اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو تعلیم ،صحت ، معاشی انصاف کی بحران اور دہشت گردی، لاقانونیت ، کرپشن جیسے سنگین مسائل کی شکار ہے ۔ اس وقت پاکستان میں روزانہ 8 سے 10 ارب روپیہ کی حکومتی سطح پر کرپشن ہوتی ہے ۔ آیا روز پاکستان میں سینکڑوں لوگ دہشت گردی کی وجہ نے گناہ قتل بھی ہوتے ہیں ، تعلیم حاصل کرنے کے لئے 2کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کے پاس سہولیات میسر ہی نہیں جو بغیر تعلیم کے بالغ ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں مسائل ہیں جن سے پاکستانی عوام کے سمیت پوری دنیا بخوبی واقف ہی ہیں۔
حکمرانوں سے سوال پوچھی جاتی ہے تو اس کا زمہ دار دہشت گردوں کو قرار دیتے ہیں مان لیتے ہیں کہ دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔دوستوں ! میرا عرض یہ ہے کہ دہشت گردی آج کی نسل کا مسئلہ نہیں بلکہ ابو الانبیاء حضرت آدم علیہ اسلام کی اولاد ہابیل و قابیل سے شروع ہوا ہے جو آج تک نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو ہمشیہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ پاکستان کے اوپر چند ایک ممالک کی عرصہ بعید سے نظر ہے ۔ جو پاکستان کو اپنی قبضہ میں لینا چاہتے ہیں اسے اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ یہ غلام بنانے کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ کسی دور میں برصغیر پر بھی قبضہ کر چکے ہیں۔ جن سے لاتعداد قربانیوں کے ساتھ واپس لیا گیا۔ کمزور یا وسائل سے مالا مال ریاست پر بری نظریں ہر اک کی عرصہ بعید سے جاری ہے ۔ ا س کی مثال ہم دور نہیں پڑوس کے ایک شہر ہی سے لیتے ہیں کہ جو قبل از مسیح 3000سال سے آباد ہے جو ہمیشہ اس قبضہ کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جان کی دشمن بنی ہے ۔کابل اسلامی جمہوریہ افغانستان کو دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 20سے 30لاکھ کے درمیان ہے ۔ دریائے کابل کے ساتھ تنگ وادی میں قائم یہ شہرمعاشی و ثقافتی مرکزہے۔ کابل ایک طویل شاہراہ کے زریعے غزنی، قندھار ،ھرات،اور مزار شریف سے منسلک ہے۔ یہ جنوب مشرق میں پاکستان اور شمال میں تاجکستان سے بھی بزریعہ شاہراہ جڑا ہوا ہے۔ یہ سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار میٹر بلند ہے کابل کی اہم مصنوعات اسلحہ اور فرنیچر ہیں۔
لیکن 1979ء سے جنگ اور خانہ جنگی کے باعث پیداوار اور معیشت کو شدید نقصان ہوا ہے۔کابل کثیر الثقافتی اور کثیر النسلی شہر ہے۔ جہاں افغانستان بھر سے مختلف نسل کے لوگ رہائش پذیر ہیں ان میں پشتون، تاجک ، ازبک ،ہزارہ ، بلوچ و دیگر شامل ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ ، خانہ جنگی اور تبائی نے اس کی آبادی و عوام کی سکون دیمک کی طرح کھالیے ہیں۔ عوام امن و امان کی صورتحال کے واسطے دعائیں مانگتے پھرتے ہیں۔ کابل قدیم تاریخی شہر ہے۔تاریخ میں کابل کا پہلا حوالہ 1200 قبل مسیح میں کوبھا نامی شہر سے ملتاہے۔جوموجودہ کابل کی جگہ قائم تھا ۔ پہلی صدی قبل مسیح میں شہر موریاؤں کے قبضے میں آیا۔پہلی صدی میں کوشان اور بعد ازاں ہندو اس کے حکمران بنے۔664ء میں عربوں نے کابل فتح کر کے اسے اسلامی حکومت میں شامل کرلیا۔
Ghaznavi
اگلے 600ء سالوں تک شہر سامانی، ہندو شاہی، غزنوی ، غوری اور تیموری حکمرانوں تحت رہا ۔674ء میں جب اسلامی فتوحات خراسان تک پہنچ گئی تھیں اس وقت کابلستان میں کابل شاہان کے نام سے ایک آزاد مملکت قائم تھی ۔ انہوں نے عربوں کے حملوں سے بچنے کے لیے شہر کے گرد ایک دفائی فصیل قائم کی تھی ۔ آج کل یہ فصیل شہر کے قدیم یاد گار سمجھی جاتی ہے لیکن اس کا اکثر حصہ تباہ ہو چکا ہے۔13ویں صدی میں منگول اور 14ویں صدی میں تیمور لنگ کی سلطنت کے شہر کی حیثیت سے کابل ایک مرتبہ پھر تجارتی مرکز بن گیا۔ تیموری طاقت کے کمزور پڑنے کے بعد ظہیر الدین بابر نے 1504ء میں کابل پر قبضہ کرتے ہوئے اسے اپنا دارلحکومت بنا لیا اور بعد ازاں یہ1738ء تک مغل حکمرانوں کے زیر حکومت رہا ہے۔
1738ء میں فارسی کے حکمران نادر شاہ نے قابل پر قبضہ کر لیا لیکن 1747ء میں اس وقت کی وفات کے بعد احمد شاہ ردانی عرف احمد شاہ ابدالی تخت پع بیٹھا اورپشتون حکومت کا اعلان کرتے ہوئے افغان سلطنت کو مزید وسیع کیا۔ 1772ء میں اس کے بیٹے تیمور شاہ درانی نے کابل کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ وہ 1793ء میں انتقال کر گیا اور بعد ازاں زمان شاہ درانی تخت پر بیٹھا۔1826ء میں دوست محمد حکمرانی کا دعویدار بنا لیکن 1839ء میں برطانوی افواج نے کابل پر قبضہ کر لیا اور شاہ شجاع کی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دی۔1841ء میں مقامی “بغاوت” نتیجے میں برطانوی افواج کو عظیم جانی نقصان کا سے دو چار ہونا پڑا اور جلال آباد میں 16ہزار برطانوی فوجیوں کو جہنم رسید ہوا۔
1842ء میں برطانیہ نے چور مچائے شور کی طرح اس قتل عام کا بدلہ لینے کے لیے جوبی حملہ کیا لیکن بالاحصار کو نقصان پہنچان پہنچا کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ اس کے بعد تاج و تخت دوست محمد کا ملا۔برطانیہ نے 1878ء میں ایک مرتبہ پھر کوشیش کی جب شہر پر شیر علی شاہ کی حکومت تھی ۔ شہری آبادی کے قتل عام کے بعد 1879ء میں پھر جنرل رابرٹس کی زیر قیادت برطانوی افواج کابل پہنچیں اور بالا حصار کو نقصان پہنچانے کے بعد فرار ہوگئیں۔20ویں صدی کے اؤائل میں شاہ امان اللہ خان نے زمام اقتدار سنبھالا۔ ان کے کارناموں میں شہر کوبجلی کی فراہمی اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کی فراہمی شامل ہیں ۔ وہ شہر کے معروف الامان محل میں رہتے تھے۔
1919ء میں مشہور تیسری افغان جنگ میں شاہ امان اللہ خان نے عید گاہ مسجدمیں بیرونی مداخلت سے افغانستان کی آزادی کا علان کیا۔ 1929ء حبیب اللہ تاجک کے بغاوت کے باعث شاہ امان اللہ خان کابل چھوڑ گئے اور حبیب اللہ نے اقتدار سنبھالا ۔1933ء میں نادر شاہ کے قتل کے بعدان کے بھائی ظاہر شاہ زیر اقتدار آئے ۔ اُس وقت ان کے کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔1930ء کے دہائی کے اؤائل میں کابل یونیورسٹی کلاسوں کے لیے کھول دیا گیا۔ 1940ء کی دہائی میں شہر صنعتی مرکز کی حیثیت سے ابھرنے لگا۔1950ء کی دہائی میں شہر سڑکیں بھی بچھائی گئیں۔ 1960ء کی دہائی میں شہر مزید وسعت اختیار کر گیا اور وسعت کا پہلا مارکس اینڈسینٹر اسٹور یہیں کھولا گیا اور کابل چڑیا گھر کا افتتاح کیا گیا۔1996ء میں افغانستان کی سیاست پر سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف مذہبی لوگوں مظاہرہ کیا جس کے دوران معروف اسلامی اسکالر مولانا فیضانی سمیت کئی مذہبی رہنماء گرفتار ہوئے۔
