دنیا میں انسان اشرف المخلوقات کہلائے جاتے ہیں اور اگر یہ انسان آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہوں تو یہ ان کی خوش نصیبی ہے ویسے تو غلامی میں قوموں کی نفسیات بدلتی رہتی ہے۔ جو صفات انسان کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہیں اس کی قدر یہ نہیں کرتے یوں باگ دوڑ دوسروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ اقدام کرنے کی جگہ اپنا دفاع کرنے کو ترجیح دینا، غیرت کی جگہ کاسہ لیسی اور خودداری کے جراثیم کی جگہ خوشامد و چاپلوسی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کی بجائے اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ فطرت کا قانون ہے کہ جب تک اس کے تقاضوں کو پورا کیا جائے سر بلندی و کامرانی ہم رکاب رہتی ہے بصورتِ دیگر ذلت و خواری اور زوال مقدر بن جاتا ہے۔ جہد مسلسل، عمل پیہم اور ایمان محکم اس کی کسوٹی ہیں۔ اگراس پر قائم ہو تو ٹھیک ورنہ خدا بھی اس کی حالت پر رحم نہیں کرتا، جسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا احساس نہ ہو۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے مرکز و محور کی پلٹنے کی کوشش کرنا ہی انسان کا کام ہے۔ اور یہ انسان جب جمِ غفیر کی صورت ہوں یا کسی ملک کے افراد ہوں تو قومیں بن جاتی ہیں اس لئے اب وقت آچکا ہے کہ پاکستانی قوم (عوام) کو اب جاگنا ہوگا۔
انتخابی سیاست لین دین اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا نام ہے، وفاداری اور گلے میں کسی جماعت کا ہار ڈالنے کا نام ہے۔ لوٹے بازی کا نام بھی کہا جا سکتا ہے ، اور جب یہ سب کچھ کر لیا جاتا ہے تو پھر آتی ہے منشور کی بات (گو کہ منشور میں جتنے بھی وعدے وعید کئے جاتے ہیں وہ صرف کاغذی ہوتے ہیں) اس کا براہِ راست عوام کے ووٹوں سے تعلق نہیں ہوتابلکہ یہ سب صرف ووٹ لینے کے لئے کیا جاتا ہے۔
جہاں تک ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کاتعلق ہے وہ اپنے اپنے امیدواروں کی لسٹ بینروں، پینا فلیکس اور دوسرے ذرائع سے عوام تک پہنچا کر اپنے فرض سے آزاد ہو جاتی ہیں، اور عوام کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس الیکشن میں ان کی رسی کس کے ہاتھ میں دی گئی ہے، یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اس ملک کے عوام خود اپنی اہمیت سے آگاہ اور حالت بدلنے کے لئے پُر عزم نہیں ہوتے۔ ووٹوں کی تھوک تجارت نے اس کے تقدس کی بے وقعتی میں اضافہ ہی کیا ہے۔
شاید یہی سبب ہے کہ ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی تمام ہی پارٹیاں اپنی تمام تر دم خم اور اعتماد کے ساتھ میدان میں ہیں، اس لئے فیصلہ زیادہ مشکل لگتا ہے، دودھ کا دھلا تو کوئی بھی نہیں اکثریت کا دامن داغدار ہے۔اور کچھ نہیں تو کم از کم عوام کے ساتھ وعدہ خلافی اور اعتماد شکنی کا جرم تو سب نے کیا ہے۔ فردِ جرم کا وزن کم یا زیادہ تو ہو سکتا ہے مگر اکثریت پارٹیوں کو باعزت بری نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے عوام حکمتِ عملی کے ساتھ ووٹ کا استعمال کریں تو بہتر ہے۔
عام خیال یہی ہے کہ کمزور اور مخلوط حکومت ہی وجود میں آنے کو ہے۔ چلو اس میں بھلائی ہی کارفرما ہوتی ہے کم از کم وہ بے لگام تو نہیں ہوتی فیصلہ کن پوزیشن نہ ہونے کی وجہ سے ہر طبقہ کا مفاد ملحوظ خاطر رکھنا اس کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے۔ مگر ہونا یہ چاہیئے کہ جہاں عوام کا مفاد ہو اس پر سودے بازی نہ کی جائے بے شک عوامی مفادات پر اگر حکومت چلی بھی جائے تو کوئی مذائقہ نہیں مگر عموماً ایسا ہوتا نہیں ہے۔
Plitical Party
ریاست اس وقت سیاسی تغیر سے گزر رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں وہی جماعت سیاسی دوڑ میں رہ پائے گی جو بہتر نظام دینے کا وعدہ کرے گی عوام کو اس صورتحال سے کتنا فائدہ ملے گا یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ابھی تو ان کی باگ دوڑ دوسروں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ الیکشن نہ صرف سیاسی امیدواروں بلکہ لیڈروں کا مستقبل بھی طے کرے گا کہ ان کی دوڑ کیا یہیں ختم ہو جائے گی یا وہ اسمبلی میں اہم رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔ جو مسائل حل کرے گا وہی عوام کے ووٹ لے گا اور یہ معاہدہ انتخابی موسم میں نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دل سے عہد و پیماں کرنا پڑے گا۔
سیاسی لیڈران ایسے وعدے کریں جس پر عوام کا اعتماد ہو جائے آسمان سے تارے توڑ کر جھولی میں ڈال دینے اور ناقابلِ عمل وعدے نہ صرف آپ کو حواس باختہ کر دیں گے بلکہ عوام بھی شعور و آگہی سے باہر آکر سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام آپ کے وعدوں کو سن کر یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ ” ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر پانچ برسوں کی بے اعتنائی کے شکار عوام چند دنوں کی بے انتہا آئو بھگت سے پریشان ہیں اور یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ وہ اپنا وزن کہاں ڈالے، لیڈر ایسا ہونا چاہیئے جیسے ہر ایک کا محسن، مسائل کا جو انبار لگا ہے۔
اس میں تخفیف کرنے والا ہو، عوام جو زخموں سے چور ہیں ان کا علاج کوئی نہیں کرتا، ان کے دکھوں کا مداوا کوئی کرنے والا نہیں ۔ پولنگ بوتھ سے واپسی کے بعد وہ بیگانہ کر دیا جاتاہے ۔اس کی ابرِ چشم پر رقص کرنے والوں کو اس کی کراہیں سنائی نہیں دیتیں، نام نہاد ہمدردوں کی فوج الیکشن کے بعد رفو چکر ہو جاتی ہے دہائیوں سے یہی تماشہ جاری ہے۔ مگر موجودہ انتخابات کا منظر نامہ تاحال غیر واضح ہے۔ ناقابل عمل وعدوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔
سیاسی پارٹیاں عوام کو لیکر کتنی سنجیدہ ہیں ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ آخر پانچ سال کے عرصہ میں وہ عوام کو کیا دیں گے۔ مگر اُمید پر دنیا قائم ہے اور اسی وجہ سے عوام یہ کہہ رہی ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ” ہم آپ کی نیّا پار لگاتے ہیں پھر آپ ہماری ڈوبتی نیّا کو پار لگائیں” اگر اس پکے وعدے پر عوام اور لیڈران متفق ہو جائیں تو ملک کی تقدیر سنور سکتی ہے۔ اس مہنگائی اور بدعنوانی سے بھرے ماحول میں جب بدعنوانی اور مہنگائی پر قابو پانے اور اشیاء خوردنی و اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانے کے وعدے ہونے چاہئیںتو جدید ٹیکنالوجی کی اشیاء مفت فراہم کرنے کے وعدے کرکے یہ سیاسی پارٹیاں کہیں عوام کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہی ہیں۔
Election Pakistan
کئی دہائیوں سے یہی تجزیہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہماری اکثر سیاسی پارٹیاں وعدے کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اور بعد میں اپنے اُن وعدوں سے منکر ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور ہیں، اس وقت الیکشن کی چابی یقینا عوام کے پاس ہے اور وہ اپنے ووٹوں کی اہمیت کو بھی سمجھ رہے ہیں اب دیکھنا گیارہ مئی کو ہوگا کہ عوام اپنے لئے کیسا فیصلہ کرتی ہے۔
انتخابات کے اعلان کے بعد تو سیاسی پارٹیاں عوام کو سبز باغ دکھانے والے اعلانا ت کا مجموعہ تیار کرکے انہیں اپنے اپنے انداز میں انتخابی منشور میں شامل کرکے عوام کے سامنے پیش کرنے لگی ہیں ۔ کیا اس تیز رفتار دور میں عوام یہ نہیں سمجھتی کہ سیاسی پارٹیوں کا انتخابی منشور ان کے انتخابی لائحہ عمل کا حصہ ہوتا ہے اقتدار میں آنے کے لئے سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے وعدے وعید کرکے عوام کو لبھانے کی کوشش کرتی ہیں ان وعدوں میں سے کچھ وعدے تو وفا ہوتے ہیں اور باقی وعدے اگلے الیکشن میں بھی انتخابی منشور کی زنیت بنتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ انتخابی وعدے بھی دوسرے وعدوں کی طرح ہوتے ہیں، جس کے لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ ” کہ وعدے ہیں وعدوں کا کیا۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی