منشور چھوڑو ہوگو شاویز بنو

Pakistan

Pakistan

آخرکار پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال پور ے کئے اور اپنے اختتام کو پہنچی۔2009 سے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے گلے پھاڑ پھاڑ کر پیشن گوئیاں کی اور حکومت ختم ہونے کے نئے نئے ٹائم دیتے رہے ۔مگر سب نام نہاد تجزئیے اور تبصرے دھرے کے دھرے رہ گئے اور جمہوری عمل بخیروعافیت اپنی تکمیل مدت کو پہنچا یہ دور اچھا یہ برا تھا وہ ایک الگ بحث ہے اور نہ میں اس بحث میں الجھنا چاہتا ہوں۔میرا موضوع سیاسی منشور ہے۔

جو ہر الیکشن کے موقع پر تمام پارٹیاں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔میں بچپن سے تمام پارٹیوں کے منشور ضرور پڑھا کرتا تھا اور ہر امیدوار کے الیکشن آفس میں جاتا اور وہاں سے اُن کا منشور لے آتا اور پھر بار بار پڑھتا اِسے میرا شوق کہیے یا پھر میرے اندر بچپن سے ہی صحافتی جراثیم موجود تھے۔88ء کے الیکشن جب ہوئے اُس وقت میں کلاس ششم کا طالب علم تھا’جب سے لیکر اب تک میںنے تقریباًتمام پارٹیوں کے منشور ہر دفعہ پڑھے ہیں ۔انتہائی دل چسپ اور عجیب بات مجھے یہ لگی کہ 88ء سے لیکر اب تک مجھے تمام پارٹیوں کے منشور ایک جیسے ہی لگے۔

کوئی بھی ایسی بات میری نظر سے نہیں گزری جو کہ نئی ہو۔وہی تعلیم عام کرنے کا رونا وہی صحت کیلئے مختص فنڈ و ہی دلفریب باتیں روزگار سب کو ملے گا ‘پینے کا صاف پانی میسر ہوگا امن و امان قائم کرینگے رہائشی کالونیاں قائم کی جائیں گی ‘قانون و انصاف سب کیلئے برابر ہوگا۔اگر تمام پارٹیوں کے منشور کو بغور پڑھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تمام پارٹیوں کے منشور کسی ایک ہی شخص نے لکھے ہوں’صرف پارٹی کا نام تبدیل کردیا گیا ہو۔
میرے بعض قارئین کرام نے مجھے متعدد ای میلز اور ایس ایم ایس بھی کئے کہ آج کل آپ کے کالموں میں چند سطور آپ کے گزشتہ کالموں سے ازحد مماثلت رکھتی ہیں۔اُ ن قارئین کرام سے انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ آپ لوگ خود بتائیں میں کیا کروں؟ہم لوگ بھی تو ایک عرصہ سے ہر الیکشن میں ایک ازبر یاد منشور پڑھتے ہیں اور پھروہی سنہرے خواب اور خیالی پلائوپکانے والوں کے جھانسے میں آکر پھر اُسی پارٹی اور اُنہیں لوگوں کو ووٹ دے دیتے ہیں’تو میں بھی آپ میں سے ہی ایک عام انسان ہوں۔تو اگر میرے کالموں میں کچھ سطور میر ی سابقہ تحریروں سے تھوڑی بہت یا کبھی زیادہ مماثلت کرجائے تو اُسے نظر انداز کرکے میری تحریروں کو پڑھتے رہیں’جیسا کہ تمام پارٹیوں کے سیاسی منشور کو ایک عرصہ سے پڑھتے آرہے ہیں اور پھر جاکر اُنہی لوگوں کو ووٹ دے دیتے ہیں۔

خیر بات منشور کی ہورہی تھی اور انتخابی مہم شروع ہوتے ہی صدابہار منشور عوام کی خدمت میں پیش کردئیے گئے ۔اور حسین ترین خوابوں کادور شروع ہوچکا ہے جو الیکشن ختم ہوتیہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا ۔اگر عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کرنی ہے اور پاکستان کو واقعی میں ایک بہترین ریاست بنانا ہے تو منشور وغیرہ سے کچھ نہیں ہوگا’اگر کچھ کرنا ہو تو دو فقروں کا منشور بھی بہت ہے۔

