غربت کے ہاتھوں تعلیم سے محروم بچے!معاشرے کیلئے المیہ

Children

Children

بچے جو کسی بھی ملک اور قوم کا مستقبل یعنی سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں۔ جب حالات اس قدر پیچیدہ ہو جائیں یا کر دیئے جائیں تو یہ بچے مجبور ہوکر کھیلنے، کودنے اور پڑھنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔یہ بات یقینا ہمارے معاشرے کے لئے کسی المیے سے کم نہیں۔ یہ ایسا المیہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کے یہ زخم ناسور بن کر سماج کا چہرہ داغدار اور بدصورت بنا دے ، اس اہم مسئلے کی طرف اربابِ اختیار کو توجہ دینے کی اشد ضرور ہے۔

ہمارے ملک میں بھی معاشی بدحالی ، بنیادی سہولیات سے محرومی ، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے اس المیئے کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جو اس ناسور کا سامنا کر رہی ہیں مگر ہمارے ملک میں اس کی شرح قدرے زیادہ ہے۔ ہمارے ملک میں تو چائلڈ لیبر کو ایک سماجی ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ امیروں کے امیر ترین ہونے کے ساتھ غریبوں کے غریب تر ہونے پر نہ ہی کبھی قابو پانے کی جستجو کی گئی اور نہ ہی آج اس مسئلے کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔

اسی وجہ سے غریب والدین اپنے بچوں کی تعلیم سے کم اور مزدوری سے زیادہ دوستی کا درس دیتے نظر آتے ہیں تاکہ ان کے گھروں کا چولہا جلتا رہے۔ کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں ضروریاتِ زندگی کو جاری رکھنا نہایت ہی دشوار ہو چکا ہے۔ حکومت تمام تر دعوئوں کے باوجود ابھی تک چائلڈ لیبر پر کنٹرول نہیں کر سکی ہے اور یوں نونہالانِ وطن آج بھی تعلیم سے کوسوں دور ہیں۔

یوں تو دنیا بھر میں مزدور بچوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پانچ سے چودہ سال کی عمر کے پچیس کروڑ بچے غربت کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا ملک بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں وسائل کی کمی اور مہنگائی کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح نے غریب والدین کو اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے نونہال بچوں سے بھی محنت کروا رہے ہیں۔ وطنِ عزیز میں غربت اور مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور بقول ادارہ شماریات کے یہاں مہنگائی کا تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔

Poverty Pakistan

Poverty Pakistan

اس وقت تیرہ کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ شرح غربت ساٹھ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اور لوگ یہاں غربت، تنگ دستی سے تنگ آکر خود کشیوں کی طرف راغب نظر آتے ہیں۔میرے چمن کے پھولوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سفاکی کسی بھی طرح قابلِ ستائش نہیں مگر کیا کہنا ہمارے ملک کا بلکہ ملک کے جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد جن میں اسلام آباد کو پاکستان کا دارالخلافہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔ اس کے باوجود اسی اسلام ااباد کا حال ایسا ہے کہ آج اس کے خطے میں چائلڈ لیبرز کی تعداد سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔

شہریوں کو بھی اس بات پر بہت زیادہ تشویش ہے مگر وہ کچھ کہنے کے بجائے خاموشی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جب یہاں چائلڈ لیبر کی اتنی وافر مقدار موجود ہے تو باقی شہروں کا کیا حال ہو سکتا ہے اس کا اندازہ آپ سب بخوبی لگا سکتے ہیں۔ایک غریب بچہ صبح مجھے ملا تو وہ بھری ہوئی وین میں لٹک رہا تھا میں نے اسے روک کر پوچھا کہ اتنی جلدی کیا ہے خالی بس میں چلے جانا ، مگر بچہ نہ مانا اس کا کہنا تھا کہ مجھے کام پر پہنچنا ہے۔ مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ یہ چھوٹا سا بچا کس قدر مشکل سے کام کرنے کے لئے جا رہا ہے جبکہ اس کی عمر صرف پڑھائی کی ہے۔

