جمہوریت کی کامیابی اور ہمارا مستقبل

National Assembly

National Assembly

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی نے اپنی مدت مکمل کی ہے، 2008 ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والی قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں نے پانچ سال پورے کرکے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے سب سے اجھی بات یہ ہے کہ پاکستان مین جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چل پڑی ہے۔ میں اکثر اپنے آرٹیکل میں ذکر کرتا رہتا ہوں کہ جمہوریت کے تسلسل سے ہی انشاء اللہ آہستہ آہستہ بہت سی چیزیں خودبخود ٹھیک ہوجائیں گیں۔ اس سے قبل جتنی بھی اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں ان کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے سے پہلے ہی چلتا کیا جاتا رہا۔

جس کے باعث پاکستان میں جمہوریت صحیح طرح سے پنپ نہیں پائی۔ اس کی ذمہ دار سول اور فوجی دونوں حکومتیں ہیں۔ جنہوں نے اقتدار کی لالچ میں بار بار جمہوریت کا گلا گھونٹا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں جمہوری رویئے فروغ نہ پاسکے۔ اب سیاستدانوں نے ماضی سے کافی سبق سیکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جس نے قومی اسمبلی میں اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ماضی کے برعکس اس بار انھوں نے حکومت کو مکمل سپورٹ کیا جس کیلئے انہیں فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سننے پڑے۔

بہرحال پاکستان میں پہلی بار کسی اسمبلی کا اپنی آئینی مدت پوری کرنا یقینا ایک قابل فخر کارنامہ ہے جس سے ایک نئے پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ قارئین 2008 کی اسمبلی نے 16 مارچ 2013 کو اپنی مدت پوری کی۔ یہ وہ دن تھا جب 16 مارچ 2009 ء کو معزول جج بحال ہوئے۔ 2009 ء میں ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی چاہتے تو حکومت پر قبضہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے جنرل ایوب، یحیٰ، ضیا اور مشرف کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا.

اس پر ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے ان کے ساتھ چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے کئی موقعوں پر جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح میاں نواز شریف کو کئی مرتبہ موقع ملا کہ وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آئیں لیکن انہوں نے ججوں کی بحالی کے سوا کس دوسرے موقع پر لانگ مارچ نہیں کیا۔ جس پر وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسمبلی اور حکومت کی مدت کا پورا ہونا جمہوریت کی کامیابی ہے۔

قارئین، اتحادی حکومت کے پچھلے پانچ سالہ دور میں امن و امان کی صورتحال سنگین ترین سطح پر پہنچ گئی، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب کہیں دھماکہ نہ ہوا ہو اس عرصے کے دوران یونیورسٹیوںسکولوں مدرسوں عبادت گاہوں ایئرپورٹس درباروں حساس اداروں کے دفاتر میں دھماکے ہوئے ایک گورنر اور وزیر کو وفاقی دارالحکومت کے اندر مارد یا گیا اسی طرح کراچی جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے میں لگ بھگ 10 ہزار افراد دہشت گردی فرقہ واریت اور سیاسی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ گئے اسی طرح صوبہ بلوچستان تو نو گو ایریا بنارہا جہاں کے وزیراعلی نے اکثر وقت اسلام آباد میں گزارا۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

ان کو پانچ سال پورے ہونے سے محض ڈھائی ماہ قبل گھر بھیج کر بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ بلوچوں کی تحریک جو کہ مشرف دور میں نواب اکبر بگٹی کے قبل کے بعد شدید ہوگئی تھی وہ جوں کی توں رہی اور اس کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حالات انتہائی کشیدہ رہے، بلوچستان میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر رہے خاص کر ہزارہ برادری کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا جس میں علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن دھماکے سرفہرست ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی اتحادی حکومت تھی لیکن دھماکوں کو روکنے کی کوئی واضح پلاننگ نہیں کی گئی۔

معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت نے بھی قربانیاں دیں، وزیرستان میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں تھی، ڈرون حملے معمول کے مطابق ہوتے رہے، جس سے زیادہ تر معصوم شہری نشانہ بنے، سوات اور وزیرستان میں کامیاب فوجی آپریشن ہوئے جس سے یہاں کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ۔پنجاب میں بھی باقی صوبوں کی طرح حالات کشیدہ رہے مگر کم ۔ مارچ 2009 ء میں لبرٹی میں سری لنکن ٹیم پر حملہ ہوا جس میں 6 سری لنکن کھلاڑی دو سٹاف اہلکار اور ایک غیرملکی امپائر زخمی اور کئی پولیس اہلکار مارے گئے.

