دیکھنے کو تو جمہوری نظام عجب شہ لگتی ہے(مگرگزاراچنگاہے بس بات یہ ہے کباب میں ہڈی نہ ہو)۔ہمارے شہرکے ایک حکیم صاحب سے جب میں نے دریافت کیاکہ جناب آپ کسے ووٹ دیں گے تو کہنے لگے کہ پچھلے پچیس برس سے ووٹ نہیں دیالیکن اب قومی سطح پر ایک لیڈر مل گیاہے۔
لہذا اُسے ہی نوازوں گا۔ووٹ نے دینے کی وجہ یہ بتائی کہ جب ”نمو”’ اور میرا ووٹ برابر ہے بدمعاش اور شریف کا ووٹ ایک جیسی وقعت رکھتاہے تو پھر کیاضرورت پڑی ہے کہ الیکشن میں اپنے وقت کاضیاع کیاجائے(نمو ہمارے علاقے کا ایک غیرحاضردماغ فرد ہے ۔بقول حکیم صاحب کے کہ جو کوئی” نمو بھائی” کو الیکشن والے دن نسوار کی چونڈی رکھوا دے ووٹ اُسی کا’خاک ڈالو ایسے نظام پر۔
بہرحال اب کی بار چونکہ جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی اور عوام بھی ذلیل نہیں ہوئی (اگر ذلیل ہوئی ہے تو الیکشن میں ثابت کرے) اسی واسطے حکیم کی طرح کے لوگ کچھ نہ کچھ دلچسپی کامظاہرہ کررہے ہیں۔وگرنہ پاکستان کے چنگے بھلے دماغ تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں کیونکہ انھیں اس سارے دھندے میں کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی ۔شاید اب کی بار کچھ نیاہوجائے۔شاید لیکن پرانے لوگ کہتے ہیں یہ پاکستان ہے۔
آزاد جمہوریہ بھارت جیسے ممالک جو اکیرالہ کے گائوں سے تعلق رکھنے والے دو ماہی گیرشہری جیلسٹائن اور اجیش پنکوکی خاطر اطالوی حکومت سے سفارتی جنگ لڑتے ہیں ‘کوئی دبائو قبول نہیں کرتے اور بالاآخر اطالوی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیتے ہیں’اس لیئے کہ وہاں ڈنڈاحکومت نہیں کرتابلکہ اہل مغرب کا نظام جمہوریت ہی ہے۔
جو وہاں پروان چڑھ چکاہے(جبکہ ہم تو ایمل کانسی اور محترمہ عافیہ کو پلیٹ میں رکھ کرپیش کردیتے ہیں اور پھر امریک کہ خلاف نعرے بھی لگواتے ہیں’قرض بھی اسی سے لیتے ہیں اورباتیں بھی اُس کے خلاف۔ارے بھائی اتنے چنگے ہوتو ملک کیوں نہیں سنوارلیتے)۔ہمارے ہاں جمہوری بادشاہت پیسہ دھونس دھاندلی کارواج ہے۔البتہ ذات برادری علاقائی لسانی اور فقہ واریت کازہر اب بھی بھارت کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچارہاہے۔
ہمارے ہاں تباہی لاچکاہے۔ہمارے ہاں فقہ کی بنیاد پر مدارس کانصاب اور اب تو پارٹیاں بھی موجود ہیں (کوئی مانے یانہ مانے)۔عوام کو فقہی بنیاد پر موجود تمام پارٹیوں کا بائیکاٹ کرناچاہیئے اور الیکشن کے بعد اس مسلئہ کے مکمل حل کیلئے آئینی ترمیم کی جدوجہد کرنی چاہیئے۔کیونکہ اگر سیاستدان اپنے ذاتی مفاد کی خاطر آئین کو بدل سکتے ہیں یاترمیم کرسکتے ہیں تو ملکی مفاد کی خاطر کیوں نہیں۔
Election Pakistan
الیکشن سرپرہیں ۔سیاہی بک رہی ہے’کاغذ کی قیمت لگ چکی’سکرین کی حالت آپکے سامنے ہے۔الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ ووٹر کیلئے سواری کاجوبندوبست حلقے کے اُمیدوار کرتے ہیں اس پر پابندی لگائی جائے کیونکہ یہ عمل جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اور کیاہی بہترہوتاکہ اگر بیش قیمت اشتہارات پرپابندی ہوتی اور مناسب تشہیر کیلئے سرکار فنڈ دیتی تاکہ غریب کابچہ بھی پارلیمنٹ کی بوسونگھ سکتا۔
لیکن اس مرتبہ بھوکے ‘ننگے پاکستانیوں کو چاہیئے کہ وہ پارٹی نہیں اُمیدوار کے نجی وملکی سطح پرکردار کو دیکھ کرووٹ دیں(وگرنہ ایک دہائی کیلئے مرجاویں گے۔۔۔)۔کسی بھی لالچ کے بغیرپرامن پاکستان کی خاطر حق رائے دہی استمعال کریں۔تاکہ اچھی قیادت سامنے آئے اور بڑی پارٹیوںکو بھی عبرت حاصل ہوجوعوام کے مفاد کے بجائے محض ایک حلقہ میں سیٹ جیتنے کی غرض سے بدنام زمانہ افراد کو ہم پرمسلط کردیتے ہیں۔
سامنے کی بات تو یہ ہے کہ گیارہ مئی کو الیکشن ۔لیکن کبوتر جو خبریں لاتے ہیں انکے مطابق التواء میں بھی پڑسکتے ہیں۔اور اگرسیاستدانوں نے ماحول کو آلودہ کرنے کی سعی کی تو زوروالے بھی آسکتے ہیں۔
اُمید ہے اس مرتبہ سیاستدان کیچڑاُچھالنے کے بجائے حلم وبردباری اور صبروتحمل کامظاہرہ کریں گے۔اگر نہ کریں توآپ(عوام) انکے جلسے سنسان بنادیجئے ‘خود ہی بندے کے پُتربن جائیں گے۔اور میری عرضی یاد رکھناووٹ محض پاکستان کی خاطروگرنہ۔۔۔ہرپاکستانی کہتاپھرے گابقول آخری تاجدارہندبہادرشاہ ظفر بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تونہ تھی جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تونہ تھی چشم قاتل تھی ہمیشہ میری دشمن لیکن جیسی اب ہوگئی قاتل کبھی ایسی تونہ تھی
آخرمیں تاریخی حوالہ پراختتام کرتے ہیں آپ الیکشن تک اس کے حرف حرف کو ذہن نشین کرلیجئے ۔1872میں انگریز مورخ سرولیم ہنٹراپنی کتاب ”دی انڈین مسلم ”میں اسطرح رقمطراز ہے ”نہایت ہی غیرمحسوس طورپرمسلمان بتدریج انگریزوں کے قبضئہ اقتدارمیں آگئے۔سالہاسال تک سرکاری کاغذات اور فائلوں کامطالعہ کرنے کے بعدبھی میں اس قابل نہیں ہواکہ کسی خاص سال یادور کی نشان دہی کرکے کہہ سکوں کہ یہ اہم تبدیلی اس وقت واقع ہوئی۔