اسلام نے حکمرانوں کے گرد جو دائرہ کھینچا ہے اس کے مطابق حکمران کو باکردارونیک سیرت ہونا چاہیے ،دین و دنیا کی سوجھ بوجھ رکھتا ہواور علم کے ساتھ ساتھ عمل کا بھی پیکر ہو۔مسلم ریاست کے حکمران کوبھی ہر قسم کے حقوق میں عام عوام کے ساتھ برابرہونا چاہیے یعنی حکمران ریاست کے کسی قانون سے بالاترنہ ہو،ملک کی آمدنی میں سے ضرورت زندگی سے زیادہ نہ لے سکے.
عام معاشرت میں اس کی کمان حیثیت نمایاں و منفرد ہو،اس کے اختیارات محدود ہوں اور ہرشخص کو حکمران پر نکتہ چینی اور تنقید و محاسبہ کاحق حاصل ہو۔
میرے خیال میں اگر حکمران ملک میں امن و امان قائم نہ کرسکتا ہواور عوام کو انصاف وروزگار فراہم کرنا اس کے بس میں نہ رہے تواسے اس بات کااقرارکرتے ہوئے کہ وہ اپنے آپ کو حکومتی عہدے کا اہل نہیں سمجھتا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے تاکہ اس کی جگہ دوسرا اہل شخص کمان سنبھا ل کر ملک قوم کے مسائل کو حل کرئے ۔لیکن افسوس کہ میرے وطن میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔
میں نہیں کہنا چاہتا لیکن حالات وواقعات بتاتے ہیں کہ وطن عزیز میں سب کے سب نااہل لوگ حکومتی امور چلارہے ہیں۔آپ صرف کراچی ہی کی بات کرلیں اس بات سے کون واقف نہیں کہ کراچی میں بسنے والے ہرشہری خاص طورپرکاروباری طبقے کابھتہ خوری،اغوابرائے تاوان،بدامنی اورلاقانونیت نے جیناحرام کررکھاہے۔
مایوسی نے ہرگھر میں ڈیرے جما رکھے ہیں۔ہرروزسرعام لوگ لٹتے ہیں ،کٹتے ہیںلیکن حکمران سوائے سیاست کے کچھ نہیںکرتے۔
عام شہری تو اتنا جانتے ہیں اگر حکمران عوام کوامن و انصاف فراہم نہیں کرسکتے تواپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں ۔انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ عوام کی خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کریں ۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمرانوں کافرض نہیں بنتا کہ عوام کو امن وانصاف فراہم کریں؟ کتنی حیرت کی بات ہے کہ لٹنے اورکٹنے والوں میں حکمرانوں(خواہ سیاسی ہوں یافوجی) کے بھائی بیٹے شامل نہیں ہوتے صرف عام عوام ہی لٹتی اور کٹتی ہے۔
Terrorism
شائد یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی حکمران نے کراچی کے امن کو بحال کرنے کی کوشش نہیں کی اگر لٹنے اور کٹنے والوں میں حکمران طبقے کاکوئی فرد شامل ہوتا تو شائدآج حالات بہتر ہوتے۔
اورحکمران اتنے سکون و اطمنان سے زندگی بسر کرنے کی بجائے ٹارگٹ کلنگ اوردہشتگردی کے خاتمے کے لیے دن رات اپنی نیندیں حرام کررہے ہوتے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں نہ تو کسی کوفکر ہے اور نہ ہی شرم آتی ہے بس لوٹ مار کی دولت آتی جسے بے شرم لوگ اپنی اولادکی خاطر جمع کرتے ہیں.
تاکہ ان کے مرنے کے بعدکوئی ان کا نام لیوا باقی رہے۔اگر اولاد اور دولت ہی سے انسان کا نام باقی رہنا ہوتا تو آج قائداعظم محمد علی جناح کا نام باقی نہ ہوتا کیونکہ نہ تو ان کی اولاد نے ان کے بعد کوئی اہم کارنامہ سرانجام دیا اور نہ ہی انھوں نے کوئی دولت پیچھے چھوڑی صرف ان کااعلیٰ کردار ہی تھا جس کی وجہ سے آج تک ان کانام لینے والے باقی ہیں جوانشااللہ رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔
ایسی اور بھی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔جن میں سے ایک سلطان صلاح الدین ایوبی بھی ہیں جن کی قیادت میں مسلمانوں نے بیت المقدس ،فلسطین،اردن،لبنان اور مصرپر فتح پائی ۔
لیکن جب آپ فوت ہوئے توغربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے کفن دفن کا انتظام ادھار کی رقم سے کیا گیا۔سنا ہے وہ حج کی بڑی تمنا رکھتے تھے.
جو دولت کی کمی کی وجہ پوری نہ ہوسکی ۔کوئی آج کے حکمرانوں سے پوچھے کہ یہ اتنے دولت مند کیسے بن جاتے ہیں۔آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک پاکستانی قوم کو پھر سے محمد علی جناح اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے قائدین عطا فرمائیں(آمین)