ملک کے وجود میں آنے کے ٦٥ سال بعد آج بھی ہم ایک منتشر قوم ہیں ۔اخلاقی اقدار کا تو ویسے ہی جنازہ نکل گیا ہے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی معشیت معاشرت طبقاتی تقسیم کرپشن تمام قدرتی وسائل کے باوجود توانائی کا بحران لو ٹ مار۔ تعلیم و صحت کے مسائل۔ عدل کی عدم فراہمی واڈیراں کلچر لسانی و مذہبی منافرت بے روزگاری اور غربت جیسے بے شمار مسائل ابھی بھی منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ ہم سے بعد میں آزاد ہو نے والے ممالک ترقی میں آج ہم سے کہیں آگے ہیں یقینا ان کے پاس بھی وسائل محدود تھے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ وہ ہم سے آگے نکل گئے اور ہم آج بھی زوال کا شکار ہیں۔
اس کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ ہے کرپٹ نظامِ انتخاب اور جعلی ڈگریوں والے نام نہاد عوامی نمائندے۔ پاکستان میں رائج موجودہ نظامِ انتخا بات کسی بھی طور اسلام کے دیئے ہوئے تصورات کے مطابق نہیں اور نہ ہی یہ عوام کی حقیقی نمائندگی و حقیقی جمہوریت کی عکاسی کر تا ہے بلکہ یہ تو بدمعاشوں’ چوروں’ لوٹیروں’ وڈیروں’ کا نظام ہے جو مل بیٹھ کے کھانے کو”مفاہمت” کا نام دیتے ہیںاور اپنی اپنی باری پر خوب سیر ہو کر کھاتے ہیں۔
الیکشن کے قریب آتے ہی ہر امیدوارفریب کا لبادہ او ڑھے ہوئے جھوٹے ہتھکنڈے استعمال کر تے’ جھوٹی تشہیر کر تے اور زور و شو ر سے نعر ے لگاتے ہوئے حریف کے مقابل زیادہ ووٹ حاصل کر نے کے لیے عوام کو بے وقوف بناتا ہے۔ اور اس کے لیے بھاری رقم خرچ کرتا ہے اورجو سب سے اونچا دائو لگا کر یہ کھیل کھیلتاہے وہ کامیا ب ہو جا تا ہے۔موجودہ حکو مت کوئی جمہوری حکو مت نہیں بلکہ اقلیتی حکومت ہے۔ امیدوار کل رجسٹرڈ ووٹوںکا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو جا تا ہے جیسا کہ اگر پاکستان کے 1970,1977,1985,1988,1990,1997,2002,2008 کا جائزہ لیں تو یہ با ت سامنے آتی ہے۔
امیدوار صرف چند ووٹوں کی اکژیت سے کامیاب ہوئے اور پورے حلقے کے نمائندے قرار دے دئیے گئے ۔ 1970 میں اقتدار میں آنے والی جماعت کو صر ف38.9 فیصد ووٹوں کی تائید حاصل تھی۔ 1988 کے انتحابات میں پیپلز پارٹی نے 37.63 فیصد ووٹ حاصل کر کے 45 نشستیں حاصل کیںجبکہ اسلامی جمہوریہ اتحاد نے 29.56فیصد حاصل کر کے 28نشستیں حاصل کیں۔1990کے انتحابات میں اسلامی جمہوریہ اتحاد کو 37.37فیصد ووٹ ملے اور 106نشستیں ملیں جبکہ پی ڈی ای کو 36.65 ووٹ ملے اور 44 نشستیں ملیں۔ایک اعدادو شمار کے مطابق واضح ہوتا ہے۔
Election Pakistan
انتہائی کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعت نے حکومت قائم کر لی تھی۔ ایسا نظامِ انتحابات سراسر غیر موئثر ہے جہاں نہ تو کوئی رکن اور نہ ہی کو ئی حکو مت عوام کی اکژیت سے آگے آتی ہے۔ ایسا نظامِ انتحابات صرف سرما یہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کر تا ہے اورصر ف وہ ہی منتخب ہو سکتے ہیں کیو نکہ مو جو دہ نظامِ انتحابات کے تحت کسی امیدوار کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے 10 سے 20 کروڑ جبکہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے 10سے 15کروڑ روپے در کا ر ہیں۔اس ملک کی 98% فیصد عوام محنت کش ہے۔
پڑھے لکھے اور شعور رکھنے والے ان حالات میں آگے نہیں آسکتے اور اس صورت میں پھر عوام کی تقدیر کا فیصلہ وہ 2% لو گ کر تے ہیں جنہیں غریب کے مسائل اور اس کی تکالیف سے کو ئی سروکار نہیں ہوتا۔ اراکینِ پارلیمنٹ میں سے 90%ایسے ہیں جنہوں نے آج تک اپنا مائیک آن نہیں کیا بلکہ اب تو میڈیا بھی یہ دکھا چکا ہے کہ کیسے اکژاراکان دورانِ اجلاس بھی نیند کے مزے لے رہے ہو تے ہیں ۔ ایسے لو گو ں سے بہتری کی امید کہا ں کی جا سکتی ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کی تقدیر کا اختیار غیر ملکی قووتوںکو دے دیا گیا ہے۔آئے دن کوئی نہ کوئی اہل کار ایسا کارنامہ سر انجام ضرور دے دیتا ہے کہ اسے نااہل قرار دے دیا جاتاہے مگر اس کے باوجود در حقیقت وہ نااہل نہیں ہوتے ایسا توبچاری عوام کوتسلی دینے کے لیے د کھاوے کوکیا جاتا ہے۔ کرپشن کی بدولت پاکستان پر موجودہ قرض 130 ارب ڈالر ہو گیاہے ،مہنگائی کئی سو گنا بڑھ گئی ہے ، لوگ مر رہے ہیں، کراچی کوئٹہ کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بادامی باغ ، عباس ٹائون والاواقعہ سامنے ہے۔لوگ بجلی ،سوئی گیس اور پانی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ۔ہر طرف عجیب افراتفری ہے پتہ نہیں حکومت کن مفادات پر قائم کی گئی ہے۔
ایک صوبے تک میں تو امن و سکون قائم نہیں کر سکے پوراملک کیا سنبھالیں گے یہ لوگ۔STAP کے مطابق 2012میں امریکا نے پاکستان پرآٹھ drone attacks کیے جس میں68لوگ مارے گئے۔اور2012ہی میں 36خودکش حملے ہوئے جس میں 306لوگ مارے اور 559زخمی ہوئے۔اب اس ساری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ بات مانناکہ حکومت کو عوام کا خیال ہے یا وہ اپنے فرائض سے آگاہ ہے تو یہ عقل سے بالاتر بات ہو گی۔ ہمارے ملک کی پارلیمینٹ پر اٹھنے والے اربوں کے اخراجات غیر معمولی ہیں مگر ان سے غریب عوام کو کیا فائدہ ہوا۔
Asif Ali Zardari
ہارس ٹریڈنگ، رشوت، غبن لوٹ مار، خیانت اور ناجائز طریقوں پر کڑوڑوںاربوں روپے کے قرضے لینا اور دھوکہ دہی سے ان قرضوں کو معاف کروانا ان اراکین کا معمول رہاہے۔اسی طرح عوام کی خدمت کی خاطر کروڑوں روپے کے منصوبے منظور کروائے گئے اور انھیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا۔ ملک کے تمام سنگین مسائل کی جڑ کرپٹ نظامِ انتخاب ہے ۔ ہمارا مو جوہ اجارہ دارانہ نظا م ِ انتخاب (monoploisticelectoral sysetem) ہے جسے (democratic government) کا نا م دے د یا جا تا ہے۔اس کرپٹ نظامِ انتخاب نے قو م کو اس کی حقیقی نمائندگی سے محروم کر دیا ہے اور عوام کے 98%فیصد غریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہونا عملاََ نا ممکن ہو چکا ہے۔
اگر 1934کے زمانے کا مطالعہ کریں جب سندھ ممبئی کا حصہ تھاتو جو لوگ اس ممبئی کی حکومت کے وزیر تھے سندھ کی سیاست تب سے آج تک اسی لائن پر چل رہی ہے انہی خاندانوں کی اجارہ داری رہی اور انہی کو منتقل ہوئی ۔یہی حال بہاول پور ، بلوچستان اور دیگر حلقہ جات کا ہے ۔ ہر دفعہ الیکشن ہوتے رہے،حکومتیں بدلتی رہیں،مگر اسمبلیاں اور اقتداران خاندانوں سے باہر نہیں گیا۔ یہاں جمہوریت صرف ایک سلوگن ہے۔اس ملک میں کتنے حکمران احتساب کے نا م پر بھی آئے ، اسلام کے نام پر بھی آئے، good governance کے نام پر بھی آئے، جمہوریت کے نام پر بھی آئے مگر کیا کوئی تبدیلی آئی۔
کو ئی جمہوریت آئی؟ اجارہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہوا؟ عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کی گئیں؟ ہر گز نہیں ۔ بلکہ سب عوام کو جموریت کے نام پر فریب دے کر چلتے بنے۔ کروڑوں روپے لگا کر اقتدار میں آنے والاعوا م کا ، محنت کشوں کا،کسانوں کا، تاجروں کا،اس ملک کا نمائندہ ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ وہ تو صرف اپنے ذاتی مفادات کا نمائندہ ہو گا۔آج کی پارلیمنٹ سے ذرا کوئی پوچھے تو سہی کہ ان پانچ سالو ں میں انھوں نے اس قوم کو دیا کیا ہے ؟ 18 کروڑعوام کو بجلی نہیں مل رہی، پانی نہیں مل رہا، آٹانہیں مل رہا، کھانا نہیں مل رہا، گیس نہیں مل رہی،روزگار نہیں مل رہا، لوگوں کی جان ومال کا کوئی تحفظ نہیں ہے ۔تو پھر عوام کو اس legislationنے کیا دیا ہے۔
متذکرہ بالا تمام مسائل کی جڑ کرپٹ نظامِ انتخاب ہے جب تک اس سے قوم کی جان نہیں چھوٹ جاتی ان مسائل سے چھٹکارا ملنا بھی نا ممکن ہے۔ ذرا سو چئیے! کیا ہم ترقی یافتہ قوموں کے درمیان ایسے ہی ایک ناکام ریاست کے طور پر تسلیم کیے جاتے رہیں گے؟ کیا ہم ہمیشہ ایسے ہی مہنگائی، گیس، بجلی،معاشی،سماجی،سیاسی،مذہبی، قانونی اورتعلیمی طور پر پسماندہ ہی رہیں گے؟؟ اگر ہم ایسا نہیں چاہتے توپھر یہ وہ وقت ہے کہ جہاں ہمیں “لوگوں”سے “قوم”بنناہے اور اپنے حقو ق کے لیے آواز بلند کرنی ہے تب ہی ممکن ہے۔
کوئی حقیقی تبدیلی آسکے اور ہمارا شماربھی ترقی یافتہ اور خو شحال اقوام میں شمار ہونے لگے۔ورنہ تو پھر یہ تمام مسائل ہماری آنے والی نسلوں تک بھی جوں کے توں ہی رہیں گے اور ہمیشہ کی طرح اس کی زد میں کوئی اور نہیں بلکہ عوام ہی آئے گی۔