جوں جوں عام انتخابات قریب ہوتے جا رہے ہیں ملک بھر کی طرح ضلع مانسہرہ میں بھی سیاسی پہلوانوں نے دنگل میں اُترنے کیلئے لنگوٹ کَس لیے ہیں اور اپنے مخالف اُمیدوار کو ہرانے کیلئے مختلف دائو پیچ آزمانے پر غور کر رہے ہیں۔ مانسہرہ کی قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چھ نشستوں پر اُمیدواروں کی جانب سے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ کے حصول کیلئے مخصوص لابنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے اور حال ہی میں اسمبلیوں سے ریٹائر ہونے والے اراکین بھی دوبارہ عوام کی خدمت کیلئے تیار نظر آ رہے ہیں۔
تاہم عوام انہیں دوبارہ خدمت کا موقع دیتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو الیکشن کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ 2008ء کے انتخابات میں مانسہرہ کی دو قومی نشستوں این اے 20 سے قاف لیگ کے سردار شاہجہان یوسف اور این اے 21سے مسلم لیگ (ن) کے فیض محمد خان (مرحوم) منتخب ہوئے مگر فیض محمد خان کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں یہ سیٹ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے لائق محمد خان کے پاس چلی گئی تھی ۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی چھ نشستوں پر محمد شجاع خان، احمد حسین شاہ، مفتی کفایت اللہ، وجیہہ الزمان خان، حبیب الرحمن تنولی اور نمروز خان کامیاب قرارپائے۔
مانسہرہ کی علاقائی سیاست پر مجھے بہت کم ہی لکھنے کا موقع ملا ہے اور میری قلم کا زیادہ تر موضوع قومی اور بین الاقوامی سیاست ہی رہی ہے۔ این اے 20میرا آبائی حلقہ ہے گو کہ میں مہینوں بعد ہی اپنے علاقے میں جاتا ہوں مگر یہاں کی سیاسی صورتحال سے بہرحال واقف ہوں۔ پرانی حلقہ بندیوں میں ضلع مانسہرہ قومی اسمبلی کی تین نشستوں این ے 14، این اے 15اور این اے 16پر مشتمل تھا، جبکہ نئی حلقہ بندیوں میں اسے این اے 20اور این اے 21 میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ 1972ء کے الیکشن میں یہ علاقہ ضلع ہزارہ کا حصہ تھا۔
اُس وقت ہزارہ کے انتخابی حلقوں این اے 14سے مولانا صدر الدین (جے یو آئی)، این اے 15سے جعفر علی شاہ (مسلم لیگ قیوم) اور این اے 16سے رحیم شاہ( مسلم لیگ قیوم) کا انتخاب عمل میں آیا۔ 1977ء میں این اے 14سے گوہر ایوب خان (پی این اے)، این اے 15سے محمد حنیف خان (پی پی پی) اور این اے 16سے فخر الزمان خان (پی این اے) الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ 1985ء میں بھی این اے 14 سے گوہر ایوب، این اے 15سے الحاج سید قاسم شاہ اور این اے 16سے نوابزادہ صلاح الدین سعید کو کامیابی ملی۔
Elections Pakistan
198میں این اے 14سے سید قاسم شاہ (آزاد) ، این اے 15سے نوابزادہ صلاح الدین سعید (آزاد) اور این اے 16سے حاجی محمد ایوب خان (آئی جے آئی) کا انتخاب عمل میں آیا۔ 1990ء میں این اے 14سے سردار محمد یوسف (آزاد)، این اے 15سے نوابزادہ صلاح الدین سعید (آئی جے آئی) اور این اے 16سے عالم زیب خان (جے یو آئی) کامیاب قرار پائے۔ 1993ء میں بھی این اے 14سے سردار محمد یوسف (نواز لیگ)، این اے 15سے نوابزادہ صلاح الدین سعید (نواز لیگ) اوراین اے 16سے حاجی محمد ایوب خان (نواز لیگ) کو کامیابی نصیب ہوئی۔
1997ء میں این اے 14سے دوبارہ سردار محمد یوسف (نواز لیگ)، این اے 15سے نوابزادہ صلاح الدین سعید (نواز لیگ) اور این اے 16سے محمد نواز خان آلائی (نواز لیگ) منتخب ہوئے۔ اسی طرح سنہ 2002ء کے الیکشن میں مانسہرہ کی چھ صوبائی نشستوں PF-53 سے محمد شجاع خان، PF-54 سے مظہر علی قاسم، PF-55 سے محمد گستاسپ خان، PF-56 سے وجیہہ الزمان خان، PF-57 سے غزالہ حبیب اور PF-58 سے زرگل خان کو کامیابی نصیب ہوئی۔
آئندہ آنے والے الیکشن میں این اے 20میں سردار محمد یوسف اور اعظم خان سواتی کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے، جبکہ حلقہ این اے 21میں متوقع اُمیدواروں لائق محمد خان، نوابزادہ صلاح الدین، زرگل خان اور کیپٹن (ر) صفدر کے درمیان پڑائو ہو سکتا ہے۔ سردار محمد یوسف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کی حیثیت سے 1979ء میں کیا۔ اس کے بعد وہ دو بار ممبر صوبائی اسمبلی اور پھر تین بار ممبر قومی اسمبلی بنے۔ بعد میں جیسے ہی مشرف حکومت نے اراکین اسمبلی کیلئے گریجویشن کی شرط رکھی تو سردار یوسف نے اپنے بیٹے شاہجہان یوسف کو میدان میں اُتار دیا اور خود بعد میں ضلع ناظم بن گئے۔
ان کے مدمقابل اعظم خان سواتی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1997ء میں این اے 21کا الیکشن لڑ کر کیا مگر وہ نوابزادہ صلاح الدین سعید سے ہار گئے۔ اعظم خان سواتی کی شہرت اُس وقت عام ہوئی جب وہ 2001ء میں مانسہرہ کے نامی گرامی سیاسی پنڈتوں کو شکست دے کر واضح اکثریت سے ضلع ناظم بنے مگر پھر جلد ہی یہ نشست چھوڑ کر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ٹکٹ پر سینیٹر اور وفاقی وزیر بن گئے۔ اب وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حلقہ این اے 20سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔
Muslim League N
اس میں شبہ نہیں کہ این اے 20میں اعظم سواتی کا پڑائو سردار یوسف گروپ کیلئے پریشان کن تھا اور سردار یوسف کیلئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) یا جمعیت علمائے اسلام میں سے کسی ایک پارٹی میں چلے جائیں۔ آخری وقت میں سردار یوسف نے جمعیت علمائے اسلام کے بجائے نواز لیگ کا انتخاب کیا اور اب اُن کی جگہ قاف لیگ کی طرف سے سید قاسم شاہ کے سامنے آنے کا امکان ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اعظم سواتی نے سردار محمد یوسف کو جس بندگلی میں پہنچا دیا تھا اب معاملہ کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے البتہ پھر بھی دونوں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
اگر سردار محمد یوسف نون لیگ میں شامل نہ ہوتے تو پھر ن لیگ کا ٹکٹ صلاح الدین ترمذی کو ملنے کا امکان تھا۔ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی اگر تحریک انصاف میں چلے جاتے ہیں اور سید قاسم شاہ بھی اعظم خان کے حق میں الیکشن سے دستبردار ہو جاتے ہیں تو پھر سردار یوسف دوبارہ مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔ ایک حالیہ جائزہ رپورٹ میں پاکستان تحریک انصاف نے خیبرپختونخواہ کی جن چھتیس میں سے بائیس سیٹوں پر مضبوط اُمیدوار ہونے کا دعویٰ کیا ہے اُن میں حلقہ این اے 20سے اعظم خان سواتی بھی شامل ہیں۔ این اے 21میں کانٹے دار مقابلے کیلئے تحریک انصاف کی یقینا یہ کوشش ہو گی کہ وہ نوابزادہ صلاح الدین سعید جیسی نامی گرامی شخصیت کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے اور اگر وہ اس جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں تو پھر مانسہرہ میں تحریک انصاف ایک بڑی قوت بن جائے گی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور نواز لیگ کے درمیان خیبرپختونخواہ میںسیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات چیت ہو رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا جو فارمولہ طے پانے کا امکان ہے اُس کے تحت جو سیٹ گزشتہ الیکشن میں جس جماعت نے جیتی تھی وہ اسی کو دی جائے گی اور جن سیٹوں پر ان دونوں جماعتوں میں سے جو پارٹی بھی دوسرے نمبر پر رہی وہ سیٹ بھی اسی پارٹی کو دی جائے گی۔ اس طرح این اے 20نون لیگ اور این اے 21جے یو آئی کے حصہ میں آئے گی۔
صوبائی سیٹوں میں سے بھی تین جے یو آئی اور تین نون لیگ کے حصے میں آ سکتی ہیں۔اگر دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر سردار محمد یوسف کو ہرانے کیلئے جمعیت علمائے اسلام، قاف لیگ اور پی پی کے درمیان اتحاد کا امکان نظر آتا ہے۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام حلقہ این اے بیس پر غلام نبی شاہ یا قاسم شاہ کے ناموں پر قاف لیگ سے مشاورت کر رہی ہے اور سردار یوسف کو شکست دینے کیلئے صوبائی سیٹوں پر پی پی سے بھی اتحاد مانگ رہی ہے۔سردار یوسف ضلع مانسہرہ کی سیاست کا ایک اہم محور ہیں۔ اُن کی نون لیگ میں شمولیت سے مانسہرہ کی سیاسی صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے اور ووٹر پریشان ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں کس اُمیدوار کو ووٹ دیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سردار محمد یوسف نے ن لیگ میں شامل ہو کر بہت بڑی سیاسی غلطی کر دی ہے۔ اس طرح نہ صرف اُن کے قریبی دوست راہیں جدا کر سکتے ہیں بلکہ اُن کے ووٹ بینک میں بھی کمی آ سکتی ہے۔ اگر وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے تو یقینا قاف لیگ اور جمعیت دونوں کی حمایت اُنہیں مل سکتی تھی اور اُن پر صوبہ ہزارہ کی تحریک سے غداری کا الزام بھی نہ لگتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ سردار محمد یوسف کا اپنی برادری میں کافی اثرورسوخ ہے اور اگر کوئی گجر برادری سے اُن کے مقابلے میں الیکشن لڑے تو وہ اُسے اپنے حق میں دستبردار کرا دیتے ہیں۔
سردار محمد یوسف کی کامیاب سیاست کا محور بھی یہی ہے کہ اگر وہ قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہیں تو صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ایسے اُمیدواروں کی حمایت کرتے ہیں جن کا تعلق گجر برادری سے نہ ہو، تاکہ وہ غیر برادری کے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ضلع مانسہرہ میں قومی اسمبلی کے دونوں انتخابی حلقوں میں فی الحال این اے بیس سے سردار محمد یوسف اور اعظم خان سواتی، جبکہ این اے اکیس سے لائق محمد خان، نوابزادہ صلاح الدین اور زرگل خان کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ اگرجمعیت علمائے اسلام اور نون لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق نہیں ہوتا تو پھر کیپٹن (ر) صفدر بھی این اے 21سے میدان میں کود سکتے ہیں۔ ان دونوں حلقوں میں جیت کس اُمیدوار کی ہوگی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