اس واقعہ کو چار سال گزرنے کے باوجود آج تک کوئی غیرملکی ٹیم پاکستانی سرزمین پر آنے کے لیے تیار نہیں، دوسرے صوبوں کی طرح یہاں بھی اقلیتیں محفوظ نہیں رہیں، گوجرہ جوزف کالونی اور قادیانیوں پر یہاں حملے ہوئے، اسی طرح 2011 میں بھی ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ لاہور میں ہوا جس میں امریکی اہلکار نے معصوم شہریوں کو گاڑی کے نیچے کچل دیا ۔حکومت کے پانچ سالوں میں ہندو کمیونٹی بھی غیرمحفوظ رہی، خاص کر سندھ سے سیکڑوں خاندان ہجرت کرکے بھارت چلے گئے گویا پورے پانچ برس یوں محسوس ہوتاتھا جیسے حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے.

امن و امان کی صورت حال ہو یا مہنگائی حکومت کسی بھی معاملے پر قابو پانے میں ناکام رہی، قارئیں پانچ سال مکمل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومت پر زیادہ تر الزامات کرپشن کے لگے یہاں تک کہ چیئرمین نیب کو خود یہ کہنا پڑا کہ 4000ارب روپے سالانہ کی کرپشن ہوئی ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کے دوران قومی خزانے کو 18000 ارب روپے کا نقصان پہنچا، جبکہ 2012 میں پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں ترقی کرتا ہوں 47 ویں نمبر سے 35 ویں نمبر پر آگیا.

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کی 65 سال کی مختصر تاریخ میں کارکردگی اور کرپشن کے حوالے سے موجودہ حکومت بدترین کرپشن کے باوجود نیب اور ایف آئی اے نے پانچ سالوں میں کسی ایک کیس پر درست سمت میں کاروائی نہیں کی۔ مقدس فریضہ حج کی ادائیگی کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے سابق وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو جیل جانا پڑا، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں پر کرپشن کے مقدمات بنے ، اور ان کے پورے خاندان کے حوالے سے طرح طرح کی کہانیاں منظر عام پر آئیں ، سٹیل مل، نیٹو کنٹینر کا غبن، رینٹل پاور ایفی ڈرین کوٹہ کیس پی آئی اے اور ریلوے کی تباہی واضح کرتی ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں حکومتی کارکردگی کیسی رہی، یہی نہیں چیئرمین اوگرا پر 82 ارب غبن کا الزام ہے.

People Party

People Party

پاکستان پیپلز پارٹی کے بزرگ رہنما مخدوم امین فہیم کے اکاؤنٹ میں الزامات لگنے کے بعد خودبخود ہی غائبی طریقہ سے کروڑوں روپے واپس آگئے ان سارے الزامات پر کرپشن کے راجہ خاموش ہیں جبکہ جاتے جاتے ہزاروں بے روزگار وں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے نوکریاں بیچ کر روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو حقیقت کا روپ دینے کی سعی کی گئی اور حکومت کے خاتمے کے آخری دو دنوں میں جس طرح ترقیاں تبادلے تقرریاں اور غیر قانونی کام ہوئے۔ جس طرح وزیر بلدیات سندھ آغا سراج درانی نے اپنے منظور نظر افراد کی بھرتی کے لئے سیکرٹری بلدیات سندھ کی سرعام پٹائی کی یہ تمام چیزیں ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

اسلام آباد میں چیئرمین سی ڈی اے کو جس طرح آخری روز غیر قانونی احکامات نہ ماننے پر برطرف کیا گیا اور سپریم کورٹ نے ایکشن لیا امید ہے سیکرٹری بلدیات سندھ کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس کا بھی ایکشن لیا جائے گا تانکہ دوبارہ کسی کو ایسا غیر قانونی کام کرنے کی جرأت نہ ہو۔ پانچ سال مکمل ہوئے اب احتساب کے لیے حکومت عوام کے سامنے ہے۔ اب وقت آگیا ہے.

ہم صحیح فیصلہ کریں یہاں سے ہی عوام کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ اگر عوام نے 2013 کے عام انتخابات میں بھی بالغ نظری کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر ان کی زندگیوں میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آئیں گے اگر عوام واقعی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں خود کو بدلنا ہوگا اور سیاسی شعبدہ بازوں کا بائیکاٹ کرکے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرنا ہوگا، یہیں سے پاکستان کے بدلنے کا آغاز ہوگا۔
تحریر : این این اے