اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف صاحب اپنے ذاتی دورے پر مع خاندان اور عزیز و اقارب و ذاتی نوکر کے ساتھ روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے سفرِ اجمیر شریف کا ارادہ کیا اور وہ گئے بھی اب روحانی فیض انہیں کہاں تک نصیب ہوئی یہ تو اللہ رب العزت اور خواجہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم صاحب کا یہ انتہائی ذاتی نوعیت کا دورہ تھا اور اس کا مقصد خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری کی زیارت اور ان سے روحانی فیض حاصل کرنا تھا۔
جیسا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انسان بزرگانِ دین سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں وہ ہر صورت میں ان کی زیارت سے فیضیاب ہونے کے لئے یہاں تشریف لاتے ہیں۔ سو ہمارے راجہ صاحب بھی وہاں گئے ۔اور ایسی صورت میں گئے جب پاک و ہند میں شدید کشیدگی کا دور دورہ ہے۔ مانا کہ راجہ صاحب کا دورہ نجی تھا مگر ہندوستان جانے کا ارادہ کیا ایسے میں وہاں کے وزیراعظم کا اپنے ہم منصب کا استقبال نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہاں راجہ صاحب (وزیراعظم) کے شایان شان استقبال کیا جاتا تاکہ اس کشیدہ صورتحال میں کمی واقع ہوتی مگر وہاں بے حسی اور لاپرواہی کی ایسی مثال قائم کی گئی جو دنیا بھر میں نہیں ملتی۔
صرف وہاں پر اپنے وزیرِ خارجہ صاحب کو ان کے لئے رکھ چھوڑا ۔ اور حد تو یہ ہوئی کہ وہاں ان کی مخالفت میں احتجاج بھی کیا گیا۔ اورکل ہندوستان کے ایک اخبار میں وہاں کے ایک سیاسی جماعت کے کرتا دھرتا نے یہ بیان بھی دیا کہ ان کے جانے کے بعد روڈ کو دھویا جائے گا۔ (انہیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ایسی جگہ پر کسی مسلمان کے جانے سے راستے ناپاک نہیں ہوا کرتے بلکہ بیان دینے والا اگر گزر جائے تو راستہ ناپاک ہو جاتا ہے ) لہٰذا ہمارا مشورہ ہے کہ جب یہ بیان دینے والے وہاں سے گزر جائیں تو روڈ کو لازمی دھو لیا جائے۔
ایک دور تھا جب جنرل مشرف صاحب نے ایک کانفرنس میں ہندوستان کے وزیراعظم صاحب کی طرف خود ہاتھ ملانے میں پہل کرکے دنیا بھر کو حیران کر دیا تھا اور وہاں کے وزیراعظم صاحب بھی ششدر رہ گئے تھے یہ کیا ہو گیا۔ ایسی ہوتی ہے شیک ہینڈ، اور ایسے بڑھا جاتا ہے میل ملاپ کی طرف، مگر بھارت کے وزیراعظم اور صدر صاحب نے ہمارے وزیراعظم صاحب کا استقبال نہ کرکے سراسر زیادتی کی ہے یہ ان لوگوں کی سنگ دلی بلکہ تنگ دلی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں چاہے جیسی بھی صورتحال ہو ، عوام وزیراعظم کو پسند کرتے ہو ں یا نہ کرتے ہوں، مگر جب سرحد عبور کرکے کسی ملک کا صدر یا وزیراعظم دوسرے ملک میں قدم رکھتا ہے تو اسے پورا پروٹوکول دیا جانا چاہیئے مگر بھارت نے روایتی تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا بھر کو حیران کر دیا ہے۔اجمیر والے خواجہ کے عقیدت مند جب چاہیں ان کے دربار میں حاضری کے لئے جا سکتے ہیں یہ محض عقیدت کا معاملہ ہوتا ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی عقیدت کی راہ میں آئے۔
Pervez Ashraf Manmohan Singh
پاکستان کے وزیراعظم کو بھی اپنی عقیدت کے اظہار کا پورا حق تھا ۔ موصوف ہندوستان کسی سیاسی بات چیت کے لئے تو نہیں جا رہے تھے اور نہ ہی ان کا دورہ سیاسی نوعیت کا تھا۔اگر دورے کی نوعیت سیاسی ہوتی تو جناب من موہن سنگھ ان سے ضرور ملاقات کرتے۔ اور ایک عقیدت مند اگر اجمیر گیا تو اس سے ملاقات گوارا نہیں کیا گیا ۔ سرحدوں کے اختلافات اپنی جگہ مگر جانے والا ایک وزیراعظم بھی تھا اس کی اسی طرح آئو بھگت کرنی چاہیئے تھی ، اسی طرح مہمان نوازی کرنا ضروری تھا جو اس کے شایان شان ہوتا۔ ایک موقعے پر جسونت سنگھ نے کہا تھا کہ میری کیا اوقات کہ میں کسی کو اجمیر جانے سے روک سکوں۔
خواجہ کے دربار میں وہی حاضر ہوتا ہے جسے خود خواجہ صاحب بلاتے ہیں۔ تو ہمارے وزیراعظم کا بلاوا بھی اجمیر سے آیا تھا آپ ہمارے وزیراعظم کا نہ سہی اُس اجمیر والے خواجہ کے بلاوے کا ہی بھرم قائم رکھتے اور اسی شان سے وہاں ان کی آئو بھگت کرتے تو دنیا بھر میں آپ کو اعلیٰ ذوق اور اعلیٰ مہمان نواز کے طور پر دیکھا جاتا مگر آپ نے تو اپنی مہمان نوازی کا پول دنیا میں خود ہی کھول دیا۔ افسوس! خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری پاک و ہند کے صوفیائے کرام میں ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں اور اسی لئے انہیں ان کے عقیدت مند سلطان الہند کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