آج اس بچے کا حال یہ ہے تو کل اس کے مستقبل کا کیا بنے گا ، ایسے بچے یہ کہنے میں حق بہ جانب نظر آتے ہیں کہ اگر میں اسکول چلا گیا تو میر گھر کی روٹی دال اور دوا کا کیا بنے گا، میری بیمار ماںکا کیا بنے گا، اور میری بڑی بہن کا کیا بنے گا جس کے سر میں اترنے لگی ہے چاندی وہ سسرال کیسے جائے گی۔ اللہ اکبر!عالمی لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بچوں سے مزدوری لینے کے کام میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ملکوں کے سربراہوں سے یہ امید ہے کہ وہ یہ غیر قانونی کام کو ختم کرانے میں اپنے اپنے ملکوں میں قانون سازی پر توجہ دیں گے تاکہ جلد از جلد اس موذی ناسور سے چھٹکارا پایا جا سکے۔

تاہم تنظیم کے مطابق اس وقت پاکستان میں ہزاروں بچے چوڑیاں بنانے، سرجیکل آلات کی صنعت، کوئلے کی کانوں، گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے کاروبار اور چمڑے کے کارخانوں میں کام کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ ڈینٹنگ، پینٹنگ، موٹر سائیکلوں کی دکانوں ، ورکشاپوں ، کارخانوں اور ہوٹلوں پر لاکھوں کے حساب سے بچے محنت مزدور ی کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں غالباً درج ہے کہ چودہ سال سے کم عمر کا کوئی بچہ کسی فیکٹری ، کان یا اور کوئی خطرناک ملازمت نہیں کر سکتا اس کے علاوہ ہر طرح کی جبری مشقت بھی ممنوع ہے مگر ہماری حکومت ابھی تک مہنگائی اور چائلڈ لیبر پر کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ قوانین بھی بنائی گئیں مگر تاحال اس پر مکمل عمل در آمد دیکھنے میں نہیں آ سکا۔

Child Labour

Child Labour

ویسے تو ہم سب ہر سال پوری دنیا میں یکم مئی کا دن بلا رنگ و نسل، زبان، نسل ، قومیت، مذہب اور عقیدے کے ببانگِ دہل مناتے ہیں اور دنیا کے محنت کش شکاگو کے شہداء کو اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دادِ ستائش بھی دیتے ہیں ، اس پر اعتراض نہیں کہ ہم یہ دن مناتے ہیں بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اس ناسور کے خاتمے کے لئے کام کیا جائے ، کوئی تو ہوگا جو اس کی شروعات کرے انتہا تک اللہ تعالیٰ پہنچا ہی دے گا۔ کوشش اور لگن ساتھ ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ ہم سب عام تعطیل تو مزدوروں کے نام پر منانے پر فخر کرتے ہیں مگر اس چائلڈ لیبر کے لئے کوئی احتجاج تک نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے یہاں چائلڈ لیبر ز کی تعداد گھنٹوں کی سطح پر بڑھ رہا ہے۔

اور کوئی بھی داد رسی کرنے والا نہیں۔ یومِ مئی اب تو بہرحال ایک تہوار بن چکا ہے، ہر برس آتا ہے اور اپنے ساتھ کتنے ہی سوالات لاتا ہے اور پھر اگلے برس تک یہ سوالات جواب طلب رہتے ہیں ، کیا اسی کا نام ہے یومِ مزدور۔ حیرت ہے کہ عوام اور مزدوروں کے نام پر حکومتیں قائم تو ہوتی ہیں مگر مزدور کے نام پر مزدور کا ہی استحصال ہو رہا ہے۔ ارضِ وطن میں ہوشربا تعلیمی اخراجات اور مہنگائی میں اضافے کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے اس لئے ضروری امر یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ہی اقدامات کا انتظار کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے خاتمے کے لئے معاشرے کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔

اور غربت و افلاس سے تنگ ہوکر مزدوری کرنے والے چائلڈ لیبر بچوں کو مفت تعلیم، علاج و معالجہ اور کفالت کی فراہمی کے ذرائع دینا ہونگے۔ این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اس کے خوفناک اسباب کے خاتمے کے لئے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مستقبل قریب میں ہمارے ملک کے بچے بھی تعلیم کے زیور سے آرستہ ہو سکیں۔
کب تک سر پر منڈلاتے یہ سائے رہیں گے
کب تک بھوک اور ننگ کے بادل چھائے رہیں گے
کب تک اپنی دھرتی سونا نہ اُگلے گی
کب تک ہم جھولی کو یوں پھیلائے رہیں گے
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی