دنیا کی تاریخ کئی ایسے انقلابی واقعات سے بھری پڑی ہے جہاںعوام نے انتخابات میں اپنے ووٹوں کی قوت سے جمہوری سیاسی اور معاشی انقلاب برپا کئے ۔ مغرب کے امیر ترین ممالک کے سائنسی معاشی سماجی اور سیاسی انقلابات کا راز جمہوریت اور انتخابی عمل کے باقاعدہ تسلسل میں پنہاں ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں برادری ازم لسانیت اور فرقہ وارانہ گروہی تضادات کی بجائے عوام کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کا دانشمندانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان چند ہفتوں بعد گیارہ مئی کونئے الیکشن کی جانب بڑھ رہا ہے ۔جوں جوں پولنگ ڈے قریب اتا جارہا ہے ووٹرز کی دلچسپی میں ہوشربا تیزی ارہی ہے۔
قوم پر بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے اہل امیداروں کو میرٹ پر ووٹ دے جو منتخب ہونے کے بعد ایک طرف اپنے حلقہ انتخاب میں خوشحالی اور ہریالی کا عمل پورے زوق شوق سے شروع کریں تو دوسری طرف منتخب نمائندگان پارلیمان میں ملک و قوم کے روشن مستقبل کی خاطر زاتی مفادات سے بالاتر ہوکر صحت مندانہ قومی امور پر توجہ مرکوز کرسکیں۔
عوام پارٹیوں اور امیدواروں کے پرفریب نعروں اور دلکش منشور کے جھانسے میں انے کی بجائے انکی کارکردگی اور ماضی کے کردار کا تجزیہ کرنا چاہیے۔کوٹ ادو ریاست کی ایک غریب اور پسماندہ تحصیل ہے۔ دھرتی کوٹ ادو ماضی میں وڈیروں اور جاگیرداروں کے چنگل میں مقید رہی ہے۔ کوٹ ادو کے قومی حلقہ176 نے کئی شہرہ افاق سیاسی اور حکومتی رہنما پیدا کئے جو چیف منسٹر اور گورنر کے تخت پر جلوہ افروز رہے۔
وفاقی وزارتوں تک جا پہنچے۔ نواب مشتاق گورمانی پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔کوٹ ادو کومشرف دور میںم ضلعی نظامت مظفرگڑھ کا عہدہ نصیب ہوا۔ na176 پر ق سے ن تک ہجرت کرنے والے سلطان ہنجرا ضلع ناظم بنے اور اب سلطان ہنجرا صاحب قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔
مگر دکھ تو یہ ہے وڈیروں گودوں اور خود ساختہ شیروں نے ووٹرز کو ہمیشہ اپنا باجگزار سمجھا اور کبھی ووٹرز کی فلاح و بہبود اور انکے زخموں کا اندمال کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی۔وڈیروں کے شوق بھی نرالے ہیں۔کھر صاحب کو کتوں سے عشق عظیم ہے۔کوٹ ادو میں ایک طرف ہزاروں مظلوم ووٹرز کو ایک وقت کی روٹی نہیں ملتی مگر دوسری طرف گودوںکے کتے روزانہ سینکڑوں لٹر دودھ ملک شیک اور بکرے کا گوشت کھاتے ہیں۔ جہازوں کی سیر کرتے ہیں۔
Election Commission
na 176 سے سلطان ہنجرا غلام عباس قریشی مصطفی کھر سابق گورنر اورppp کے شبیر محسن علی قریشی الیکشن لڑنے والے معروف امیدواروں میں شامل ہیں۔کھر صاحب اور ہنجرا صاحبان کئی مرتبہ پارٹیاں بدل چکے ہیں۔کیا زاتی مفاد کی ہوس میں پارٹیوں کو چھوڑنا بے ضمیری اور احسان فراموشی کی انتہا نہیں ہے۔
کیا ووٹرز کی خواہشات کو پھانسی دینے والے سیاسی رہنما ووٹ کے حقدار ہوسکتے ہیں؟ کیا مخالفین پر جھوٹے پرچوں کا ایٹم بم مارنے کے شوقین گودوں کی سیاسی سپورٹ کرنی چاہیے۔ عوام سے1997 تا 2013 ۔ 16 سال دور رہنے والے کھر صاحب کو ووٹ دینا دیانتداری ہوگی یا فسوں کاری ؟اسکا فیصلہ کرنا ووٹرز کا حق ہے۔
2002 اور2008 میں مظلوم محکوم کسانوں مزدوروں دانشوروں اور تعلیم یافتہ افراد کی حمایت سے محسن علی قریشی نے وڈیروں کے سیاسی ظلم کدوں کو پاش پاش کردیا۔ محسن علی قریشی پی پی پی کے ٹکٹ پر دو مرتبہ کھروں ہنجراوں اور گودوں کو شکست دی۔محسن علی قریشی کے پچھلے5 سالہ دور اقتدار میں حلقہ176 میں ریکارڈ ساز ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔
کوٹ ادو چوک منڈا رنگ پور میں447 چکوک اور دیہاتوں کو بجلی کی سہولت فراہم کی گئی۔ ہیڈ محمد والہ کی سائنسی بنیادوں پر تکمیل ایک سنگ میل اور تاریخ ساز کارنامہ ہے۔35 ہزار گھروں کو بینظر انکم سپورٹ پروگرام کی سہولت کوٹ ادو سٹی میں45 کلومیٹر سوئی گیس کی فراہمی چھوٹے قصبوں احسان پور چوک منڈا دائرہ دین پناہ کو سوئی گیس کی فراہمی۔
Electricity Meters
13 ارب کی لاگت سے ٹی پی لنک کینال کی پختگی کا اغاز کوٹ ادو چوک منڈا سیورج سسٹم32 ہزار بجلی میٹرز اور نیو کنکشن کی فراہمی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکوں کی تعمیر چوک منڈا اور رنگ پور میںنادرا دفاتر کا قیام4400 مریض ووٹرز کا علاج38 ہزار شناختی کارڈز کی فراہمی سینکڑوں نوکریاں دائرہ منڈا ڈبل روڈ کوٹ ادو میں دس کروڑ کی ٹف ٹائل اور بے شمار پراجیکٹس محسن علی قریشی دور کے کارہائے نمایاں ہیں۔
ہم عوامی فلاح بھلائی اور علاقائی ترقی کے لئے ناگزیر تصور کئے جانیوالے پراجیکٹس کا نامہ اعمال ساتھ لیکر عوام کی عدالت میں جارہے ہیں۔ ہماری خواہش ہے عوام ہمارا احتساب کرے۔ ووٹرز میرٹ پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔ ہم محسن علی قریشی ex mnaکے طرز سیاست کی تقلید کریں گے۔
مظلوم طبقات کی سرپرستی ظالم جاگیرداروں خود ساختہ شیروں وڈیروں کے ساتھ ہماری جنگ جاری رہے گی۔درویش کا قول ہے کہ بے ضمیر لوٹوں وفاداریاں فروخت کرنے والے امیدواروں بھتہ خوروں قبضہ گروپوں لینڈ مافیاز لکڑی چوروں کی سرپرستی کرنے والے بونے امیدواروں اور گودوں کو ووٹ دینا اسلامی روایات اور جمہوریت کی توہین کے مترادف ہے۔ تحریر : ڈاکٹر شبیر علی قریشی