ان کی ساری زندگی، امن و اخوت، انسانی محبت اور اسلامی مساوات کا پیغام دینے میں صَرف ہوئی تھی۔ وہ صوفیانہ تہذیب کی عظیم علامت ہیں۔ جو اجمیر جاتا ہے وہ ان کے اسی پیغام کو تسلیم کرکے جاتا ہے۔ یوں بھی پاکستان میں خواجہ صاحب کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں عقیدت مند موجود ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اجمیر شریف ضرور جاتے ہیں، چاہے عام دنوں میں جائیں یا عرس کے موقعے پر جائیں۔ ان میں پاکستان کے تاجر برادری، عام لوگ اور سیاسی لیڈر بھی شامل ہوتے ہیں۔
اب آپ ہند والے ہی فیصلہ کریں کہ بقول آپ کے اور (ہم تو سمجھتے ہی ایسے ہیں) جنہیں خواجہ اجمیری بلاتے ہیں وہی ان کے دربار میں جاتا ہے ، تو حالات چاہے کتنے ہی پیچیدہ ہوں، سیاسی تنائو چاہے جتنا بھی گھمبیر ہو ، آپ کے بارڈر پر چاہے جتنے سخت پہرے ہوں اگر اجمیر والے نے ہمارے یہاں سے وزیراعظم کو بلایا تو وہ حاضری لگا آئے اور آپ منع بھی نہیں کر سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ حالات کا بہانہ بنا کر ملنے سے کترائے۔ یا پھر آپ کے یہاں بھی اگلے سال الیکشن کا سال ہے اور آپ بھی سیاسی بازیگری کے چالوں سے اپنے آپ کو محظوظ کر رہے ہوں۔
کیونکہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی آپ کے الیکشن ہونے کو ہوتے ہیں تو پاکستان کے ساتھ آپ لوگ خود ہی تعلقات کو خراب کر لیتے ہیں اس کی صحیح وجہ تو آپ کے پاس ہوگی ہمیں تو یہ صرف سَر پھری کہانی ہی لگتی ہے اور بس۔ایک جریدے کے مطابق پاکستانی وزیراعظم کے اس عقیدت مندانہ دورے کی مخالفت بھارتیہ جنتا پارٹی، شیو سینا، اور دیگر ہندو شدت پسند تنظیموں نے جی بھر کے کی۔
Indian people
یہ تو بھلا ہو ہندستانی عوام کا کہ جنہوں نے اس احتجاج میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی، شیو سینا اور دیگر شدت پسند تنظیموں کا کام ہی صرف مخالفت در مخالفت کرنا ہے ، انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ حالات، معاملات اور واقعات کیا ہیں۔ آپ کا احتجاج جب کارآمد ہوتا جب یہ دورہ سیاسی نوعیت کا ہوتا ، سب کو یہ معلوم تھا کہ دورہ نجی ہے تو پھر اس احتجاج کا کیا مقصد تھا۔
ان تمام لوگوں نے احتجاج کیا جس کا نہ ہمیں افسوس ہے اور نہ ہی ملال ! لیکن افسوس اور ملال اس بات پر ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری کے سجادہ نشین صوفی زین العابدین صاحب نے ایک عقیدت مند خواہ وہ کسی ملک کا سربراہ ہو یا عام آدمی مخالفت کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ جہاں تک ملک کی کشیدہ صورتحال کا تعلق ہے تو اس کے لئے اربابِ حکومت جانیںکیونکہ ہندوستان پاکستان کی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ اور آئے دن چھوٹی بڑی باتوں پر کشیدگی ہوتی رہتی ہے پھر حالات نارمل نہج کی طرف آ جاتے ہیں۔
ہم سجادہ نشین زین العابدین صاحب سے جاننا چاہتے ہیں کہ کہ آخر ایک عقیدت مند کے آنے پر انہیں کیا اعتراض تھا جو انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ ہمیں یقینا شک ہے کہ کوئی سیاسی معشوق اس پردے کے پیچھے کار فرما تو نہیں ہے۔ ہم بہت افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنے پر راضی ہوئے کہ آپ نے کیوں خواجہ صاحب کے اصولوں اور اجمیر شریف کی مہمان نوازی کو بالائے طاق رکھ کر یہ ثابت کیا۔
آپ خواجہ اجمیری سنجری چشتی جیسی مقدس ذاتِ گرامی کے مزار مقدس کے سجادہ نشین ہوتے ہوئے بھی بائیکاٹ کیا۔ویسے بھی صوفی، درویشوں ، ولیوں کو ان سیاسی کھیل تماشوں سے کوئی مطلب نہیں ہوتا جبکہ آپ کئی سال سے درگاہ خواجہ کے سجادہ نشین ہیں اور پھر بھی ان کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے ایک عقیدت مند کا بائیکاٹ کیا جو کہ سراسر ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ سوچیئے گا ضرور کہ کیا آپ نے خواجہ کے اصولوں سے انحراف تو نہیں کیا۔ اللہ رب العزت ہم سب کے ساتھ آپ کا بھی حامی و ناصر ہو۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی