جذبات کی رو میں بہہ جانے والے لوگ پانی کی بے رحم موجوں کی مانند بغیر پہچان کیئے سب پر حملہ کردیتے ہیں ۔ان کا نہ کوئی عقیدہ ہوتاہے نہ ہی یہ محب وطن کہلانے کے حقدارہوتے ہیں۔یہ ہرسنی سنائی بات کومن وعن حقیقت تسلیم کرلیتے ہیں آدم کی اولاد کاخون پیتے ہیں اور ان کے احساسات کوکچل کررکھ دیتے ہیں۔ظلم بربریت’زیادتی جیسے الفاظ ان کیلئے مقدس ہوتے ہیںاوررحم رواداری’برداشت جیسے الفاظ ان کی ڈکشنری میں سماہی نہیں سکتے۔
گزشتہ دنوں مینار پاکستان وشاہی قلعہ کے بیچ وبیچ آباد غریبوں کی ایک بستی کے 177گھراور سولہ دکانیں نذرآتش کردی گئیں۔اس سے قبل اگر یکم اگست 2009کوگوجرہ میں آباد غریبوں کی ایک بستی پر حملے کی تحقیقات کی جاتیںاور ان پر عمل درآمد ہوتا توشاید اس قسم کے دلخراش وغیرانسانی فعل کا ہم تذکرہ ہی نہ کررہے ہوتے۔ سوچتاہوں تو دماغ سن ہوتاہے کروٹ بدلنے کی سعی کروں تو جسم کومنجمد پاتاہوں کہ اپنے آپ کو عاشق کہلانے والوں نے جوزف کالونی میں آباد غریب مولوی مشتاق اور اس کے کلمے کو پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے اس کے گھر پراتنی ہی شدت سے حملہ کیا۔
جتنی طاقت ونفرت سے انہوں نے غریب مسیحوں کی سالہا سال کی محنت کو لمحوں میں خاکستربنایا۔دیاسلائی جلی اور حوا کی تین مسلم بیٹیوں سمیت باقی ماندہ بیٹیوں کاجہیز بھی جلنے لگا۔اس دھوئیں میں موجود جلتے ارمانوں آہوں سسکیوں کو وہی پہچان سکتاہے جس نے ذرہ ذرہ اپناخون جلاکراکھٹاکیاہویاسینے میں دل رکھتاہو۔ اس سانحہ کاسکرپٹ تیارکرنے والے لینڈمافیا’سیاسی ونگ یاکوئی ملک دشمن قوتیں بھی ہوسکتیں ہیں۔
مگر جن ہاتھوں نے یہ کام سرانجام دیا ان کے پاک نبی صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم کے پاس ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کاچودہ رکنی وفد مدینہ آیاتو آپ صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم نے اس وفد کومسجدنبوی میں ٹھہرایااور عیسائیوں کواپنے عقیدے کے مطابق عبادت کی اجازت دی”(طبقات ابن سعد)۔حقیقت یہ ہے کہ جب ریاست اپنی رٹ کھودے ہرجانب انارکی پھیلی ہو لوگ غیرمحفوظ ہوں تب ہی قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔سرورکائنات یاکسی بھی پیغمبر کی گستاخی کرنے والا بدبخت اس قابل نہیں ۔
اسے اس دنیامیں سانس لینے کی اجازت دی جائے مگر اس کی سزا اس کے اہل وعیال یا ہم مذہبوں کو دینا پیارے رسول صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم کی تعلیمات سے منحرف ہوناہے ۔رحمت العالمین نے تو آج سے چودہ صدیاں قبل اہل کتاب سے ایک ایسا تابناک معاہدہ کیاکہ آج تک دنیاکی کوئی تہذیب ومذہب اس کی مثال لانے سے قاصرہے۔جسٹس امیر علی اپنی کتاب سپرٹ آف اسلام میں آپ صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم کے ساتھ سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کے وفد کی ملاقات کاتذکرہ کیاہے۔
Muhmmad Saw
جس میں انہوں نے نبی آخرالزماں صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم سے پناہ کی درخواست کی تو شہیدکربلا کے نانانے نہ صرف انہیں اپنی پناہ کاشرف عطاء کیا بلکہ ایک ایسامعاہدہ ضبط تحریرمیں لائے کہ انسانیت تاقیامت ان کی مشکوررہے گی یورپ وگردونواح میں جوحقوق اقلیتوں کو سولھویں اورسترھویں صدی میں جاکے ملے وہ اس معاہدے کاعشرعشیربھی نہیں۔”یہ پیغام محمدبن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ چاہے وہ دور ہوں یانزدیک ‘ایک عہد ہے کہ ہم انکے ساتھ ہیں۔
بے شک میں میرے خدمت گار’مددگاراورپیروکاران کاتحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں اور خداکی قسم میں ہراس بات سے اجتناب کروں گاجوانہیں ناخوش کرے۔ان پر کوئی جبرنہیں ہوگا۔نہ ان کہ منصفوں کوان کے عہدوں سے ہٹایاجائے گااور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا’نقصان نہیں پہنچائے گااور نہ وہاں سے کوئی شہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔اگرکسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تووہ خداکے عہدکوتوڑنے اور اس کے نبی صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم کی نافرمانی کامرتکب ہوگا۔
بے شک وہ میرے اتحادی ہیں۔اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں ۔کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ کرنے پرمجبورنہیں کرے گا۔ان کے لیئے جنگ مسلمان کریں گے۔اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسااس کی مرضی کے بغیرنہیں ہوگا۔اس عورت کو عبادت کیلئے گرجاگھرجانے سے نہیں روکاجائے گا۔ان کے گرجاگھروں کااحترام کیاجائے گا۔انہیں گرجاگھروں کی مرمت یااپنے معاہدوں کااحترام کرنے سے منع نہیں کیاجائے گا۔(مسلمان)قوم کاکوئی فردروزقیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا”(واللہ اعلم)۔
تاریخ گواہ ہے کہ آپ صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم کی حیات مبارکہ اور اُس کے بعد آپ صلی اللہ عیلہ واالہ وسلم کے سچے جانشینوں نے اس معاہدے کے حرف حرف پر عمل کیا اور اگر کبھی اہل کتاب کو ادنی سی بھی تکلیف پہنچی تو ان کی اشک سوئی کیلئے ہر ممکن قدم اُٹھایا۔سانحہ کے بعدپنجاب حکومت نے فوری امداد کاآغاز کیا ‘اوروفاق بھی پیچھے نہیں رہا۔لیکن ایک ٹی وی پروگرام میں جناب اکرم مسیح گل نے کہاکہ آبادی کی تعمیری سرگرمیاں عدم توجہ کا شکارہیں ۔بغیربنیاد رکھے عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں ۔تو اس ضمن میں پاکستان کے واحد ورکر وزیراعلی کو خصوصی توجہ دینی چاہیئے ۔کیونکہ ہماری جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری انھیں پرہے۔