ ان کی آدم خوری کی عادت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ تحریر : سمیع اللہ ملک