قیام پاکستان سے لیکر آج تک سیاست کے سٹیج پر بہت سے سیاسی اداکار آئے اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے جاتے رہے۔ قائد اعظم کے بعد ذوالفقار بھٹو تھے جن کو عوام میں پذیرائی ملی اور ان کے بعد اب میاں نواز شریف ہیں جن کو عوام پسند کرتی ہے۔جس طرح میاں صاحب عوام کا درد دل میں رکھتے ہیں اسی طرح اپنے دوراقتدار میں بھٹو عوام کا خیال رکھتے تھے۔ذوالفقاربھٹو5 جنوری 1928 ء کوصوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میںپیداہوئے ۔آپ کے والد کانام شاہ نواز بھٹو تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو تینوں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپکی مادری زبان سندھی تھی۔ آپ کے والد سر شاہنواز خان بھٹواپنے دور میں حکومتی سطح پر ایک مقام رکھتے تھے اسی لیے اْس دور کی انگریز حکومت نے ان کی خدمات پر انہیں سر کے اعزاز سے نوازا تھا۔
یاد رہے انگریز حکومت سر کا خطاب انہیں دیتی تھی جنکی خدمات اْن سے مشروط ہوں ۔ آپ کی والدہ کا نام خورشید بیگم تھا ،آپ کے والد سندھ کے جاگیرداروں میں شامل ہوتے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی کے کیتھڈرل سکول سے حاصل کی۔ ذوالفقار بھٹو کی پہلی شادی ابتدائی عمر ہی میں شیرین امیر بیگم نامی خاتون سے کردی تھی۔ جن سے انہوں نے جلد ہی علیحدگی اختیار کرلی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے 1947ء میں امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے کیلی فورنیا یونیورسٹی سے سیاسیات کے مضمون میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ 1950 میں آکسفورڈ لا کالج برطانیہ میں داخلہ لیا اور 1953 ء میں وہاں سے لاء کی ڈگری حاصل کی۔ ا س کے بعد وہ کچھ وقت تک سندھ مسلم لا ء کالج میں لیکچرار رہے اوربعد ازاں کراچی میں کچھ عرصے کیلئے وکالت کی پریکٹس بھی کی۔
اکتوبر 1958 میں ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ان کو پہلی دفعہ سیاست میں براہ راست حصہ لینے کا موقع ملا۔اور اپنے سیاسی کیریر کا آغاز ایوب خان کابینہ میں توانائی کے وزیر کی حیثیت سے کیا۔اسوقت ان کی عمر محض 30 سال تھی۔ بعد میں ان کو کامرس ، اطلاعات ونشریات اور صنعتوں کی وزارتیں بھی دی گئیں۔ 1962 ء میں وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوئے۔جب ان کے جنرل ایوب خان کیساتھ معاہدہ تاشقند پر اختلافات پیدا ہوئے تومعاہدہ تاشقند پر دستخط کا انتظار کئے بغیر وطن واپس لوٹ آئے۔تاشقند سے واپسی پرانہوں نے وزارت سے استعفیٰ دیکر تاشقند معاہدے کے متعلق قوم کو مختلف فورمز اور پروگرامات کے ذریعے اسکے مضمرات سے آگاہ کیا۔حکومت سے استعفیٰ کے بعدانہوں نے پورے ملک کا طوفانی دور ہ کیا۔ عوام کی زبردست پذیرائی کو دیکھتے ہوئے انہوںنے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔
اسطرح انہوں نے 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ اسلام ہمارا دین ہے ، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے کے علاوہ انہوں نے پاکستا نی عوام کو طاقت کاسرچشمہ قرار دیکر پورے ملک میں انقلابی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ایوب خان آمریت سے بغاوت کے جرم میں انکو 12 نومبر 1968 کو گرفتار کر لیا گیا لیکن جنرل ایوب خان اپنے آمرانہ ہتھکنڈوںکے ذریعے ان کا سحر توڑنے میں کا میاب نہ ہو سکے اور بالآخر 1969ء کی وہ گھڑی آن پہنچی جب جنرل ایوب خان کو اقتدار چھورنا پڑا۔ایوب خان نے ایک بار پھر اپنے آمرانہ مزاج کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقتدار اپنے ہی وضع کردہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے سپیکر کو سونپنے کی بجائے چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔
PPP
جنرل یحییٰ خان نے ملک میں دوسرا مارشل لاء لگاکر عام انتخابات کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی نے 1970ء کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں روٹی ، کپڑا اور مکان کے منشور پر الیکشن میں حصہ لیااور مغربی پاکستان سے پیپلز پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ا بھری ۔اسطرح محض تین سال کے قلیل عرصے میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایک بہت بڑی کا میابی حاصل کی۔ جنرل یحییٰ خان کو فارغ کرکے انہوں نے بحیثیت چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر اور بحیثیت صدر پاکستان حکومت خود سنبھالی۔اور 20 دسمبر 1971ء سے 13 اگست 1973ء تک صدر پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ 1973ء کا متفقہ آئین منظر عام پر آنے کے بعد انہوں نے عہدہ صدارت چھوڑ کر 14 اگست 1973ء کوبحیثیت وزیر اعظم حکومتی اختیارات سنبھالے۔
1976ء میں آپ نے جنرل ضیاء الحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنا یا تو ہر سطح پر اس فیصلے پر تنقید کی گئی لیکن آپ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے بعدازاں 5 جولائی 1977ء کو ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں ڈال کر ان پر اقدام قتل کا مقدمہ دائر کر دیا۔ جسکے نتیجے میں آپ کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔بھٹو نے اپنے اقتدار میں عوام کی فلاح کے بہت کام کیے۔ طالب علموں کے سٹوڈنٹ کارڈ ان کے دور میں بنائے گئے۔ذوالفقار علی بھٹو ایک نئی جدید سوچ کے مالک تھے وہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے حالات اور وقت کے ساتھ لیکر چلنا چاہتے تھے اسی لیے انھوں نے ایک ایسی سیاسی جماعت بنائی جس کا منشور فلاح بہود اور عوامی خدمات پر مشتمل تھا۔ بھٹو نے بہت کم وقت میں پورے پاکستان کی عوام کا دل جیت لیا تھا۔
انہی کے دورحکومت میں پاکستان نے ایٹم بم کی تیاریاں شروع کردی تھیں ۔پاکستان اسٹیل مل اور دیگر ادارے بھی وجود میں آئے۔ بھٹو نے زراعت کو فروغ دینے کیلئے جدید زرعی آلات کسانوں ، زمینداروں کومفت اور آسان اقسام میں زرعی قرضے فراہم کیے تاکہ کسان اور جاگیردار ان جدید ٹیکنالوجی اور لون کی سہولت کو اختیار کرتے ہوئے زرعی اجناس کی پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں ، اسی طرح صنعت و تجارت کی فروغ کیلئے بھی نئے پلان تیار کیئے اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے پیداوار میں اضافہ کیا۔
بھٹو کے دور حکومت میںمزدور یونین کومکمل آزادی حاصل تھی۔بھٹو غریب پرور ہونے کے ناطے وہ مزدور یونین کے حامی تھے۔ 1972ئ میں بھٹو نے اولڈ ایج بینیوینٹ اور پینشن کا سسٹم رائج کیا ۔ 28 نومبر1972ء کوپاکستان کا پہلا نیوکلیر پاور پلانٹ کراچی کا افتتا ح کیا۔ 12 اپریل1973ء کو پاکستان آئین میں ترامیم کیں۔ یکم جنوری 1974ء کو تمام بینکوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔بھٹو کے اس دور میں اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہ دور پیپلز پارٹی اور بھٹو کا تھا اورکہنے کو آج بھی دور پیپلز پارٹی اور بھٹو کا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھٹوکا نام اس کی وارثوں سے چلتا ہے بھٹونام رکھ لینے سے بھٹو خاندان کے جراثیم نہیں آجاتے ہیں اور نہ ہی اس جیسی سوچ بن جاتی ہے ۔ذوالفقار بھٹوکے دور میں عوام کے لیے جان دی جارہی تھی اور آج عوام کی جان لی جارہی ہے۔ اس وقت عوام کو اسکے حقوق دیے جارہے تھے اور آج ان کے حقوق پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ کیا آج کے حالات دیکھ ذوالفقار بھٹو کی روح تڑپتی نہیں ہوگی کہ یہ وہی پاکستان ہے ؟ (بشکریہ پی ایل آئی)
Aqeel Khan
تحریر : عقیل خان svpresidentccp@gmail.com 03014251658