Red Army
1975ء میں چیکوسلوکیہ کے تعاون سے شہر میں برقی ٹرالی بس نظام رائج ہوا جس سے عوام کو سنہری سہولیات میسر ہوئیں۔سوویت جارحیت کے بعد 23دسمبر 1979ء کو سرخ افواج نے کابل پر قبضہ کر لیا اور مجاہدین اور سوویت افواج کے درمیان اگلے ١٠ سالوں تک یہ سوویت یونین کا کمانڈ سینٹر رہا ۔ کابل میں افغان سفارت خنہ 30جنوری 1989ء کو بند کر دیا گیا۔1992ء میں محمد نجیب اللہ کی کمیونسٹ نواز حکومت کے خاتمے کے ساتھ شہر مقامی ملیشیاؤں کے رحم و کرم پر آگیا ۔اس خانہ جنگی کے نتیجے میں شہر کو زبردست نقصان پہنچااور دسمبر میں شہر کی 86بسوں میں سے آخری بھی بند کر دی گئی۔ تاہم 800بس شہر کی آبادی کو نقل و حمل کی سہولیات فراہم کرتی رہیں ۔ 1993ء تک شہر کو بجلی و پانی کی فراہمی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی۔
برہان الدین ربانی کی ملیشیا جمعیت اسلامی ،گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی ، عبدالرشید دوئم اور حزب و حت کے درمیان خانی جنگی میں لاکھوں شہید و ہلاک ہوئے اور لاکھوں لوگ گھر بدر ہوگئے۔ستمبر 1996ء میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا اور سابق صدر نجیب اللہ اور ان کے بھائی کو گرفتار کر کے سر عام پھانسی دے دی۔طالبا ن کے قبضے کے ساتھ ہی دیگر تمام ملیشیاؤں کے درمیان جنگ بند ہوگئی اور برہان الدین ربانی ، گلبدین حکمت یار ، عبدالرشید دوئم ، احمد شاہ مسعود اور دیگر تمام شہر سے فرار ہو گئے۔تقریبا َ پانچ سال بعد اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر لیا ۔ جس کے بعد امریکہ نواز حامد کرزئی افغانستان کے نئے صدر قرار پائے۔
ایسا صرف کابل کے ساتھ نہیں بلکہ پوری دنیا کے چھوٹے بڑے ریاستوں کے سات ہوتا رہتا ہے ۔ کمزور پر قبضہ کرنے کا مسئلہ بہت پرانی بات ہے اس قبضے کرنے کی خواہش حاصل کرنے کے لئے لاکھوں لوگوں کی جان قربان ہوتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے جنگ عظیم بھی ہو چکے ہیں جہاں لاکھوں لوگوں کی قتل عام ہو ئی ہے ۔ دہشت گردی ہی کہہ سکتے ہیں ۔میرا کہنے کا متن یہ ہے کہ اس بات سے نظر اندازی خود کشی کی مترادف ہے کہ اس وقت امریکہ ، انڈیا و کئی اور ممالک کی نظریں پاکستان پر ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے قبضہ یا اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جو حالات خراب کرنے کے پیچھے بھی ضرور ہونگے جیسے کہ ماضی میں یہ عام بات رہا ہے کہ دشمن پر کمزور کرنے کے لئے اس کو کمزور بنانے کی کوشیش سے ہی کامیابی ملنا آسان ہوا ہے۔
تو پاکستان کے تمام دشمن پاکستان کو کمزور بنانے کے لئے پاکستان میں تعلیم کی فقدان، معاشی کمزروری ، لاقانونیت، افرا تفری ، بد نظامی بھی پیدا کرنے کی کوشیش کرتے ہیں کیونکہ اس سے عوام اور حکمران دونوں طبقے پریشان ہوتے ہیں اور دشمن کو اپنی مقاصد میں کامیابی آسان ہو جاتا ہے ۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی جہاں پر امریکہ براہ راست قبائلی علاقوں ڈروں حملے کی شکل میں اور دیگر کراچی، کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں معتد جگہوں پر چھپ چھپ کر دہشت گردی کی واقعات رونماء کر وارہی ہے ۔ اپنی تنظیموں کو اسلامی نام دیکر مقاصد میں کامیابی حاصل کر رہا ہے بے ایمان لوگوں کو خرید کر پیسے فراہم کرتا ہے کو اس کے اشاروں پر کچھ بھی کرتے ہیں اس بات کو حکمران تسلیم کرتے ہیں۔
Paksitan
یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ نا ممکن ہے ۔ نہ ہی کوئی اس کاخاتمہ کر سکتا ہے ۔ لیکن اپنے ریاست یا علاقے میں صرف کنٹرول کر سکتا ہے جہاں کسی کو بے گناہ قتل نہیں کیا جاتا ہو اور کوئی بھی د ہشت گردی کی شکارنہ بن سکے ۔ حکمرانوں دہشت گردی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں ۔ میرے نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ” نظام ” ہے . پاکستان میں ایسی نظام چل رہا ہے جس سے دہشت گردی کم نہیں بلکہ بڑ رہی ہے ۔ نظام ” ہمیشہ نااہل لوگوں نے ہی چلایا ہے ۔ اگر ” نظام ” درست ہوتا ہے تب پاکستان کی عوام کی جان و مال کی تحفظ یقینی ہو جاتی تھی مگر ” نظام ” چلانے والوں کی عدم توجہ سے دشمن پاکستان میں داخل ہو کر ہر جگہ ہر طریقے سے پاکستان اور پاکستانی عوام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے جائیں گے۔
قائد اعظم نے بھی فرمایا تھا کہ ” مجھ سے اکثر پوچھا جا تا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا کون ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرا سو سال قبل قرآن کریم نے و ضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا ۔ الحمد للہ ، قرآ ن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا”اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران قران مجید سے تمام مسائل کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور تمام اداروں میں اسلامی نظام نافذ کر کے حکومت کرتے ہیں تب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان حالات اور نظام درست ہو جائیگا ۔ ملک میں الیکشن سے لیکر فٹ پاتھ تک کوئی سنگین مسئلہ درپیش نہیں ہوگا پولیس، افواج ، تمام ادارے نیک نیتی سے پاکستان عوام کی خدمت کریں گے.
رشوت اور لاقانونیت ختم ہوگی، حکمران اور عوام کے درمیان موجودہ فاصلہ ختم اور مساوات قائم ہو جائیگی۔ کہنے کا مقصد اسلام کے ابتداء ایام واپس آئیں گے جس وقت اہلیان کائنات اسلامی نظام میں اپنے لئے ایک محفوظ راہ سمجھتے تھے اور کائنات میں اسلام کا بو ل بالا تھا ۔دہشت گردی تو دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے ا س کو حل کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس کا ابتداء ہی انسان کی پیدائش کے وقت ہو ا جو تاحال جاری ہے۔ ہاں نظام کو درست طریقے سے چلانے کی بنا پر اس پر کنٹرول ہو سکتی ہے جیسے برصغیر اور عرب کے حالات اسلامی حکمرانوں کے ہاتھ آنے سے ماحول پر امن ہو گیا تھا ایسے ہم پاکستان میںدہشت گردی پر کنٹرول کر سکتے ہیں ۔
اب ارباب اقتدار ہی ہمارے پاکستان کے حق میں درست نہیں سوچتے ہیں اگ درست سوچتے تو کب کا اسلامی نظام نافذ ہوا ہوتا جس سے پاکستان پُر امن اور ترقی یافتہ ہو کر دنیا میں امن پھیلانے کا تبلیغ کرتا مگر افسوس ہے کہ حکمران ہی ناپاک سوچ رکھتے ہیں ۔بحرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ حکمران دہشت گردی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں ۔ میرے نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ” نظام ” ہے . پاکستان میں ایسی نظام چل رہا ہے جس سے دہشت گردی کم نہیں بلکہ بڑ رہی ہے۔