پاک مصر دوستی انقلاب کی آہٹ

Chaos

Chaos

مصر کے صد محمد مرسی کا دورۂ پاکستان اختتام پذیر ہو گیا ہے مگر ان کا یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ محمد مرسی ایک اعتدال پسند اسلامی قائد کے طور پر مانے جاتے ہیں۔حالانکہ ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد مصر میں تھوڑا بہت ہنگامہ ضرور ہوا تھا اور وہاں کے عوام نے مرسی کے خلاف آوازیں بھی بلند کی تھیں لیکن ان کی دانشمندی سے مصر کے عوام نے انہیں ایک باصلاحیت اور دانشمند قائد کی حیثیت سے نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ ان کے اقدامات کو بھی کافی سراہا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ محمد مرسی سے قبل مصر کے عوام حسنی مبارک کی بدعنوان حکومت کے جال میں لگ بھگ بتیس سال تک محصور رہے۔ حسنی مبارک کا شمار اسرائیل اور امریکہ کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا اور اس نے مصر میں وہی کچھ کیا جو اسرائیل اور امریکہ کی مرضی کے ہوتے تھے ایسے میں مصر کے عوام کسی دوسرے لیڈر پر اتنی جلدی اعتماد کیسے کر سکتے تھے۔

لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ محمد مرسی اپنے عوام کویہ سمجھانے میں کافی حد تک کامیاب رہے کہ ہم مصر میں جمہوری نظام حکومت قائم کریں گے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے ہیں مصر کے حالات نہایت اچھے ہو گئے ہیںاور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں مصر عرب دنیا کا ایک پائیدار ملک بن جائے گا۔ لہٰذا محمد مرسی کا دورۂ پاکستان کافی اہمیت کا حامل ہے۔

صدر مرسی نے اپنے ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے اور دیگر ملکوں کے ساتھ روابط کو مستحکم کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں اس کوشش کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے انہوں نے پہلے پاکستان کا دورہ کیا اس کے بعد موصوف ہندوستان بھی گئے۔ پاکستان کے دورے کے دوران انہوں نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور کئی معاہدے پر دستخط بھی کئے جو دونوں ملکوں کے لئے نیک شگون ہے۔ مصر کی معاشی کیفیت اور وہاں کی اٹھنے والی تحریک نے ہی عالم اسلام کو ایک نئی سمت اور جہت عطا کی ہے۔

صدر حسنی مبارک کی معزولی کے بعد مصر کو کئی سیاسی اور مقامی مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن جمہوری طرز کی حکمرانی اور انتخابات میں اسلام پسندوں کی شاندار کامیابی کے بعد اس کے گروپ کے نمائندے محمد مرسی نے مصر کو پُر امن بنانے کی جانب پیش قدمی کی۔ پاکستان اور مصر کے تعلقات سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ دونوں ملک اسلامی ہونے کی حیثیت سے مسلم امہ کو درپیش مسائل اور مشکلات کے حل میں ایک دوسرے کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

محمد مرسی کے دورے کا مقصد نمایاں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ایک مسلم امہ کی قربت کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ مصر میں بھی ترقی کے لئے پاکستان سمیت ہندوستان کو بھی شریک ہونے کی دعوت دینا چاہتے ہیں تاکہ یہ تمام مل کر ترقیاتی اور دوسرے اقدامات سے استفادہ کرتے ہوئے مصر کی ترقی میں بھی نمایاں کارہائے انجام دیا جا سکے۔ انہوں نے پاکستان میں مسلم امہ کے متعلق ایک بات خوب کہی کہ مشترکہ حکمتِ عملی کے بغیر کوئی بھی ملک مکمل ترقی حاصل نہیں کر سکتا ۔ محمد مرسی نے شام کی صورتحال پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

بات دراصل یہ ہے کہ مصر کے عوام حسنی مبارک سے عاجز آچکے تھے اور ایک طویل جد و جہد کے بعد مصر کے عوام کو اطمینان و سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ مصر کو محمد مرسی جیسا قائد نصیب ہوا جو اسلامی قوانین کے ساتھ ساتھ جمہوری قدروں کا حامل بھی ہے اور یقینا محمد مرسی مصر کو بہت جلد دنیا کا ایک درخشندہ اور نمایاں ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مصر کا یہ انقلاب ایک جدید انقلاب ہے جو پوری دنیا کے لئے ایک بہترین نمونہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یقینا محمد مرسی پاکستان اور مصر کے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط ترین کرتے ہئوے تمام عرب ممالک کو ایک جگہ جمع کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

حالانکہ امریکہ کو پاکستان اور مصر کے یہ رشتے اچھے نہیں لگے ہوں گے لیکن اس وقت دونوں خاموش ہیںکیونکہ دنیا بھر میں آج کل جو دہشت گردی اور انارکی پھیلی ہوئی ہے وہ اسی ملک کی دین ہے۔ افغانستان ، عراق، لیبیا جیسے ممالک کو بہانہ بنا کر تباہ و برباد کر دیا گیا۔ ہزاروں انسانوں کی جانوں کا اتلاف بھی کیا گیا۔ مصر میں بھی اگر حسنی مبارک کچھ دن اور رُک جاتے تو شاید وہاں بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہوتا۔ لیکن عوامی بغاوت نے حسنی مبارک کو بھاگنے پر مجبور کر دیا اور انتخابات کے بعد محمد مرسی مصر کے نئے صدر منتخب ہوگئے جو کم از کم امریکہ اور اسرائیل نواز معلوم نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر مرسی نے پاکستان اور دیگر ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانا شروع کر دیا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے ساتھ مصر کے تعلقات مشترکہ مذہبی اور ثقافتی اقدار پر مبنی ہیں۔ مصر کو اسلامی ملکوں میں اس لئے بھی اہمیت حاصل رہی ہے کیونکہ یہ اسلامی تاریخ کا اہم مرکز رہا ہے۔ اب یہاں جمہوری طرز کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے سب ہی اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔ اسی طرح صدر مصر کا دورۂ پاکستان بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے پاکستانی قیادت سے اپنی ملاقات اور مختلف شعبوں میں معاہدات پر دستخط کرکے مصر کی معاشی ترقی میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔

Egypt

Egypt

پاکستان ان تمام معاہدات کو تاریخی نوعیت کی حامل تصور کرتا ہے۔ پاکستانی جمہوریت کے دیرینہ تجربات کی روشنی میں اپنے قدیم ساتھی ملک مصر کی نو خیز جمہوریت اور اس کی ترقی میں ہر ممکنہ مدد کرنے کی جانب قدم اٹھاتا ہے تو یہ خوش آئند علامت ہوگی جیسا کہ صدر مصر کی خواہش ہے کہ وہ سیاسی، معاشی اور فوجی شعبوں میں اپنے ملک کے تعاون کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں تو پاکستان کو بھی اس جانب اسٹراٹیجک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مصر میں پاکستان کے لئے سرمایہ کاری کے کئی مواقع ہونے کا نوارد سنانے والے محمد مرسی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کے لئے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔

یہ معاہدے بلاشبہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ پاکستان نے بھی مصر کے ساتھ اپنے تعلقات کا مثبت حوالہ دیا ہے۔ پاکستان میں محمد مرسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک خاص خوشی حاصل ہوئی ہے کہ مصر کے منتخب صدر ہمارے یہاں تشریف لائے۔ ان کے اس دورے سے باہمی تعلقات اور روابط کی تجدید اور انہیں دوستانہ ماحول میں فروغ دیتے ہوئے تعاون و اشتراک کے ایک اعلیٰ اور بلند سطح پر لے جانے کی ضرورت پر زور بھی دیا گیا۔

اب صدر محمد مرسی کو چاہیئے کہ وہ اپنے ملک میں امن و امان کی برقراری اور جمہوری حکمرانی کو ایک نئی تاریخی سطح پر لے جانے کی کامیاب کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں یہ خیال رکھنا بے حد ضرور ہوگا کہ عالم اسلام میں بعض طاقتیں اپنی پسند اور اپنی مرضی کا حل چاہتے ہیں ایسے میں مصر کو اپنی تمام تر شان و شوکت اور اسلامی ثقافت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اقتصادی میدان میں ترقی کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ ویسے بھی مصر فلسطین کے مسائل کا حل چاہتا ہے اور یقینا مستقبل قریب میں ان کے مسائل کا حل بھی تلاش کیا جائے گا۔

بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان اور مصر دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں اور ان کی قربت سے انشاء اللہ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا یوں دونوں ملکوں کی دوستی ایک نئے انقلاب کی نوید ثابت ہوگی۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی