کراچی(جیوڈیسک)کراچی محمد رفیق مانگٹامریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق کئی اربوں ڈالر مالیت کے اسلحے کی عالمی تجارت پر کنٹرول کے اقوام متحدہ کے حالیہ معاہدے نے بھارت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ ان کے دفاعی سازسامان کی خریدو فروخت اور استعمال کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
بھارت نے ابھی اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ وہ اس معاہدے کے خدوخال پر غور کررہا ہے، پھر اس پر دستخط کے بارے فیصلہ کر ے گا۔معاہدے کے تحت دستخط کرنے والے ممالک کو اسلحہ کی خریدوفروخت کی سالانہ اقوام متحدہ کو رپورٹ دینا ہوگی۔بھارت کو خدشہ ہے کہ ایکسپورٹرز بھارتی اسلحہ کے استعمال پر تشویش ظاہر کرکے ان کی شپمنٹ کو روک سکتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی فوج کی مبینہ خلاف ورزیوں پر شدید تنقید کی ہے بھارتی فوج کے کشمیر اور تامل باغیوں کے خلاف مظالم پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آوازیں بلند کررہی ہیں۔ بھارت اسے دہشت گردی سے داخلی لڑائی قرار دے رہا ہے۔دنیا کا سب سے بڑا سلحہ ایکسپورٹر ہونے کی وجہ سے بھارت ہتھیاروں کو جدید بنانے میں سالانہ 30ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔بھارت 70فی صد انحصار امپورٹ شدہ دفاعی سازوسامان پر کرتا ہے۔
جب کہ حکومت کا دباو کہ وہ مقامی طور پر تیا ر کردہ دفاعی سازوسامان پر انحصار کرے۔بھارت کا زیادہ تر انحصارروس کے سازوسامان پر ہے لیکن آج کل امریکا،برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل سے بھی دفاعی سازوسامان لے رہا ہے۔2020تک بھارت سالانہ65.4ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کرے گا۔ رپورٹ کے مطابق جن ممالک نے اس معاہدے کی مخالفت کی یا ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ،وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتے ہیں اگر انہیں یہ خدشہ ہوا کہ انہوں نے دستخط نہ کیے تو وہ عالمی اسلحہ کی سودا بازی سے باہر ہوسکتے ہیں۔
یہ معاہدہ اسلحہ کی سپلائی کے متعلق ضوابط ہیں جن کا مقصد ہتھیاروں کی فراہمی میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو روکنا ہے۔اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتے سادہ اکثریت سے عالمی سطح پرہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ منظور کیا۔دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے برآمد کنندہ امریکا سمیت اس معاہدے کی حمایت میں154 رکن ممالک نے ووٹ دئیے۔صرف شمالی کوریا،شام اور ایران نے اس کی مخالفت کی۔
بڑے برآمدکنندگان ممالک چین اور روس اور بڑے درآمدکنندگان بھارت،انڈونیشیا اور مصر سمیت23ممالک نے اس معاہدے کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔بھارت جو بڑا اسلحے کا امپورٹر ہے وہ اس معاہدے کی شرائط کو پورا کرنا نہیں چاہتا اس لئے وہ تشویش کا شکار ہے۔
بھارت فکر مند ہے کہ اگر اس معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کیا گیا تو اسلحہ ایکسپورٹرز ممالک ہتھیاروں کی فراہمی میں ان شرائط کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک درآمد کنندہ کی احیثیت سے ہمیں تشویش ہے کہ اس میں نہ تو مستقبل کے بارے کوئی واضح صورت حال ہے اور نہ درآمد کنندہ کے لیے استحکام کا خیال رکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ معاہدہ بین الاقوامی قانون بننے میں کچھ وقت لے سکتا ہے۔عموما اقوام متحدہ کے رکن ممالک کسی بھی معاہدے کی توثیق سے قبل اتفاق رائے قائم کرلیتے ہیں۔لیکن اسلحہ تجارت معاہدہ انتہائی متنازع ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ نے سادہ اکثریت سے اسے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔امریکا کو بھی سینیٹ اس معاہدے کی توثیق میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