کسی بھی قصبے، شہر، تحصیل، ضلع، صوبے اور ملک کی ترقی میں محکمہ ٹرانسپورٹ اہم کردار ادا کرتا ہے۔اگر کسی علاقے میں ٹرانسپورٹ کا نظام موجود ہو اور بروقت ٹرانسپورٹ میسر آتی ہو تو اس علاقہ کی ترقی کوچار چاند لگ جاتے ہیں اوردوسرے علاقوں سے تاجر جوک در جوک سرمایہ کاری کرنے کیلئے تشریف لاتے ہیں۔ اور اگر ٹرانسپورٹ کا نظام صرف کاغذات کی حد تک قائم ہوتواس ملک ، علاقہ کی ترقی بھی کاغذات کی حد تک ہوتی ہے۔
قابل حکمران برسراقتدار آتے ہی اپنی حدود میںموجود ٹرانسپورٹ سسٹم کی ترقی کیلئے اقدامات اور کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ تاکہ جلد از جلد سڑکوں کا جال بچھایا جاسکئے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو ترقی دے کر موجودہ وقت ودور کے مطابق ترتیب دیا جاسکے۔اور اس کے ووٹر بھی ترقی یافتہ عوام کی طرح زندگی بسر کرسکئے۔
موجود ہ دور میں ہر کوئی متحدہ عرب امارات کی سیر وتفریح کی خواہش دل میں لگائے ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے مسافروں کی سہولت کیلئے دنیا کا بہترین نطا م بنایا ہوا ہے۔ ترقی یافتہ نظام کی بدولت سیاح با آسانی سفر طے کرسکتے ہیں۔
دبئی کے تمام بس اسٹیشن پر سیاحوں اور غیرملکی حضرات کیلئے نقشہ آویزاں ہے۔جس کی رہنمائی سے مسافر مطلوبہ جگہ (ہوٹل ، مارکیٹ ، شاپنگ سنٹر،کھیل کا میدان، سکول، کالج، یونیورسٹی، روڈ وغیرہ) تک با آسانی رسائی کرسکتا ہے ۔اور تفریح سفر کو یاد گار بنا سکتا ہے۔
دینا بھر میں کو ئی ٹر انسپورٹر کسی مسافر سے اوورچارجنگ نہیں کرسکتااور اگر کوئی کرنے کی ہمت کرئے تو اس کو جرمانہ و سزا سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ٹریفک کے نظام کو بحا ل رکھنے کیلئے تمام ممالک میں ٹریفک پولیس موجود ہے اور تمام اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے سرانجام بھی دیتے نظر آتے ہیں ماسوائے پاکستان کے۔
پاکستان میں ٹرانسپورٹ مافیا میں بااثرسیاسی ، سماجی شخصیات شامل ہونے کی وجہ سے کسی بھی گاڑی میں کرایہ نامہ آویزاں نہیں، اور اگر کسی نے غلطی سے آویزاں کربھی دیا ہے عمل درآمدعوام کونصیب نہیں ہوا۔ناکام ٹریفک پولیس کی بدولت ضلع سیالکوٹ میں تقریبا تمام ٹرانسپورٹر 33% سے زیادہ کی اوورچارجنگ کرتے ہیں اور اکثرو بیشتر رات کے اوقات میںترقی کرتے ہوئے 50% سے بھی عبور کرجاتے ہیں۔
Transport
مزید برآں دیہاتی علاقوں مین جانے والی ٹرانسپورٹ اوورلوڈنگ کی حد بھی عبور کرجاتے ہیں۔گاڑی کے اندر تو بھیڑ بکریوں کا منظر ہوتا ہی ہے اوپر والی منزل یعنی چھٹ پر توایسے لگتا ہے جیسے مرغیوں کوسوار کیا ہوا ہے۔ جواپنی جان کی فکر سے بے نیاز ہوکراپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔
اور راستے میںجاری ترقیاتی کاموں کا آسمانی جائزہ ، مٹی کا مزہ اور علاقے کی بااثر شخصیات کی طرف سے لگی بڑی بڑی ہورڈنگ پرلکھے 2013 کے نعرہ مزے کے ساتھ پڑھتے ،جگہ جگہ کھڑے سفید شرٹ بلیو پتلوںمیں ملبوس افراد کوڈرائیوروں سے ہفتہ لینے کا منظر مفت میں حاصل کررہے ہیں۔
قارئین بیشک پاکستا ن میں موجود ٹرانسپورٹ کا نظام دیگر ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں صفر ہے ، یہاں پرروزانہ غیر معیاری CNG کٹ کے دھماکہ سے افراد کی شہادت کی خبریں عام ہے۔سگریٹ کے دھویں سے بیماراور فرسٹ ایڈبکس نہ ہونے کی بدولت شدیدبیمار ہوکرسرکاری ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔
مگر انتظار لمبا ہونے کی بدولت قریبی عطائی ڈاکٹروں سے ادویات لیکرواپس گھرچلے آتے ہیں، کیونکہ غریب آدمی سرکاری ڈاکٹروں کی پرائیویٹ فیس کو برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتا، جن کی فیس ہرگھنٹے کے بعد کم یا زیادہ ہوتی ہے، جبکہ پاکستان میں اتنی سپیڈ سے تو پٹرول یا ڈالر ترقی نہیں کرتا جتنی سپیڈ سے ڈاکٹرکے نرخ ترقی کرتے ہیں۔
اب اپنے اصل پوائنٹ کو واپس آتے ہیں، سیالکوٹ انتظامیہ کی غفلت ،لاپرواہی،رشوت خوری، سیاسی دبائو کی وجہ سے ٹرانسپورٹ مافیاکو کنٹرول کرنے کی طاقت سے محروم ہو چکے ہیں۔ جس کا نقصان صرف اور صرف غریب سیالکوٹی برداشت کررہے ہیں۔
عرصہ دراز سے سیالکوٹ بس اسٹینڈ تعمیراتی کام بند ہونے کی وجہ سے مسافروں کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ شدید سردی وگرمی میں مسافر چھت کی تلاش میں نظرآتے ہیںاور بارش والے دن توا ﷲکے حضور دعا خیر کرتے نظر آتے ہیں، انتظار گاہ پر پہلے نشیوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔
راقم نگران وزیر اعلیٰ سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ضلع سیالکوٹ میں موجود نااہل، راشی انتظامی افسران کا تبادلہ کرئے تاکہ شہراقبال کے باسی اوورلوڈنگ، اوورچارجنگ، اوورسپیڈ اور رشوت کے ٹرانشپورٹ سسٹم سے نجات حاصل کرسکے۔