محترم قارئین !ان دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان مکمل ایکشن میں دیکھا ئی دے رہا ہے ۔ جس سے سیاسی و عوامی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ اس مر تبہ الیکشن انتہا ئی شفاف نوعیت پر ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان ایکشن پوزیشن میں دیکھتے ہو ئے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بھی قرض نا دہندگان کی فہرست جس میں تین سابق وفاقی وزراء کے نام شامل ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دی ہے ۔ جس کے مطابق تین سابق وفاقی وزراء کے ذمے بھا ری قرضے واجب الادا ہیں ۔غلام احمد بلور نے پینتالیس لاکھ روپے، احمد مختار نے چار بینکوں کے تیرہ کروڑ روپے ،جہا نگیر ترین نے چالیس کروڑ ستر لاکھ روپے جبکہ ہا رون احمد بلور نے دو کروڑ بیس لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔
عوامی حلقوں میں اس بات پر خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے کہ یہ ایک ہی حمام کے تمام ننگے اب عوام کے سامنے بھی ننگے ہو رہے ہیں اور عوام کو ان کی حقیقت سے آگاہی مل رہی ہے اور اب عوام ایسے کا لے کر توں والوں سے خود کو بچا پا ئیںگے ۔ کیو نکہ ایک طرف جعلی ڈگریوں والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا یا جا رہا ہے اور قرض نا دہندگان کو بھی ۔ جو کہ عوام کے ساتھ بہت بڑی بھلا ئی ہے ۔ عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ ان عوام سے غداری کر نے والوں کو کڑی سے کڑی سزادی جا ئے تا کہ ملک پاکستان گندے کیڑوں سے پاک ہو اور آئندہ کو ئی بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھو نک کر اقتدار کے نشے میں گم نہ ہو سکے۔
عوام کو دھوکہ دینے والے سیاست دانوں کو اللہ کی ایسی پکڑنے پکڑا ہے کہ ہر طرف سے یہ بے نقاب ہو تے دیکھا ئی دیتے ہیں ۔ کیو نکہ برطانیہ میں بھی سیاست دانوں کی خفیہ سرما یہ کاری کابھی انکشاف ہوا ہے ۔ جہاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں کئی دوسرے ممالک کے سیاست دانوںکا خفیہ سرمایہ کاری کا پول کھلا ہے اس میں خفیہ سرمایہ کاری کے حوالے سے برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ق لیگ کے مو نس الہی نے بھی 2006 ء میں برٹش ورجن آئی لینڈ میں کمپنی رجسٹرڈ کروائی۔گو کہ ق لیگ کے رہنماء مو نس الہی نے اس خبر کی تردید کی ہے۔
عوامی وسیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ق لیگ کے رہنما ء مونس الہی کا ماضی بھی سب کے سامنے ہے اور وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ ق لیگ کی قیادت نے پیپلز پارٹی سے کس وجہ سے دوستی کی اور مونس الہی کو کس طرح رہا ئی ملی ۔ تو اس وجہ سے ق لیگ کے رہنما ء مو نس الہی کے لئے برٹش ورجن آئی لینڈ میں کمپنی رجسٹرڈکرانا اور حفیہ سرمایہ کا ری کر نا بھی کو ئی بڑی بات نہیں۔
امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جا نچ پڑتال کا سلسلہ جا ری ہے ۔ اور یہ سلسلہ سات اپریل تک جا ری رہے گا۔ اور اس کے بعد جس امیدواروں کے کا غذات نامزدگی کو مسترد کیا گیا ہو گا ان کو تین دن دے جا ئیں گے ۔ اور امیدواروں کی حتمی فہرست انیس اپریل کو جا ری کی جا ئے گی ۔ایک طرف حلقہ این اے ساٹھ سے ن لیگ کے امیدوار سابق ایم این اے چوہدری ایاز امیر کے کاغذات نامزدگی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان کے کالموں جن میں نظریہ پاکستان کے بارے لکھا گیا تھا ان پر اعتراضات لگا کر مسترد کیا ہے۔
Chaudhry Ayaz Amir
چوہدری ایازامیر کا کہنا ہے کہ ہر کسی کا اپنا نظریہ ہے یہ میر ااپنا نظریہ اور رائے تھی جس کو بنیاد بنا کر میر ے کا غذات نامزدگی کو مسترد کیا گیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ن لیگ کے ہی پی پی تیئس سے امیدوار ملک ظہور انور اعوان بھی اسی بھنور کی کشتی کے مسافر بنتے دیکھا ئی دیتے ہیں ۔ میر ا کالم چونکہ جمعرات کی شام تک بھیجنا لازم ہے جس وجہ سے ن لیگ کے پی پی تیئس سے امیدوار ملک ظہور انور اعوان کے بارے تفصیل لکھنا منا سب نہیں کیو نکہ ان کے کیس کی نوعیت کے مطابق اعتراضات کی سما عت پانچ اپریل کو ہو گی۔
ملک ظہور انور اعوان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جو اعتراضات ملک محمد خان آف کوٹ قاضی نے لگا ئے ہیں وہ مضبوط نوعیت کے ہیں ۔ اس لئے حالات کشیدگی اختیار کر سکتے ہیں۔ اور اگر ن لیگ کو یہاں سے بھی دھچکہ لگتا ہے تو اس سے ن لیگ کی پوزیشن پرخاصہ اثر پڑے گا۔ اور اس سے مدمقابل امیدوار کو فائدہ ہو گا۔ کیو نکہ ن لیگ کے پاس پی پی تیئس سے مضبوط امیدوار ملک ظہور انور اعوان ہی ہے۔
باقی جہاں تک بات ہے پی پی تیئس سے ن لیگ کے ٹکٹ کے خواہش مند ملک اسد علی ڈھیر مونڈ کی تو وہ پہلے ہی بھنور میں ہے اور اس کے علاوہ اس کا ووٹ بنک اس نوعیت کا نہیں جس نوعیت کا ملک ظہور انور اعوان کا ہے ۔ ہاں اگر ملک ظہور انور اعوان کی سپورٹ حاصل ہو تو پھر ممکن ہو سکتا ہے ۔لیکن ن لیگ کی کشتی ضلع چکوال میں کچھ ایسے بھنور میں لگتی دیکھا ئی دیتی ہے کہ ان دو سیٹوں کے علاوہ حلقہ این اے اکسٹھ سے ن لیگ کے ٹکٹ کے خواہش مند ملک اسد علی ڈھیر مونڈ کے کاغذات بھی فون بلز کلیئرنس سرٹیفکیٹ نہ ہو نے کی وجہ سے پانچ اپریل تک روک دے گئے ہیں ۔ ان کے بارے بھی ابھی مزید کچھ کہنا ممکن نہیں کیو نکہ وہی عذر آڑے ہے ۔ کیو نکہ کالم چار اپریل کو بھیجنا لازم ہے۔
اس کے علاوہ سردار منصورحیات ٹمن اور سردار محمد فیض ٹمن بھی مقابلے کی پوزیشن میں دیکھا ئی دیتے ہیں ۔ کیو نکہ سردار منصورحیات ٹمن کا تحریک انصاف میں جانا جہاں منصورحیات ٹمن کے لئے بہتر ہو گا وہاں تحریک انصاف کے لئے بھی بہت حد تک بہتر ہو گا ۔تحریک انصاف کا اپنا ووٹ بنک تو اس حلقہ میں نہ ہو نے کے برابر ہے لیکن سردار منصور کے آنے سے اس مر تبہ خاموش ووٹ تحریک انصاف کے پلڑے میں پڑے گا ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ سردار منصورحیات ٹمن ہے بلکہ عوام کا اندرونی جھکا ؤ تحریک انصاف کی طرف ہے اور عوام صرف یہ چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس کو ئی مضبوط امیدوار بھی ہو جس کا اپنا ووٹ بنک بھی موجود ہو ۔جو کہ سردار منصور حیات ٹمن کے پاس مو جود ہے۔
گو کہ سردار منصورحیات ٹمن نے پہلے کی طرح بہت لیٹ فیصلہ کیا ہے لیکن پھر بھی بہتر ہے ۔منصورحیات ٹمن کو چاہیے تھا کہ وہ وقت سے پہلے ن لیگ یا تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہو جا تے تو آج ان کا ایک وزن ہو تا لیکن شائد وہ اس بات کی انتظار میں تھے کہ میاں برادران یا عمران خان ان کے پاس چل کر ٹمن ہاؤس آئیں گے تو اس وجہ سے انہوں نے اپنے فیصلے کو ابھی بھی دیر سے سنبھا لا دیا ہے ۔ جیسا کہ ابھی بھی تحریک انصاف کی قیادت کے کہنے پر سردار منصورحیات ٹمن نے قدم بڑھایا ہے۔
عوامی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سردار منصورحیات ٹمن ایک اچھا ،پڑھا لکھا سیاست دان ہے اس کو حلقہ کی عوام کی نما ئندگی کر نی چا ہیے لیکن دیر سے فیصلے کر نے والی کمزوری سردار منصورحیات ٹمن کی سیاسی ساکھ کو دن بدن کھوکھلا کر تی دیکھا ئی دیتی ہے۔ ضلع چکوال کا سیاسی گراف ابھی کسی فیصلے کا رخ دیکھا تا نہیںنظر آتا ۔ کیو نکہ جب تک ن لیگ کی طرف سے فائنل امیدواروں کا فیصلہ نہیں ہو گا تب تک یہ کہنا ممکن نہیں کہ کون سی پارٹی کیا کر ے گی اور کس پارٹی کی جیت ممکن ہے۔ہاں اس بار مذہبی ووٹ اثر دیکھا ئے گا۔
ایک بات عوامی نقطہ نظر سے بتاتا چلوں کہ ق لیگ نے جو فیصلے ٹکٹ کے کئے ہیں ان کے مطابق پی پی با ئیس پر سید تقلید رضا شاہ کے ساتھ بھی بہت بڑی زیادتی ہو ئی ہے ۔ بہت وقت پہلے بندہ نا چیز نے سابق ایم پی اے سید تقلید رضاشاہ کو اپنے کالم کی وساطت سے یہ کہا تھا کہ حافظ عمار یاسر کبھی بھی آپ کے حق میں فیصلہ نہیں ہو نے دے گا لیکن شائد تقی شاہ کو اس وقت اس بات کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔
سید تقلید رضاشاہ کے علاوہ پیر نثار قاسم جوجی کو بھی ن لیگ چھوڑ کر ق لیگ کا رخ کر نے سے اب یہ سمجھ آگئی ہے کہ ق لیگ کا ٹکٹ اپنے چہیتوں کے علا وہ کہیںنہیں جا تا ۔ جس وجہ سے ان کو بھی سفید جھنڈی کا سامنا ہوا ۔ کیا ق لیگ کے پاس کو ئی امیدوار نہیں کہ انہوں نے پی پی با ئیس سے ایک آزاد امیدوار کی سپورٹ کا اعلان کیا ہے ۔ اور اگر اپنے ق لیگ کا امیدوار لانا نہیں تھا تو پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی وجہ سے پی پی با ئیس سے ڈاکٹر علی حسنین نقوی کو الیکشن لڑنے دیا جا تا اور ان کی سپورٹ کی جا تی ۔ ق لیگ کے تمام فیصلے ٹکٹ تقسیم کے حوالے سے انتہا ئی ناقص پا لیسی کی نظر ہو ئے ہیں جو کہ ان کے لئے بہت بڑے نقصان کا شاخسانہ ہے۔