یہ واقعہ سیرت نبوی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ منافقین کی طرف سے خانوادہ نبوی کو نشانہ بنانے کی سب سے بڑی کوشش تھی جس میں سیدہ عائشہ پر بدکاری کی تہمت لگائی گئی۔اس الزام کی بنا پر سیدہ اور ان کے گھر والے خصوصا ان کے والد حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ اور سب سے بڑھ کر ان کے شوہر رسول خدا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخت ذہنی اذیت سے دوچارہوگئے۔
اس دوران میں تمام مسلمان بھی گومگو اور باہمی اختلاف و انتشار کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ایک مہینے تک بہتان تراشی اور ایذا رسانی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔اس کے بعد کہیں جاکر سورہ نور میں حضرت عائشہ کی برا ت اللہ تعالی نے خود نازل کی اور یہ طوفان تھما۔
قرآن مجیدکے ایک طالبعلم کے سامنے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس واقعے کی تردید میں ایک مہینہ کیوں لیا؟ وہ چاہتے تو پیدا ہوتے ہی مسئلے کو ختم کردیتے۔ نہ اہل بیت نبی اس اذیت سے گزرتے نہ سیدہ کا خاندان اتنی پریشانی اٹھاتا اور نہ مسلم معاشرے ایک مہینے تک ایسے انتشار کا شکار رہتا جس میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑے کی نوبت آجاتی۔
جو وحی ایک مہینے بعد اتری وہ اگلے دن بھی اترسکتی تھی۔ انسانوں کی عام نفسیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عالم الغیب پروردگار کی یہ خاموشی بظاہر سیدہ کے خلاف ان کا فیصلہ معلوم ہوتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ بعض انتہائی مخلص صحابہ جن میں حضرت حسان بن ثابت کا نام سر فہرست ہے اس جھوٹی مہم جوئی کا شکار ہوکر سیدہ پر الزام لگانے والوں میں شریک ہوگئے۔
تاہم قران کریم نے سیدہ کی برات میں جو کچھ کہا اس میں اس حکمت الہی کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے کہ کیوں اللہ رب کریم نے اپنے محبوب نبی اور ان کی محبوب اہلیہ کی اتنی ذہنی اذیت گوارا کیا اور پھر کہیں جاکر ایک مہینے کے انتظار کے بعد ان کے حق میں وحی اتاری۔
قرآن مجیدکے اس بیان سے جوسورہ نور(24)آیت 11تا18پر مشتمل ہے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی حکمت کیا تھی۔ ہم اسے ذیل میں بیان کررہے ہیں۔
1 )کسی بے گناہ پر الزام و بہتان لگانا اگرچہ سنگین ترین اخلاقی جرائم میں سے ایک ہے تاہم یہ ہمیشہ انسانی معاشروں کا حصہ رہا ہے اور رہے گا۔نزول قرآن کے وقت تو وحی کرکے کسی کی برات کا فیصلہ کیا جاسکتا تھا، مگر عام لوگوں کے لیے یہ فیصلہ قیامت کے دن ہی ہوگا۔اسی لیے اللہ تعالی نے ایک ماہ تک انتظار کرکے یہ دیکھا کہ لوگ اپنے طور پر ایسے معاملات میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
Allah
جب لوگوں کا اختلاف ختم نہ ہوا بلکہ مخلص ترین لوگ اس مہم جوئی کا شکار ہوگئے تو اللہ تعالی نے اس مہم جوئی کو افک یعنی جھوٹ قرار دے کر سیدہ کی پاکدامنی کا اظہار خود کیا لیکن ساتھ میں یہ واضح کیا کہ ایسے مواقع پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے متعلق نیک ہی گمان کرنا چاہیے تھا۔کیونکہ الزام و بہتان کی کسی مہم میں ایک طرف مہم جوئی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