اگر آج کل کے دور کی بات کی جائے تو ہوگو شاویز اپنے ملک کی ترقی اور کامیابی کی ایک بہت واضح اور روشن مثال ہے ۔اُس کی وفات کے اِتنے دن بعد بھی وینزویلا کی عوام اُس کیلئے دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہے۔وجہ کوئی بڑی نہیں اُس نے اقتدار سنبھالتے ہی صرف دو فقروں کا منشور دیا تھا اور مرتے دم تک اُس پر عمل کیا۔

Pakistan Election

Pakistan Election

ہوگوشاویز نے 1999میں الیکشن لڑتے ہوئے صرف دو فقروں کا منشور دیا تھا کہ میں ملک سے غیر ملکی سرمایہ داروں اور اُن کے غلاموں کا صفایا کردوں گااور دوسرا فقرہ کہ
ہر وہ پالیسی بنائوں گا جس سے غریب کو فائدہ ہوگا۔عوام نے شاویز کے اِس دو نکاتی منشور کو ووٹ دے دئیے۔شاویز نے جب صدارت کا حلف اُٹھایاتو اُس کے دس منٹ بعد صدارتی محل کا سارا فنڈ غریب سٹوڈنٹ کو بطور سکالر شپ د ے دیا۔صدارتی لیموزین اور تمام صدارتی جہاز فروخت کردئیے۔ستر ہزار سے زائد فوجیوں کو سڑکوں اور ہسپتالوںکی تعمیر پر لگادیا۔

ملک میں ڈاکٹر اور اساتذہ بہت کم تھے ہوگوشاویز نے کیوبا سے معاہدہ کیا ‘ہم آپ کو مفت تیل دیں گے آپ ہمیں ڈاکٹر اور اساتذہ دے دیں۔کیوبا نے وینزویلا کو تقریباً بیس ہزار ڈاکٹر اور اساتذہ فراہم کرد ئیے اور 53ہزار بیرل یومیہ تیل لے لیا اور بعد میں ڈاکٹر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ گئی۔شاویز نے ایک ماہ کے اندر ہی تمام بچوں کی تعلیم لازمی اور مفت قرار دے دی۔حکومت چالیس لاکھ بچوں کو سکول میں مفت خوراک تک مہیا کرتی تھی’اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

ہوگوشاویز کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے وینزویلا میں پٹرول کی قیمت ایک ڈالر فی لیٹر تھی ہوگو شاویز نے پٹرول کی قیمت 2سینٹ فی لیٹر مقرر کردی یہ پاکستانی تقریباً 2روپے سے کم بنتی ہے اور یہ تمام دنیا میں پٹرول کی سب سے کم قیمت ہے اور یہ آج تک برقرار ہے ۔پٹرول سستا ہونے کی وجہ سے جنریٹر سے بجلی کی پیداوار ‘ٹیوب ویل’ٹرانسپورٹ اور صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوااور اشیاء بھی سستی ہوگئیں۔وینزویلا میں ایک مخصوص قسم کا سینڈوچ کھایاجاتا ہے ۔شاویز نے 22ہزار سرکاری اسٹور بنائے اور اُن سٹورز میں عام خوراک 30% سستی اور وہ مخصوص سینڈوچ75%سستا ملتا تھا۔ان اقدام سے غریبوں کے مسائل ختم ہونا شروع ہوگئے اور یوں ملک سے غربت کا خاتمہ ہوگیا۔

یہ ہوتا ہے منشور جن سیاستدانوں میں واقعی ملک کی تقدیر بدلنے کا عزم موجود ہوں وہ صرف باتیں یا دعوے نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی قوم کیلئے کچھ کر گزرتے ہیں ۔اور
ہمارے سیاستدان صرف باتیں اور دعوے کرتے رہتے ہیں اور اقتدار ملتے ہی لوٹ مار شروع کردیتے ہیں اور صرف اپنی جیبیں اور ذاتی اکائونٹ بھرنا شروع کردیتے ہیں کوئی مذہب کا نام لیکر کوئی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر’مقصد ملک کی خدمت نہیں صرف اپنی ہوس اور لالچ کو پورا کرنا۔

پتہ نہیں عوام کب جاگے گی؟ اس بار ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کو ان تمام مکار و عیار سیاستدانوں کی اِن سب باتوں کو مسترد کرکے سیاسی طور پر سب شعبدہ بازوں کو اِن کے منشور کے ساتھ ہی دفن کردینا چاہیے۔سیاستدانوں کی شرم تو کب کی مر چکی ہے اللہ کرے اِس سوئی ہوئی قوم کی غیرت جاگ جائے۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی