پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ اجتماعی بے وقوف بنانے کی مہم شروع ہوگیا ہے یہ مہم بظاہر تو سڑکیں بنا دیں گے، لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن ، لاقانونیت اور نا انصافی ختم کر دیں گے ، روٹی ، کپڑا اور مکان لادیں گے ، تعلیم گھر گھر اور سستا کریں گے جیسے انتخابی نعرہ بلکہ درحقیقت عوام کو بے وقوف بنانے کی مہم ہے جس میں پاکستان کے بڑے بڑے نامور سیاستدان حصہ لے رہے ہیں۔
ملک بھرسے تقریباََ 11836 لگ پھگ امیدواروں کی کاغذات الیکشن کمیشن کو موصول ہو چکے ہیں ۔ جن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں پر پنجاب سے 6420 ، سندھ سے 1489، خیبر پختون خوا سے 3081، صوبہ بلوچستان سے 632 اور اسلام آباد 97 سے زائد امیدواروں کا فہرست سوموار تک موصول ہو چکے تھے تاہم یہ حتمی فہرست نہیں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اپنے اپنے حلقہ میں درجنوں کی تعداد میں امیدواروں نے براہ راست سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کر کے اُن لوگوں کے دروازوں پر جھاکھڑے ہونے لگے ہیں جن کو سلام دینا بھی گوارہ نہیں کیا کرتے تھے۔
یہ صورتحال صرف بلوچستان یا سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ہے ۔ امیدواروں میں اکثریت کی تعداد نئی نوجوان نسل سے ہے ۔ایک بڑی تعد اد ماضی میں ہمیشہ اسمبلیوں کے دال چاول کھاتے رہے ہیں ، جن کو اس بار بھی فتح حاصل کرکے اسمبلیوں کی عیش و آرام کے مزے دوبارہ چکھنے کی زیادہ ہی شوق ہے ۔ عام انتخابات میں ہمیشہ امیدواروں کی اپنی اپنی فکر رہتی ہے بانسبت ضمنی انتخابات جہاں پوری اسٹبلیشمنٹ و سرکاری مشینریاں کام کرتے ہیں۔
پوری پارٹی ایک ہی حلقے میں مصروف ہو جاتی ہے۔ جہاں پر غیر شفاف الیکشن کے متوقعات زیادہ ہوتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو تمام امیدواروں کی لائن لگ جاتی ہے ایک ایک ووٹ مانگنے کے لئے ایسے دروازوں پر جا کھڑا ہو جاتے ہیں جہاں پر گھر والے شخص کوپہلی مرتبہ نظر آتے ہیں۔ تمام امیدوار کوشش کرتے ہیں کہ ان کے موجودہ مسائل حل کر کے ان کے دل میں جگہ حاصل کریں اور ووٹ مانگنے میں آسانی پیدا ہو جائے اور ووٹ حاصل کرنے میں دشواری نہ ہو تو منت سماجت کرنے سے پہلے یہی کوشیش ہوتا ہے۔
ان کا کوئی ماما ، چاچا ، نانا ، نای جو چار پانچ سال پہلے وفات کر چکا ہو اُ س کی تعزیت کرنا یاد آجاتی ہے ۔ امیدواروں کی لائن لگ جاتی ہے اُ ن وفات شدہ لواحقین کے گھر میں فاتح خوانی کرتے ہیں۔ کوئی دیرینہ مسئلہ ہوتا ہے تو امیدوار کوشش کرتا ہے کہ کسی بھی قیمت میں اس کا مسئلہ حل ہو جائے یا اسے مسئلے کی حل کی تھوڑی ہی سہی مگر الیکشن تک صرف یقین دہانی ہو جائے تاکہ ووٹ لیکراسے پہچاننے سے بھی با آسانی انکا ر ہو جائے۔
ایک مرتبہ میرے شہر ڈیرہ اللہ یار PB-26 بلوچستان میں ہونے والی ضمنی الیکشن میں گزشتہ سال 2011 میں ایک نامور امیدوار نے میرے ایک دوست کے گھر الیکشن میں ووٹ مانگنے کے واسطے جا کر فاتح خوانی کی اور آخر میں نام لیکر کہا فلاں شخص بہت ہی اچھا آدمی تھا ، میرا دوست تھا ، اس کی وفات کا مجھے بہت ہی افسوس ہوا بس دنیا کی کچھ مصروفیات کی بنا پر میں اُ ن قریبی ایام میں آنے سے قاصر رہ گیا تھا۔
Election Pakistan
تو سوچا آج جاکر اپنے دوست کے لواحقین سے اظہار تعزیت کر وں اور الیکشن سر کے اوپر ہیں تو میں آج چلاآیا ہوں ۔امیدوار سے پوچھا گیاکہ فلاں بندہ تو آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے جس کی آپ نے فاتح خوانی کی اور پرانی دوستی کا زکر کرتے ہوئے اس دوست کو مردہ قرار دیا ہے۔ امیدوار بے چارہ لال سے پیلا ہو کر خاموش پانچ منٹ گزارنے کے بعد اجازت مانگنے لگا تو کسی ہونہار نہ فرمایا کہ امیدوار صاحب صاف صاف کہتے کہ مجھے ووٹ کی ضرورت ہے تو ہم آپ کو تسلی بخش جواب دیتے لیکن آپ نے تو حد کردی کہ ایک زندہ شخص کو مردہ تصور کرتے ہوئے اس کی تعزیت بھی کردی حالانکہ وہ بندہ آپ کی محفل مین موجود بھی ہے ساتھ ساتھ ایک جھوٹ بھی بولا ہے کہ میرا دوست تھا جبکہ وہ آپ کی نظر میں مردہ بے چارہ زند ہ بیٹھا ہوا ہے پہچانے سے بھی قاصر رہ گئے ہو۔
یہ عالم ہوتا ہے امیدواروں کی الیکشن کے دوران حکا بکا رہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اپنی ووٹرکی گدھے کی بیماری کا سن کر فوری اُ س کے گھر ہمدردی کے لئے چلے جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ووٹر کی گدھے کے لئے اتنا عزت و احترام ہے تو مالک کی تو بات ہی کچھ اور ہو گی۔ وقت آنے پر گدھے کو باپ بنا نا پڑتا ہے تو بالکل اسی طرح ہمارے سیاستدان حضرات بھی پاکستان میں ووٹ مانگنے کے لئے گھر گھر جا کر منت سماجت کرتے ہیں اور گھر والے کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گھر کی تمام لوگوں کی خیریت و تکالیف کا ضرور پوچھتے ہیں اور ساتھ ساتھ گدھا، کتا ، بلی اور بکریوں کا بھی حال ضرور پوچھتے ہیں۔
وقت کے غلام بادشاہوں کو ایک دن ایسا ضرور کرنا پڑتا ہے ۔ آج عوام کا وقت ہے تو سیاستدان ان کے گدھوں کا بھی حال پوچھتے ہیں اور پھر مقصد حاصل کرنے کے بعد گدھے کو بھول جاتے ہیں اور گدھے کے مالک کو بھی بھول جاتے ہیں اور ان سے ملنا گوارہ تک نہیں کرتے ہیں ۔ آج گدھے کے مالک کا وقت ہے کہ اس چیلنج سے کیسے نمٹتا ہے ؟ پاکستان میں الیکشن آج نہیں بلکہ گزشتہ 40سال سے ہو رہے ہیں ۔ عوام کو بخوبی جانتا ہے کہ کونسا سیاستدان الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد بھی ہمیشہ عوام اور اس کے گدھے کا حال پوچھتے ہیں۔