دشمن مرے تے خوشی نہ کرئے سجناں وی مر جاناں

Indian Customs

Indian Customs

بھارتی رسومات پوری دنیا میں اپنے دیو مالائی سحر کی وجہ سے مشہور ہیں پوری دنیا سے ٹورسٹ ان کے اہم تہواروں کی دھوم دھام دیکھنے مختلف ممالک سے ہر سال جوق در جوق بھارت جاتے ہیں مذہب میں موسیقی کا عنصر لازمی ہو تو ہر رسم ہی دل بہلانے کا انوکھا خیال محسوس ہوتی ہے ان مختلف تہواروں میں مصروف بھارتی عوام گزشتہ چند سالوں سے نو راتری کے موقع پے نو راتوں کی تباہ کاریوں کی داستانیں منظر عام پے آنے کے بعد قدرے خوفزدہ دکھائی دیتی ہے

گزشتہ کئی سالوں سے نو راتری کے کے بعد دو تین ماہ تک ہسپتال نوجوان بچیوں کے حمل ساقط کروانے کی وجہ سے خبروں کی زد میں رہتے ہیں ۔ہر سال گزشتہ سال کی نسبت ان کی تعداد بڑہتی جا رہی ہے اس کی وجہ نوراتری کے دوران ہونے والے نوراتوں کے رت جگے ہیں جن میں موسیقی کے ساتھ ساتھ بے تکلف ماحول میں نوجوان بچے اور بچیاں بہک جاتے ہیں بھارتی سرکار اس پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرنے پے غور کر رہی ہے

یہ خبر کئی انڈین چینلز پے سنی تو سوچا کہ اس پر لکھوں گی کہ مذہب ہی جب اس قسم کی آزادی دے تو پھر پیرو کاروں کو الزام دینا نا مناسب ہے اس کے ساتھ ہی اپنے پیارے پاک دین کا خیال آیا کہ جس میں مخلوط طرزِ زندگی کو فساد کا بے راہ روی کا ماخذ قرار دے دیا گیا ہے شعبہ کوئی بھی ہو ذاتی زندگی کے تجربے نے ثابت کیا کہ مخلوط طرزِ زندگی کی وہی تباہ کاریاں ہیں جو مذہب بیاں کرتا ہے۔

عورت کیلئے محفوظ اور مناسب راستہ صرف اور صرف خواتین کے ساتھ روابط میں ہے جنسِ مخالف کے ساتھ باہمی روابط کیسے کیسے طوفانوں کو جنم دیتے ہیں ایسیخونیں بھونچال آئے روز پسِ پردہ یا سامنے ہم دیکھتے ہیں ایسے ہی ایک نئے طوفان سے واسطہ اس وقت پڑا جب اخبار کے ایک کونے میں شائع ہونے والی چھوٹی سی خبر کی جانب توجہ گئی

Valentine Day

Valentine Day

اس سال یعنی 2013 میں ویلنٹائنز ڈے پر پورے پاکستان کے میڈیکل اسٹورز سے ریکارڈ تعداد میں مانع حمل ادویات فروخت ہوئی ہیں میں گزشتہ کئی مہینوں سے نوراتری کے تحفے بڑہتے ہوئے ناجائز حمل پر لکھنے کا نجانے کتنی بار سوچ چکی تھی

یہ خبر ایک بار پڑہی دو بار پڑہی سہہ بار پڑہی دل نہیں مانا ہمسایہ ملک میں تو ایسی خبر کی توجیہہ یہ دی جاسکتی ہے کہ وہاں کا مذہب ایسی رسومات کی کھلم کھلا اجازت دیتا ہے جس کی وجہ سے ایسی خبر بنتی ہے لیکن پاکستان میں تو ایسی بے باکی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہمسایہ ملک کی خبر پے لکھنے کیلئے میرے پاس بہت مواد تھا بالکل اس سراغرساں عورت کی طرح جس کے پاس شہر کیہرفرد کا کچا چٹھا کاغذی صورت میں ا سے ے تک موجود ہوتا ہے نہیں ہوتا تو اس کے پاس بس اپنا نکاح نامہ نہیں ہوتا

مجھے بھی یکلخت ایسے محسوس ہوا کہ میں ان کی خبر پے مواد جمع کر رہی تھی خود اپنے ملک میں کیا حالات بگڑ رہے ہیں یہ پتہ ہی نہیں اگر یہ خبر نگاہوں سے نہ گزرتی یہ تو آگ گھر کے دروازے تک آگئی ریکارڈ تعداد میں بِکنے والی مانع حمل ادویات افغانستان یا انڈیا اسمگل نہیں کی گئیں بلکہ ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر اسی پاک سر زمین پے استعمال کی گئی ہیں

لمحہ فکریہ !! یہ ہے کہ اس مملکتِ خدادا میں یہ خبرکسی مخصوص علاقے کسی مخصوص شہر کی نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے میڈیکل اسٹورز کا حال لکھا تھا ہماری نگاہیں ایک دوسرے کے عیوب کی نشاندہی تو کرتی ہیں لیکن کیا ہم سب کانپ کر یہ نہیں سوچ سکتے کہ کہیں ان ادویات کو ان گھروں میں بھی استعمال نہ کیا گیا ہو جو ہمارے آپ کے ہیں ؟

معاشرے کی بربادی کی المناک داستان ٹیلی وژن یوں بھی بیان کرتا ہے کہ اس پاک زمین پے موجودہ سال 35 لاکھ جسم فروش خواتین موجود ہیں یہ تعداد گزشتہ 5 سالوں میں تیزی سے بڑہی ہے وجہ وہی ہے معیشت کی بربادی وجہ جو بھی ہو دہشت گردی کی آگ میں جھونکے ہوئے اس ملک کی بربادی کی داستان زبان زدِ عام ہے پورے ملک میں اس جنگ کے متاثرین کی جسمانی معذوری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے مایوسی خوف ناکامی بے اعتمادی نے نفسیاتی مسائل میں بھی خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔

Unemployment

Unemployment

ایسے ملک میں جب جوان بے دست و پا بیروزگاری کا شکار ہو کر گھروں میں محصور کر دیے جائیں تو پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے جس کام کو باقاعدہ “”نئی فیلڈ “” کے نام سے معاشرے میں جدت پسندوں نے رواج دیا ہے وہ اب عروج پر ہے 35 لاکھ جسم فروش خواتین کی تعداد کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پے مزید کئی لاکھ لوگ ایڈز جیسے خطرناک مرض کا شکار ہو سکتے ہیں جسم فروشی کی لعنت اس قدر فروغ نہ پاتی اگر معاشرے کے مقتدر حلقے مزدوری کیلئے آئے ہوئے۔

اسی عورت کے باپ شوہر بھائی کو جائز مزدوری دے دیتے لیکن معاشرے میں جائز ناجائز کا چلن عرصہ ہوا ختم کر دیا گیا لہذا ان امرا کو چند سومزدوری دینی مشکل لگتی ہے جو کسی غریب کے گھر کا چولہا جلا سکتی ہے لیکن شب بسری کیلئے اسی گھر کی مجبور عورت پے ایسے مرد ہزاروں لٹا دیتے ہیں کاش پہلی بار اس عورت کی حوصلہ شکنی کر دی جاتی جو دعوتِ گناہ دے رہی تھی آج شائد پاکستان اس شرمناک تعداد کا وارث نہ ہوتا

بھارتی سرکار نے تو سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن تا حال نگران حکومتِ پاکستان کی جانب سے یا سابقہ ارکانِ حکومت کی جانب سے سے اس حساس نوعیت کے مسئلے پر ابھی تک کوئی ایکشن کسی اخبار کی زینت بنتے نہیں دیکھا

اس سال ویلنٹائنز ڈے کی یہ خبر ہم سب کیلئے یقینا خطرے کا وہ الارم ہے جو اس سال بجا دیا گیا ہے اگر اس خطرے کو بروقت سمجھ کر اس کا مداوا نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے اگلے چند سالوں میں 35 لاکھ کی تعداد تجاوز کر کے 40 لاکھ تک جا پہنچے سوچو پاکستان !!
تحریر : شاہ بانو میر