بلوچستان کو نظر انداز کرنا پاکستانی وفاقی حکومت کا ایک روایت رہا ہے جو آج آمریت سے لیکر جمہوریت تک جاری رہا ہے ۔ بلوچستان کو نظر انداز کرنا سیاسی تاریخ کا باب ہے ۔ حکومت تو نظر انداز کرتی ہے مگر حکومت کے خلاف جدوجہد کرے والے سیاسی رہنماؤں نے بھی بلوچستان کو نظر انداز کرنا اپنا فرض نما تصور ِخیال کی ہے ۔ تقریباََ اہم قوم پرست رہنماؤں کی ناراضگی اور پہاڑوں پر چلا جانا بھی وقت کے ناپاک حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ تھا۔
مگر بلوچستان کو سوتیلا بھائی سمجھنے والے ارباب ِ اقتدار کے ساتھ پاکستان کے آخری امید تصور کئے جانے والے مفادی سونامی لاپرواہ عمران خان نے بھی بلوچستان کو سیاسی روایت کے تحت نظر انداز کر دیا اور بلوچستان کے پی ٹی آئی کے سیاسی قیادت کو پہچانے سے ہمیشہ انکار کیاہے۔ جس سے ہزاروں نوجوانوں نے اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے تحریک انصاف اور خان سونامی خان کو خداحافظ کہہ دیا جس میں جعفرآباد کے سر گرم کارکنان بشیر احمد مستوئی ، آصف خان، اعجاز خان جیسے درجنوں کارکنان نے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت پر آخری اعتبار کرتے ہوئے شمولیت اختیارکی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی سیاسی نظام اور کارکنان کے ساتھ پارٹی قیادت کی تسلی بخش رابطہ ہی پارٹی کی جان اور فعال ہونے کے اسباب ہیں ۔ ایم کیو ایم کی اپنے کارکنان کوہمہ وقت سہارا اور ان کی جانی و مالی مدد نے انھیں الطاف حسین بھائی ( مرکزی سربراہ ایم کیو ایم) کا دیوانہ بنا دیا ہے ۔ بعض دیوانے کارکنان کا کہنا ہوتا ہے کہ انھیں گھر میں اتنی سہارا نہیں ملتا جتنا انھیں ایم کیو ایم کی قیادت سے ملتا ہے ۔ ایسا ممکن بھی ہے۔
بحر حال ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباس سمیت سندھ کے معتد شہروں کو اپنے سیاسی قبضے میں لے رکھا ہے ۔ ایم کیو ایم پر معتد حلقوں کا دہشت گردی کی الزام تراشی بھی بے پناہ لگتے رہتے ہیں جن کی دفاع کرنا ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں قابل فکر بات یہ ہے کہ ایسے الزامات سے ایم کیو ایم کی ساخت کو نقصان بھی نہیں پہنچتا ہے اور نہ ہی ایم کیو ایم کی سیاسی کارکنان کو بدزن ہونے کا راستہ ملتا ہے بلکہ اپنی سطح پر کارکنان بھی اپنی پارٹی کی دفاع میں ماہر نما نظر آتے ہیں۔
ایم کیو ایم نے پنجاب پر بھی سیاسی قبضہ کا خوب بہترین پلاننگ کی ہے بغیر اقتدارکے سیاسی کارکنان جمع کرنا تیزی سے شروع کی ہے جو ہر سیاسی جماعت کا حق بھی ہے۔ مجھے ایم کیو ایم کی بلوچستان میں قدم رکھنا ایک دشوار چیلنج محسوس ہوا تھا مگر کچھ عرصہ کے بعد اس کی تیزی سے مقبولیت نے مجھے بھی حکا بکا کر دیا میں سوچنے اور لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ ایم کیو ایم کی سیاسی پالیسی بہترین ہے کیونکہ بلوچستا ن جیسے صوبہ میں ایم کیو ایم کی سیاسی مقبولیت نے ایم کیوایم کو ہزاروں الطاف حسین کے جان نثا ر پیدا کئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی ، سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ میر جان محمد جمالی، اور موجودہ نگران وزیر اعظم حاجی ہزار خان کھوسہ سمیت سابق چار وزراء اعلیٰ بلوچستان، ایک سابق گورنر ، درجنوں سابق صوبائی و قومی وزراء کا شہر جعفرآباد جدید دور میں بھی یونیورسٹی ، ڈگری کالج ، ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ ، پکی سڑکیں ، سوریج ، اسٹریٹ لائٹ ، صاف پانیاور زرعی پیداوار کے لئے ایریکشن کی نظام جیسے دیگر درجنوں اہم ترین ضروریات زندگی کے لئے سالوں سے ترس رہے ہیں۔
National Assembly
لیکن آج تک کسی سیاسی قیادت اور منتخب رکن صوبائی و قومی اسمبلی نے 65سالوں سے کوئی ترقیاتی ، فلاحی کام نہیں کروئے ہیں البتہ سرکاری قلم بند کتابوں میں سینکڑوں ترقیاتی کام لکھے ہیں جو عوام نے آج تک اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھے ہیں جو اینٹی کرپشن والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ PB-26 جعفرآباد میں ہمیشہ دو سیاسی قبائلی شخصیات کے مابین سیاسی جنگ جاری ہو ا ہے کبھی کھوسہ قبیلہ تو کبھی جمالی قبیلہ نے اپنی اثرات مرتب کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ اگر ہم پچھلے دس سال کا ریکارڈ دیکھتے ہیں تو اس حلقے سے 2002 تا2007ء تک رکن قومی اسمبلی سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی اور PB-26 جعفرآباد صوبائی اسمبلی کا رکن ان کے بھائی میر عبدلرحمن جمالی رہے ہیں۔
اور 2008 تا2013تک قومی اسمبلی کا رکن میر جان محمد جمالی (ان کے وفات کے بعد ا ن کے فرزند بلا مقابلہ منتخب ہوئے ) ، سابق وفاقی وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی میر چنگیز خان جمالی اور PB-26 جعفرآباد میر ظہور حسین کھوسہ رکن صوبائی اسمبلی بنے اور تین سال بعد جعلی ڈگری کیس کے زمرے میں آکر نشست سے محروم ہو گئے اور پھر میر نعیم کھوسہ اورعبدالرحمن جمالی کے درمیان مقابلہ ہو ا آخر کا ر جمالی خاندان نشست فتح کرنے میں ایک بار پھر کامیاب ہو گیا۔
لیکن کھوسہ اور جمالی خاندان سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان اسمبلی نے PB-26 جعفرآباد کو مکمل نظرانداز کیا ہے ۔ کھوسہ مابین جمالی خاندان کی PB-26 جعفرآباد کے عوام کو نظر انداز کرنے کے بعد ایک باغی نے کھلم کھلا خاندانی و قبائلی سابق وزیر اعظم و وزراء اعلی ٰ بلوچستان کی سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کی پلیٹ فارم سے جاگیردارانہ و شخصی سیاست کا خا تمہ کرکے PB-26 جعفرآبادکے عوام کے ساتھ ہونے والی تمام نظر اندازی و من مانیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایسا بغاوت کرنے اور PB-26 جعفرآباد کے عوام کے حق میں سوچنے کا فیصلہ کرنے والا کھوسہ قبیلہ کے معتبر و معروف سیاستدار حاجی میر نصیر خان کھوسہ بھائی ہیں۔ جس نے عوام اور ایم کیو ایم کی تمام سیاسی ورکروں کے ساتھ ہمدردانہ نظریہ لیکر اس بار ایم کیو ایم کی ٹکٹ پرPB-26 جعفرآباد میں عام انتخابات میں حصہ لیا ہے ۔ عوامی حلقے میں ان کی مقبولیت میں اضافہ اُ و وقت دیکھا گیا جب انھوں نے جاگیر داری، شخصی اور سرداری نظام کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کرت ہوئے ایم کیو ایم میں الطاف حسین بھائی اعتماد کرئے ایم کیو ایم کے قافلہ کا حصہ بن گیا ۔ کافی سیاسی و قبائلی معتبرین نے ان کی اس ہمت کو داد دیتے ہوئے سیاسی ہمدردی کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
PB-26 جعفرآباد سے ایم کیو ایم کے امیدوار حاجی میر نصیر خان کھوسہ کی قیادت میں ایم کیو ایم کے کارکنان نے گھر گھر پیغام رسانی کا باقائدہ آسان طریقہ شروع کی ہے ۔ جاگیر دار اور شخصی سیاستدان حضرات کافی پریشان بھی ہیں۔ عوامی حلقے کے متابق ایم کیو ایم PB-26 جعفرآباد میںکافی مضبوط ہے فتح حاصل کرنے کے امکانات بہت زیادہ نظر آ رہے ہیں ۔ کیونکہ اس الیکشن میں چند سیاسی قلاباز میدان میں آنے سے قاصر رہ گئے ہیں۔
MQM Party
PB-26 جعفرآباد سے ایم کیو ایم کے نامزد امیدوار حاجی میر نصیر خان کھوسہ بھائی ،فیاض احمد کھوسہ بھائی نےPB-26 جعفرآباد کے عوام کے ساتھ کچھ اہم عہد کئے ہیں۔ جو PB-26 جعفرآباد کے عوام کے لئے خوش آئند ہے آج تک کسی نے عوام کے لئے اور جس نے ارباب اقتدار کے مزے چکھے وہ عوام کو ہی بھول گیامگر ایم کیو ایم کے نامزد امیدوار نے عوام کے ساتھ دعویٰ کیے ہیں کہ وہ ہر صورت میں مندرجہ زیل ترقیاتی کام کر وا کر ہی دم لئے اور PB-26 جعفرآباد کو کراچی نما ہی بنا ئے گا اور ایم کیو ایم کا گڑھ بنانے کے لئے جدوجہد شروع کر دی ہے اسی لئے انھوں بغاوت کر کے سابق ضلعی ناظم و معتد سیاسی شخصیات کا مقابلہ PB-26 جعفرآباد پر کے انھیں شکست دے گا۔
متحدہ قومی مومنٹ جعفرآباد کا منشور 98 فیصد غریب متوسط طبقے کے لئے جدو جہد کرنا۔ K.K.F کے ہسپتال کا سنگ بنیاد ڈیرہ اللہ یار کے شہر کے لئے ۔ ڈیرہ اللہ یار میں کراچی کی طرح کارپیٹڈروڈ کا جال بچھانا۔ ڈیرہ اللہ یار کے عوام کے لئے واپڈا گریڈ اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ڈیرہ اللہ یار میں معذور ، گونگے اور بہرے افراد کے لئے سکول کا قیام۔ ڈیرہ اللہ یار شہر کیلئے بچاؤ بند کا قیام اور سیلاب کے روک تھام کا بندوبست کیا جائے گا۔ شوگر مل کا قیام جس میں 4000 سے زائد غریب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا۔ شہر کے تمام اسٹریٹ میں شمسی لائٹ اور مضبوط ترین سیوریج نظام اور آب کی آسان نکاسی کی بہترین سہولیات جو شہر یوں کے مرضی بنایا جائے گا اور ہر محلے اور گاؤں میں پانی کی فلٹر پلانٹ کا قیام ۔پورے حلقے میں گیس اور بجلی فراہمی کی جائے گی۔
کرپشن سے صاف معاشرہ بنایا جائے گااور بیوہ عورتوں کے لئے کشیدہ کاری سینٹر عمل میں لائے جائے گا۔ غریب کسانوں کو جاگیر داروں کے جال سے نجات دلانا۔ہر گاؤں میں پرائمری بوائز اور گرلز سکول لازمی کھولے جائے گے۔ کاشتکاروں کیلئے بلاسودقرضوں کا آسان شرائط پر فراہمی کا بندوبست کیا جائے گا۔ بحرحال باتیں اور منشور تو سب اچھی اچھی پیش کرتے ہیں مگر عمل کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے البتہ ایم کیو ایم کی مجھے ایک پالیسی اچھی لگتی ہے کہ اپنے اندر ایک باقاعدہ ضابطہ اخلاق اور سخت نظم و ضبط ہے جس سے کارکنان کو کسی سے شکایت بھی نہیں رہتی ہے۔
کارکنان کو ان کے مسائل ان کے دروازے پر ہی حل ملتے ہیں جس سے ان کی پارٹی جزبہ برقرار ہو جاتا ہے ۔PB-26 جعفرآباد میں ایم کیو ایم کا امیدوار کافی مضبوط ہے اسے سیاسی قلابازوں و سیاسی ماہروں کو شکست دینے کے لئے جدو جہد کی مزید ضرورت ہے اور عوامی کے ساتھ وعدہ وفاکی ضرور ت ہے ۔ و دیگر صورت PB-26 جعفرآباد میں یم کیو ایم کو ایک چیلنج کافی مہنگی پڑھ سکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے لئے اس لئے آسان چیلج ہے کہ اس سے قبل ان سیاسی قلابازوں کے خلاف کوئی باہمت امیدوار میدان میں نہیں آیا تھا کہ عوام ان سیاسی قلابازوں سے یک طرف ہو کر ایک ہونہار و ایماندار کو ووٹ کرتے اور اسے اسمبلی میں روانہ کرتے مگر حالات نے اب عوام کو مجبور کیا ہے دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم کے امیدوار حاجی نصیر خان کھوسہ بھائی کے علاوہ تمام امیدوار آزمائے ہوئے تیر ہیں جو نشانہ سے ہٹ کر پڑے ہیں۔