مرحوم ایک ادبی آدمی تھے او ر دوسروں کو” دبا ” کر ان کی” عزت” کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔اپنے والد محترم کو ”میرے ابو جان ” جیسا کالم لکھ کر خراج تحسین پیش کرتے تھے ۔دوسروں کے” ابووئوں”کے سفید بال گویا ان کے لئے دھوپ کا کرشمہ تھے۔مرحوم پہلے تو اپنے پروگرام ”خطرناک ” میں صرف پگڑیاں ہی اچھالتے تھے۔پھر اچانک انہوں نے پگڑیوں کے ساتھ ساتھ بھی اتارنا بھی شروع کر دیں۔مرحوم اور ان کے حواریوں کے قابو جو بھی چڑھا انہوں نے اس ”کو ٹھوک بجا” کر رکھ دیا۔ سیاستدانوں کے علاوہ مرحوم نے تمام شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات کو ”چکھنا ” شروع کر دیا۔
گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے ان کے ساتھ خود رابطہ کیا کہ ایک ہی ادبی شخصیت انور مقصود کی دنیا میں سب سے ذیادہ توہین آمیز پیروڈی کرنے پر ان کے پروگرام کو یہ ایوارڈ دیا جا رہا تھا۔سب کچھ روٹین کے مطابق تھا۔انہوں نے” خیر سگالی ”کے لئے انور مقصود کا گٹ اپ خود کر رکھا تھا۔اور اپنے گٹ اپ میں میرمحمد علی کواینکرکی کرسی پر بٹھارکھا تھا۔مرحوم کا میرمحمد علی سے برسوں کا شکوہ تھا کہ جتنی” محبت ”میرے دل میں انور مقصود کے لئے چھپی ہے۔اس کا تم سے صیح طریقے سے اظہار نہیں ہوتا ۔ آج دیکھنا میں تمہیں کچھ نیا ہی دکھائوں گا۔ لائٹس اوپن ہوئیں،کیمرے سٹارٹ ہوئے،الٹی گنتی ہوئی اور پروگرام کا آغاز ہو گیا۔
کیمرہ میرمحمد علی سے ہوتا ہوا آفتاب اقبال پر رکا۔انور مقصود کو انہوں نے خو بصورت انداز میں ”پوٹرے ” کرنا شروع کر دیا۔بات قاضی واجد،بشری انصاری،شکیل سے ہوتی ہوئی قاضی واجد پر ختم ہوئی۔بطخ کی طر ح کیں ،کیں کرتے ہوئے انہوں نے زبان کو تالو کے ساتھ لگا کر چخ ،چخ کی آواز نکالنے کی کوشش کی مگرزبان نے تالو کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔انہوں نے عجیب و غریب حرکتیں کرنا شروع کر دیں۔وہ بار بار انگلی منہ ڈال رہے تھے۔پھر بے سود ہو کر پہلے صوفے پر چڑھے پھر زمین پر گرے اور چت لیٹ گئے۔ گینز بک اور ورلڈ ریکارڈ کی ٹیم سمیت حکیم،جیدا،ہنی البیلا،سلیم البیلا،میر محمدعلی ،زینب اور تمام حاضرین کا ہنس ،ہنس کر برا حال ہو گیا۔
انہوں نے تالیوں کے ساتھ انہیں دل کھول کر داد دی۔لیکن جب داد کے باوجود ان میں کوئی حرکت نہ ہوئی ۔تو پھر پوری ٹیم پریشان ہو کر ان کی طرف دوڑی ۔سب سے پہلے حکیم نے اس کے بعد بھاء نصیر نے ان کی سانس کی بحالی کے لئے اپنا سانس دینے کی کوشش کی مگر بے سود،اس کے بعد تمام ٹیم نے ان کا سانس بحال کرنے کی بہت کوشش کی۔اس کار خیر میں حاظرین نے بھی حصہ ڈالا مگر مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ان کی اس حادثاتی موت کی خبر کو سیاسی ،ادبی ،الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا میں بظاہر غمی مگر بڑی خوشی سے سنا گیااس کے علاوہ اسلام آباد میں ”ڈمی میوزیم ” میں موجود ” سیاسی ،ادبی، اور میڈیا کے پتلوں ”نے اس قدر غم کا اظہار کیا کہ خوشی سے ان کی پتلیاں چڑھ گیں۔۔نہانے کے بعد ”منہ دکھائی” میں بھی ان پر سے انور مقصود کا گٹ اپ نہ اتر سکا اور وہ ہو بہو انور مقصود ہی دکھائی دیتے تھے۔
Funeral
مرحوم کے جنازے میںسیاسی،ادبی ،الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔سب سے ذیادہ ”واویلا”ان کے پروگرا م کے رفقا خاص کیا۔ان بے چاروں کی حالت دیدنی تھی۔حکیم صاحب سمیت پروگرام کی ٹیم کو غشی کا ڈرامہ کرنا تھا جس کا ”معاوضہ” بھی کوئی نہیں تھا۔ بس اسی بات پر ان کوحقیقی غش پر غش آ رہے تھے۔ ”خطرناک” پروگرام کی ٹیم دوسرے دن ان کی قبر پر چادر چڑھانے کے لئے پہنچی تو انہوں نے دور سے دیکھا کوئی شخص کبھی دائیں منہ کرتا تو کبھی بائیں پھر چند لمحوں کے بعد اوپر کی طرف دیکھنے لگتا۔حکیم صاحب نے آنکھوں کو سکیڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر ناکامی پر جیدے سے پوچھا ”او،یہ کون ہے۔؟”
”ہو گا کوئی آفتاب صاحب کو چاہنے والا”۔ جب وہ قریب پہنچے تو وہاں پر موجود شخص نے ان کی جانب دوڑ لگادی۔وہ ڈر گئے۔انہوں نے دیکھاان کے قریب آنیوالا انور مقصود تھا۔پانچوں نے اس کے گٹے گوڈوں کو ہاتھ لگانا شروع کردیا۔”سر! قسم لے لیں ہم نہیں تھے۔یہ میر محمد علی ہی آپ کی پیروڈی کرتا تھا ہم تو بیچ میں لقمہ ہی دیتے تھے اپنا لقمہ حلال کرنے کے لئے”۔ اوئے،بے وقوفوں یہ میں ہوں آفتاب اقبال۔میںمرا نہیں تھا۔ تالو اور زبان آپس میں جڑ گئے تھے بس اسی وجہ سے میرا دم گھٹ گیا تھا۔اس بے وقوف میک اپ مین نے نہ جانے کیسا میک اپ کیا ہے کہ یہ انور مقصود اترا ہی نہیں۔کل سے چہرے پر مٹی مل مل کر اتار رہا ہوں لیکن بے سود۔”
”لیکن سر!”میر محمد علی کچھ کہتے کہتے رہ گیا۔ لیکن ،ویکن کچھ نہیں تم میڈیا کو بتائو آفتاب اقبال زندہ ہے”۔انہوںنے ایک گرجدرا آواز کے ساتھ کہا ”حکیم صاحب ! کبھی بھوت دیکھا ہے”۔جیدے نے لرزتے جسم کے ساتھ کہا ”نہیں۔۔۔۔۔۔۔” حکیم صاحب کی بھی ایسی ہی حالت تھی۔ ”تو پھر بھاگو ،یہ آفتاب اقبال کا نہیں انور مقصود کا بھوت ہے”۔جیدے نے یہ کہتے ہوئے دوڑ لگا دی۔پانچوں کی دوڑ میں حکیم صاحب سب سے آگے تھے۔ مرحوم کی وفات کے بعد ان کے ٹی وی پروگرام کومیرمحمد علی ،آفتاب اقبال کے گٹ اپ میں ہو سٹ کر رہے ہیں۔اور وہ پانچوں ایک دوسرے کے راز داں ہیں۔انہوں نے پروگرام کے دوران عوام کو یہی بتایا کہ اس دن انور مقصود کے گٹ اپ میں میر محمد علی فوت ہوئے تھے۔
انہوں نے کئی بار قبرستان جانے کی کوشش کی دور سے ہی کتبہ نظر دکھائی دیتا ہے۔ جس پر جلی حروف میںدرج ہے ”یہاں آفتاب اقبال نہیں، انور مقصود آرام فرما رہے ہیں”۔ایک ہی منظر ہے جو ہر دفعہ انہیں نظر آ تا ہے۔وہ آفتاب اقبال ہے یا انور مقصود وہ کبھی دائیں اور کبھی بائیں پھر اوپر کی طرف دیکھتا ہے۔ایک گر جدار آواز کے ساتھ زور سے پکارتا ہے ۔”لائٹس اوپن۔کیمرہ سٹارٹ ،ٹیپ رول پھر الٹی گنتی گنتا ہے۔فائیو،فور،تھری ٹو ،ون،ریڈی،گو۔۔۔۔۔۔”پھر سامنے دیکھتے مسکراتا ہوا کہتا ہے۔”میں ہوں آپ کا ہوسٹ آفتاب اقبال ،سب سے پہلے جانتے ہیں آج کا رن ڈاون ،جی زینب’۔’ اس سے ذیادہ ان میں سننے کا حوصلہ نہیں۔اور وہ بوجھل دل کے ساتھ واپس آ جاتے ہیں۔
Veena Malik
وینا ملک( بوسہ ورلڈ ریکارڈلسٹ) اگر مرحومہ کی زندگی کے کردار کے مختلف ادوار کو مدنظر رکھا جائے تو مرحومہ کا بلاشبہ یہی نظریہ ہو گا ”داغ تو اچھے ہوتے ہیں ”۔مرحومہ نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا میں ایک فنکارہ ہوں اور فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی مجھ سے جو کام پاکستان میں لیا گیا میں نے خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔جو کام میں نے انڈیا میں کیا وہ وہاں کی ڈیمانڈ تھی ۔اگر میں نے ہالی وڈ میں کام کیا تو ان کی ڈیمانڈ کے عین مطابق کروں گی۔”سرحد” پار کرنے کے لئے مرحومہ ساری ”حدیں ”پار کر گئیں۔ انڈیا کے ایک میگزین میں شائع ہونے والی تصاویر پر مرحومہ کو پوری دنیا سے ”شاباش ” ملی۔وہ اس بات پریشان نہ تھیں کہ ان کی تصاویر اخلاقی تقاضوں پر پوری نہیںاترتیں ۔ان کو پریشانی فقط اس بات پر تھی کہ انہوں نے ہاتھ میں سیب پکڑا تھا وہ بم میں کیسے تبدیل ہو گیا۔مرحومہ نے ”بگ باس ” سے بری شہرت پائی۔
خاص طور پر ایک ہی کمبل میںٹھنڈی رات اوور سٹائل سے ایشمیت کی ”چمپی” نے ان پر شہرت اور مساج کے دروازے کھول دئیے۔مرحومہ کو بہت سی آئل کمپنیوں نے اپنا برانڈڈ سفیر مقرر کرنے کے لئے ان کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی۔مگر مرحومہ نے فرمایا یہ کام تو بڑھاپے میں بھی ہو سکتا ہے۔جو جوانی کے کام ہیں ان کو تو پورا کر لوں۔ہالی وڈ میں ایک فلم کی آفر ہوئی تو مرحومہ نے اپنی فلموں کے” ٹوٹے”اٹھائے اور اپنے انٹرویو کے دوران دکھائے جس پر ہالی وڈ کے ڈائریکٹر صاحب نے کہا ”بی بی! یہ جو تم کر چکی ہو اس سے آگے کیا کرنا چاہتی ہو۔” مرحومہ نے بالی وڈ کی اپنی قماش کی تمام خاتون فنکاروں کو گھر بٹھادیا۔مرحومہ نے اپنی زندگی میں بہت سے عشق لڑائے جو زبان زد عام ہوئے۔بادامی کے ساتھ ایک آن لائن انٹرویومیں مر حومہ اور ایشمت شامل تھے۔
دوران گفتگو بادامی کو یہ کہنا پڑا کچھ احتیاط کیجئے گا۔یہ پروگرام آن لائن ہے۔ابھی میگزین میں چھپی تصویروں کی سیاہی ماند نہیں پڑی تھی کہ مرحومہ کو رمضان میں ”استغفار” کی سو جھی۔ سوشل میڈیا پر تندو تیز تنقید پر اس پروگرام کو موخر کر دیا۔مگر پھر بھی نجی ٹی وی نے اشتہارات سے مجبور ہو کر ان کے استغفار سے بھر پور چند پروگرام نشر کر دیئے۔جن میں ایک مولوی صاحب سہمے ہوئے ان کے مد مقابل ہوتے تھے۔ان پروگراموں کے دوران کالوں کے تانتے سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے لوگ وینا ملک کے ہاتھ پر ہی ”مشرف بہ استغفار” ہونا چاہتے ہیں۔لوگ فون کال کے ملتے ہی ہچکیوں میں رونا شروع کر دیتے تھے۔ ان کے سوشل میڈیا پر تنقید پر انہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات کا بر ملا اظہار کیاکہ میں نے جو بھی ٹی وی شو کیا وہ میری ذاتی زندگی کا اظہار نہیں تھا۔میں شو کو شو کے طور پر لیتی ہوئی وہ خواہ وہ کوئی سابھی پروگرام ہو۔
مرحومہ کا دعوی تھا کہ انہیں پچھترہزار رشتوں کی آفر ہوئی ہیں۔ مگروہ اپنی فنکارانہ زندگی میں اس قدر مصروف تھیں کہ انہیں شادی کا موقع ہی نہیں ملا۔مرحومہ نے سلیمان خان کا ایک ورلڈ ریکارڈ جو کہ ہاتھ پر ایک سو آٹھ بوسوں کا تھا۔ایک سو سنتیس بوسے اپنے ہاتھ پر دے کر جیت لیا۔مرحومہ کو خبروں میں ان رہنے کا ہنر آتا تھا۔اور اس مقصد کے لئے وہ آخری حدوں تک بھی جانے کے تیار تھیں۔ہاتھوں پر بوسوں کی بے مثال کام یابی کے بعد مرحومہ نے طویل ترین بوسے کا اعلان کر دیا۔اسی سال کی عمراور طویل ترین بوسہ کوئی اس کے لئے تیار نہیں تھا۔پھر انڈیا کے فلمی مر دآھن عمران ہاشمی نے مرحومہ کا چیلنج قبول کر لیا۔ طویل ترین بوسے کے دوران عمران ہاشمی کی بتیسی مرحومہ کے حلق میں جا پھنسی ۔بتیسی کے حملے سے مرحومہ جانبر نہ ہو سکی۔مرحومہ کے کتبہ پر لکھا ہوا شعر مرحومہ کی دلی جذبات کاعکاس ہے۔ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ،ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم