آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جہاں مخالفین اور جنگی قیدیوں کو وقار و احترام سے نوازا تو وہاں پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے خاندان کے قاتلوں تک کو معاف کرکے روز آخرت تک معاشرے کے لیے ایسی مثال قائم کردی جو انسانی زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں پیداکرتی ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ ہم اپنے پیارے نبی کریم ۖ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے لیکن تحقیق کیے بغیر کسی پریہ الزام عائد کردینا کہ اُس نے گستاخی کی اور پھر ریاستی قانوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود عادل و منصف بن کربے گناہوں کے گھر جلا دینا انتہائی غیر اسلامی عمل ہے ۔
مگر دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم کیسے مسلمان اور عاشق رسولۖ ہیں کہ کسی ایک فرد کے انفرادی گناہ کی وجہ سے جو ابھی ثابت نہیں ہوا تھا کہ اقلیتی آبادی کے ہزاروں گھروں کو نذر آتش کردیتے ہیں۔
تو ہین رسالت بہت بڑا جرم ہے اور تکذیب رسالت کی سزا سزائے موت ہے تاہم سزا کا اختیار صرف اور صرف ریاست اورعدالت کا اختیار ہے۔
کسی ایک شخص کے گناہ پر ہزاروں انسانوں کو سز ادینا کہاں کی سنت اور کہاں کا عشق رسولۖ ہے؟ افسوس ناک امر تو یہ بھی ہے کہ بعض افراد نے لوٹ مار بھی کی۔
Shop Fire
لگتاہے مشتعل مظاہرین کی صفوں میں فتنہ گر شامل ہوگئے جنہوں نے نہ صرف جوزف کالونی میں دوکانوں اور مکانات کو خاکستر بنایا بلکہ انسانی اقدار کو بری طرح پامال کیا ۔شائد اسی فتنے سے بچانے کے لیے اسلام ہمیں.
آپے سے باہر ہونے سے منع فرماتا ہے کیونکہ غصے کی حالت میں انسان جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
کچھ لکھنے والے سانحہ بادامی باغ کو کچھ ایسی ہوا دے رہے جو آگ کو مزید تیز کرسکتی میری ایسے دانشوروںسے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے.
کہ خدارا ایسی باتیں نہ کریں جو پاکستانیوں کے رشتوں میں خلش پیداکرسکتیں ہیں۔
ایسی کوئی بات کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آگ لگتی ہے تو پھر کسی مذہب یا فرقے کی پابند نہیں رہتی
،جوبھی آگ کے راستے میں آتا اُسے جلا ڈالتی ہے اس لیے ہمیں آگ پرقابو پانے کے لیے ایسے پانی کی ضرورت ہے جس میں مذہب یا فرقوں کی نفرت کے کیمنکل مکس نہ ہوں ۔
Nasir
تحریر: رائوناصر علی خان raonasiralikhan555@gmail.com