۔۔،، ۔۔ آئینی مدت ۔۔،،۔۔

National Assembly

National Assembly

فروری ٢٠٠٨ کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کر کے ١٦ مارچ کو تحلیل ہو چکی ہے ۔ پانچ سالہ مدت پوری کرنے پر اقتدار کے جھولے لینے والی ساری سیاسی جماعتوں ڈھول ڈھمکوں کی فلک شگاف صدائوں میں اعلان فرما رہی ہیں کہ موجودہ اسمبلی کے آئینی مدت پوری کرنے سے پاکستان میں جمہوریت فتح یاب ہو گئی ہے اور مہم جو قوتوں کو شکستِ فاش ہو گئی ہے اور ہر کوئی اس فتح کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے لئے بیتاب ہے۔ پاکستان میں کسی بھی اسمبلی کا اپنی مدت پوری کرنا واقعی کسی معجزے سے کم نہیںہے کیونکہ مہم جو ہمیشہ اسے روھندنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

وفاق میں بر سرِ اقتدار ہونے کی وجہ سے پی پی پی اس فتح کا سارا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے اور پھر اپنے اسی پانچ سالہ دورِ اقتدار کو جمہوریت کی فتح سے تعبیر کر کے آنے ولے انتخابات میں قسمت آزمائی کرناچاہتی ہے ۔جمہوری ملکوں میں کسی بھی حکومت کا آئینی مدت پوری کرنا کوئی انہونی بات نہیںہوتی لیکن پاکستان میں چونکہ فوجی شب خونوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے لہذا اس طرح کے شور شرابے، دعووں اور بڑھ بازی کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے جس میں اسمبلی کا اپنی مدت پوری کرنا بھی ایک اعزاز بن جاتا ہے۔ میں تو اسے حکمرانوں کی خوش قسمتی سے ہی تعبیر کروں گا کہ انھیں اقتدار کی راہداریوں میں اپنے جو ہر دکھانے کے لئے پورے پانچ سال ملے اور وہ پاکستانی خزانوں کے وارث قرار پائے۔

جمہوریت کی فتح ہو یا نہ ہو لیکن اہلِ اقتدار طبقے کی فتح ضرور ہوئی تھی کہ انھیں عوامی مال پر پانچ سال تک اقتدار کے گھوڑے پر سواری کا مو قع میسر آیا اور اپنے ارمانوں کے کس بل نکا لنے کا نادر موقع ملا جس میں انھوں نے کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنے سارے ارمانوں کو پورا کیا اور ہوشربا کہانیوں کو جنم دیا۔ جنرل پرویز مشرف کی ٢٠٠٢ والی اسمبلی نے بھی اپنی آئینی مدت پوری کی تھی لیکن اس پر کوئی اظہارِ کیال کرنا پسند نہیں کرتا حالانکہ آج کی اسمبلی بیشتر ممبران اس اسمبلی میں بھی موجود تھے اور جنرل پرویز مشرف کے مصا حبین میں شمار ہو تے تھے۔

یہ ٢٠٠٧ کے ابتدائی دنوںکی بات ہے پی پی پی کے سینئر راہنما نوید قمر ابو ظبی تشریف لائے تو مجھے اپنے قریبی دوست نذیر احمد پہنور کے گھر ان سے ملاقات کا شرف ھاصل ہوا۔میں نے نوید قمر سے پوچھا کہ کیا یہ ایک اچھی روائت نہیں ہے کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے جو اس بات کی ضمانت ہو گی کہ اگلی اسمبلی بھی اپنی مدت پوری کرے گی؟ ۔انھوں نے میری بات سے اتفاق نہیں کیا ۔ا ن کی باتوں سے اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں کاخوف بڑا نمایاں تھا ۔اسے حسنِ اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ میں حا لات و واقعات کو جس زاویے سے دیکھ کر مستقبل کی اسمبلی کے بارے حسنِ ظن رکھ رہا تھا وہ میری سوچ کے مطابق درست نکلا اور ٢٠٠٧ کی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کر کے جمہوری قدروں کو توانا کیا جس کا کریڈٹ ہر سیاسی جماعت سمیٹنے کو بے چین ہے ۔

PPP

PPP

پی پی پی کا یہ دورِ حکومت بہت سے پہلووں سے بڑا منفرد تھا۔پہلی دفعہ پی پی پی نے صدارت اور وزارتِ عظمی پر اپنے امیدوار کامیاب کروائے اور مفاہمتی سیاست کے فلسفے پر د یانت داری سے عمل کیا۔شب خونوں کا خوف اس حکومت کے اعصاب پر ہمہ وقت سوار تھا جس کی وجہ سے اس نے بہت سی دور رس اور اہم آئینی ترامیم کیں تا کہ شب خونوں کا راستہ رو کا جا سکے لہذا پی پی پی لی کے اس دورِ حکومت کو آئینی ترامیم کا دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) مارشل لاء کا راستہ روکنے کے عزم میں باہم یکجا تھیں اور ہر صورت میں ایسی ترامیم لاناچاہتی تھیں جس سے مہم جوئی کا راستہ روکا جا سکے۔

یہ ساری ترامیم اتفاقِ رائے سے منظور ہوتی رہیں کیونکہ ملک کی دونوں بڑی جماعتیں ان ترامیم کی پشت پر کھڑی ہوتی تھیں اور فوجی جنتا کے حوالے سے تحفظات کا شکار تھیں۔یہ سچ ہے کہ فوجی جنتا نے آئین میں جا بجا پیو ند کاری کر کے آئین کا حلیہ بگاڑدیا تھا لہذا اسے درست کرنے کی ضرورت تھی جو کہ درست کیا گیا اور اس کا کریڈت ملک کی ساری سیاسی قوتوں کو جاتا ہے کیونکہ انھوں نے بھی ان آئینی ترامیم میں حکومت کا ساتھ دیا تھا اور ١٩٧٣ کے آئین کو اس کی اصلی حالت میں بحال کرنے کیلئے پی پی پی کے شانہ بشانہ کھڑی ہو ئی تھیں تاکہ جمہوریت کا پودا نشو نما پا سکے۔

لیکن سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا آ ئینی ترامیم کے بل بوتے پر انتخابات کو جیتا جا سکتا ہے ؟پی پی پی کی جمہوری حکومت کے قیام سے قبل امریکہ ا فغا نستان پر قابض ہو چکا تھا جس کے اثرات سے پی پی پی کی حکومت کا بچنا نا ممکن تھا ۔اسی ناجائز قبضے کی وجہ سے طالبان امریکی حکومت کے خلاف صف آرا تھے۔قبائی علاقے اس صف آرائی کی آماجگاہ بنے ہو ئے تھے کیونکہ جنرل پرویز مشرف اور امریکہ نے طالبان کا جینا حرام کر رکھا تھا اور ان کے لئے افغانستان کی زمین تنگ کر دی تھی لیکن طالبان نے پھر بھی ایسے نامساعد حالات میں امریکی تسلط کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ہوئی تھی اور اسے ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔

انھوں نے امریکہ کو ایک دن کے لئے بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا تھا۔اسامہ بن لادن اور ملا عمرایک ایسے رول ماڈل کی حیثیت سے ان کے سا منے تھے جھنیں اسلامی دنیا میں شدت پسندوں کی حمائت حاصل تھی۔اسا مہ بن لادن امریکہ کے لئے دردِ سر بنا ہوا تھا اور طالبان اس کے گرد جمع ہو کر ایک نئی قوت بنتے جا رہے تھے ۔اسی مزاحمتی جدو جہد سے شہ پا کر پاکستانی طالبان بھی میدان میں کود پڑے تھے اور سوات پر قبضہ کر کے پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ بن گئے تھے ۔پی پی پی کی حکومت نے فوج کے ساتھ مل کر اپریشن راِ ہِ راست کا بیڑہ اٹھایا اور سوات کو شدت پسندوں سے خالی کروا کے پاکستان کی سالمیت اور اتحاد کو یقینی بنایا۔یہ ایک مشکل اپریشن تھا لیکن پی پی پی نے یہ مشکل فیصلہ کر کے سب کے دل جیت لئے۔

پی پی پی کے اس دورِ حکومت میں بہت سے اہم فیصلے بھی کئے گئے ۔صوبائی خود مختاری اور این ایف سی ایوارڈ اس کی بہترین مثالیں ہیں جس میں اربوں روپوں کے فنڈز صوبوں کو منتقل ہوئے اور بہت سے محکمے جو پہلے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہو ا کرتے تھے صوبوںکے زیرِ انتظام آگئے تا کہ صوبے انھیں بہتر انداز میں چلا سکیں۔ اس آئینی انتظام سے وفاق کے جبر اور بے جا مداخلت کا تصور قدرے کمزور ہو گیا کیونکہ اب سب کچھ صوبوں کے ہاتھوں میں تھا اور وہ فیصلے کرنے میں مکمل طور پر آزاد تھے ۔بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت انتہا ئی غریب اور مفلوک الحال افراد کی معاشی مدد کا اہتمام کیا گیا ہے۔ وسلیلہ حق پروگرام اکے تحت کاروباری معاونت بھی یقینی بنا یا گیا تا کہ محروم اور کمزور افرادِ معاشرہ کو حکومتی معاونت سے آگے بڑھنے کے مواقع میسر آ سکیں۔

٢٠٠٨

Pakistan

Pakistan

سے لے کر ٢٠١٣ تک مفاہمتی سیاست کا جمہوری تجربہ اس لحاظ سے ہمیشہ یاد
رہے گا کہ اس دور میں حقیقی اپوزیشن کا فقدان تھا۔ملک کی ساری قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں شریکِ اقتدار تھیں اور حصولِ مفادت میں اس بری طرح سے ڈوبی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ اپوزیشن کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا کوئی جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا ۔عد لیہ نے کسی حد تک اس خلاء کو پر کرنے کی کوشش کی لیکن اپنے محدود آئینی اختیارات کی وجہ سے وہ بھی کوئی بڑا معرکہ سر نہ کرسکی ۔عوام کو جتنی توقعات آزاد عدلیہ سے تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں کیونکہ عدلیہ کی بھی اپنی مجبوریاں تھیں ۔ کرپشن کے ناسور نے جس طرح معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا وہ لوگوں کے لئے وجہِ ا ضطراب بنا ہوا تھا۔

ساری بڑی مچھلی عدالتوں سے رہا ہوتی رہیں کیونکہ ا حتسا ب کا کوئی کڑا قانون نہ ہونے کی وجہ سے عدالتیں بے بس تھیں۔ نیب نے جس طرح عدالتی احکامات سے آنکھیں پھیرے رکھیں وہ ایک علیحدہ داستان ہے ۔نیب نے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی بجائے انھیں تحفظ فراہم کیا جس سے احتساب کا پورا نظام زمین بوس ہو گیا اور کرپٹ عناصر کی چاندی ہو گئی ۔اوگرا کا چیرمین توقیر صادق ملک سے فرار ہو کر آج کل یو اے ا ی میں ہے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ توقیر صادق کو جس کا نام ای سی ایل میں تھا اسے ملک سے فرار کروانے میں کس کا ہاتھ تھا۔؟کرپشن کا الزام پی پی پی کی پیشانی کو داغ دار کئے ہوئے ہے جس کا دفاع کرنا پی پی پی کے لئے انتہائی مشکل ہو تا جا رہا ہے۔بہت سے مقدمات ابھی تک عدالتوں میں ہیں۔حج سکینڈل نے پی پی پی کی شہرت کو بری طرح سے نقصان پہنچایا۔

یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کے خلاف ایف اے ڈرین سکینڈل نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔ وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف ر ینٹل پاور سکینڈل نے پی پی پی کے دیانت داری اور شفافیت کے سارے فلسفے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ۔عدالت نے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم صا در کر کے بھو نچال پیدا کر دیا ۔ نیب کے چیرمین فصیح الدین بخاری اگر مزاحم نہ ہوتے توراجہ پرویز اشرف بھی سید یوسف رضا گیلانی کی طرح وزارتِ عظمی سے فارغ ہو گئے ہوتے۔

بہر حا ل یہ مقدمہ ابھی تک عدالت کے روبرو ہے جس کا فیصلہ بہت جلد ہو جائیگا ۔ حکومت میں تو انسان کسی نہ کسی طرح سے حالات کو قابو کر لیتا ہے لیکن حکومت سے رخصتی کے بعد کچھ بھی اس کے اختیار میں نہیں ر ہتا کیونکہ گیند دوسرں کے کورٹ میں چلی جاتی ہے ۔پی پی پی کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ یہ جماعت میڈ یا کے میدان میں بہت کمزور رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے مخالفین اسکی کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اس پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں اور اپنی اس سازش میں وہ اکثرو بیشتر کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ پی پی پی کے پاس کوئی مضبوط ٹیم نہیں ہوتی جو اس طرح کی الزام تراشیوں کا منہ توڑ جواب دے سکے۔

کر پشن کی کہانیاں جسطرح سے اس دور میں میڈیا کی زینت بنی ہیں وہ کسی سے بھی
ڈھکی چھپی نہیں ۔ان کہانیوں نے پی پی پی کی شہرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے جو انتخابات میں اس کی ہزیمت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

TARIQ BUTT

TARIQ BUTT

تحریر : طارق حسین بٹ