دوسری طرف اس مہم کا نشانہ بننے والا شخص۔ ایسے میں عام لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہمیشہ حسن ظن سے کام لیں۔وہ ایسی کسی بات کو سنتے ہی کہہ دیں کہ یہ بہتان ہے اور ہمیں حق نہیں کہ ہم ایسی کوئی بات زبان پر لائیں۔ اس کے برعکس بغیر علم و تحقیق کے اس بات کو آگے پھیلانا، خود ایک منفی رائے قائم کرنا، دوسروں کی رائے سازی کرنا ایک بہت بڑی بات اوراللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
2) سیدہ کے معاملے میں بہتان تو زنا کا لگایا گیا تھا ، مگر تردید کرتے وقت قرآن مجید نے زنا کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید الزام و بہتان کے اس رویے پر تنقید کو صرف زنا کے الزام کی حد تک محدود نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے پیش نظر یہ بات ہے کہ کسی مسلمان پراگر کسی اور پہلو سے بھی کوئی سنگین الزام لگایا جائے، جس طرح آج کل مسلمانوں کی نیت اور ان کے ایمان پر براہ راست حملے کرکے انہیں کافر اور گمراہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس رویے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے۔کسی کی عزت پر حملہ کرنا بڑا سنگین جرم ہے، مگر اس کے ایمان اور نیت کو ہدف بنانا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو سمجھا اور اس کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہمیں ملتی ہیں جس میں واضح کیاگیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود اپنے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وہ دینی تعلیم ہے جس کا سمجھنے والا ہمیشہ اس بات میں محتاط رہے گا کہ کسی مسلمان پر کفرو گمراہی کے فتوے دے یا اس طرح کی چیزوں کو آگے بڑھائے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اپنا ایمان سلب ہوجاتا ہے۔
3) جو لوگ اس وقت الزام لگارہے تھے ان سے کہا گیا کہ وہ چار گواہ لے کر آئیں۔یہ بات عقل عام سے سمجھی جاسکتی ہے کہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے چار لوگوں کے سامنے نہیں۔چنانچہ بہت سے لوگ اس بنا پر قرآن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے شرط ہی وہ رکھی ہے جو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ مگردرحقیقت الزام کو ثابت کرنے کے لیے اتنی سخت ترین شرط لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرے میں الزام لگانے کی سوچ کو ختم کیا جاسکے۔ جب تک کہ ناقابل تردید ثبوت میسر نہ ہوں، کسی بھی شخص کے خلاف کسی پہلو سے زبان نہ کھولی جائے۔
Allah
یہ چند نکات ہیں جو اس عظیم حکمت کا بیان ہیں جس کی بنا پر سیدہ کی برا ت ظاہر کرنے میں اللہ تعالی نے ایک ماہ لیا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ عام مسلمانوں کی تربیت کرکے ان پر واضح کیا جائے کہ ایسے معاملات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا باہمی انتشار شیطان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہ انتشار ہمیشہ الزام و بہتان کی نفسیات سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو الزام و بہتان لگاتے ہیں۔ انہیں روکانہیں جاسکتا۔ اصل ذمہ داری عام مسلمانوں کی ہے کہ وہ کبھی کسی مہم جوئی کا حصہ نہ بنیں۔ ہمیشہ حسن ظن سے کام لیں۔
وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے نہ پھیلائیں۔وہ پوری تحقیق اور یقین کے بغیر کسی شخص کے بارے میں کوئی بات زبان سے نہ نکالیں۔ کسی کی جان،مال، نیت، ایمان، آبرو پر حملہ بدترین جرم ہے جو ایمان کو غارت کردیتا ہے۔قیامت کے دن جب اصل زندگی شروع ہوگی تو ایسے جرائم کی سزا دیکھ کر لوگ خواہش کریں گے کہ کاش ان کی زبان ہی نہ ہوتی جس سے وہ بولتے اور ان کے ہاتھ ہی نہ ہوتے جن سے وہ لکھتے۔ تحریر : عبداللہ احمد