لاہور ریلوے اسٹیشن پاکستان کے صوبہ پنجاب، لاہور میں واقع ہے، جو کہ برطانوی دور میں تعمیر کیا گیا۔ یہ جنوبی ایشیاء میں برطانوی طرز تعمیر کی ایک مثال ہے جو کہ برطانوی راج کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ برطانوی دور میں مرتب کیا جانے والا ریلوے کا نیٹ ورک بہت وسیع تھا اور ان نے اس علاقے کی ثقافت اور معاشی نظام پر بہت مثبت اثرات مرتب کیے۔لاہور ریلوے اسٹیشن کے گیارہ پلیٹ فارم ہیں اور پلیٹ فارم نمبر 1 کی خاص اہمیت ہے کیونکہ یہ ”سمجھوتہ ایکسپریس” کے لیے مخصوص ہے جو کہ پاکستان اور بھارت کے مابین زمینی رابطے کا بڑا ذریعہ ہے۔
یہ پلیٹ فارم سمجھوتہ ایکسپریس کی منزل بھی ہے اور یہیں سے یہ بھارت کے لیے روانہ بھی ہوتی ہے۔لاہور ریلوے اسٹیشن برطانوی حکومت نے تعمیر کروایا۔ اس سٹیشن کی تعمیر کا ٹھیکہ میاں محمد سلطان چغتائی کو عطا کیا گیا، جو کہ شاہی مغل سلطنت کے سابقہ شہزادے تھے۔ اس اسٹیشن کی مرکزی عمارت کا سامنے کا حصہ حکومت نے رد کر دیا تھا، جس کو سلطان چغتائی نے اپنی جیب سے دوبارہ تعمیر کروایا۔چونکہ یہ پاکستان میں ریلوے نیٹ ورک کا مرکزی اسٹیشن ہے۔
تو یہاں میسر کسی بھی عظیم ریلوے اسٹیشن پر سہولیات کے متوازی ہیں۔ خوراک، کتب خانے، مشروب کے مراکز اور بینکوں کی سہولیات یہاں اتم درجہ ہر پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ کچھ عالمی اہمیت کے ہوٹلوں جیسے میک ڈونلڈ اور پیزا ہٹ نے یہاں اپنی شاخیں پلیٹ فارم نمبر 2 پر قائم کی ہیں۔”لاہور ریلوے اسٹیشن کے تیرہ پلیٹ فارم ہیں۔ نوے گاڑیوں کی روزانہ آمد ورفت ہوتی ہے۔ جن میں ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں۔ مگر اس ریلوے اسٹیشن پر سہولیتں بڑھنے کی بجائے کم ہورہی ہیں۔
محض ایک پلیٹ فارم رہ گیا ہے جس پر ویٹنگ رومز موجود ہیں باقی کسی پلیٹ فارم پر کوئی ویٹنگ روم موجود نہیں ہے۔لاہور کا ریلوے سٹیشن 1861میں تعمیر ہوا تھا اور سن دو ہزار گیارہ میں اس کی ایک سو پچاسویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ریل کا آغاز بھی لاہور کے ریلوے سٹیشن کی تعمیر سے ہواتھا۔لاہور کا ریلوے اسٹیشن ایک قلعہ نما عمارت دکھائی دیتا ہے۔
کیونکہ برطانوی ماہر تعمیر ولیم برنٹن نے اس کا نقشہ بناتے وقت اس بات کو بھی پیش نظر رکھا تھا کہ ضرورت پڑنے پراسے دشمنوں کے حملے کے خلاف ایک قلعے کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ 1857کے خوں ریز واقعات کیفوری بعد ہی لاہور کا ریلوے اسٹیشن بننا شروع ہوگیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریزحکمرانوں کو ہردم یہ خوف رہتا تھا کہ کہیں پھر سے کوئی بغاوت نہ ہوجائے۔
ہندوستان میں بغاوت تو نہ ہوئی مگر لاہور کا ریلوے اسٹیشن 1878 میں افغانوں کے ساتھ انگریزوں کی دوسری لڑائی کے دوران فوجی دستے اور جنگی ساز و سامان میدانِ جنگ بھجوانے میں ضرور کام آٰیا۔ روزانہ درجنوں ٹرینیں لاہور سے اسلحہ سمیت فوجیوں کو لے کر روانہ ہوا کرتی تھیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی ایک ثقافتی پہچان بننا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ وہ اس قدر مضبوط ہوگئی کہ اب کسی کے لیے شاید ہی اس بات کی اہمیت ہو کہ برطانوی حکمرانوں نے بنیادی طور پر اس تنصیب کی تعمیرفوجی مقصد کے لیے کی تھی۔
Lahore Railway Station
اردو ادب میں ریل کا ذ کر کثرت سے موجود ہے۔ لہذا لاہور ریلوے اسٹیشن کا درجنوں کہانیوں میں تذ کرہ ملتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں بھی اس ریلوے اسٹیشن کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح جب 1940کے تاریخی جلسے میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے تو اسی ریلوے اسٹیشن پر سب سے پہلے ان کا عظیم الشّان استقبال ہوا۔ لیکن1947کی قتل وغارت کا بھی یہ ریلوے اسٹیشن شاہد ہے جب ریل کے ڈبوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کی سیاست سے بھی اس ریلوے اسٹیشن کا گہرا رشتہ رہا ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں اس دور کے صدر ایوب خان نے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے الگ کیا تو راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشن پر بھٹو کو الوداع کہنے والے محض چند افراد تھے لیکن لاہور ریلوے اسٹیشن پر ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کرنے ہزاروں افراد پہنچے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ واقعہ آگے چل کر پاکستان کی پیپلز پارٹی کے قیام کی ایک اہم وجہ بھی بنا۔
شو بزنس سے بھی لاہور اسٹیشن منسلک رہا ہے۔ اکثر پاکستانی فلموں میں جو ریلوے اسٹیشن دکھایا جاتا ہے وہ لاہور ہی کا ریلوے اسٹیشن ہوتا ہے کیونکہ فلمی صنعت کا مرکز قیامِ پاکستان کے وقت سے لاہور ہی رہا ہے۔ معروف انگریزی ناول نگارجان ماسٹرز کے ناول بھوانی جنکشن پر بننے والی ہالی وْڈ کی فلم کا کچھ حصہ بھی اسی ریلوے اسٹیشن پر فلمایا گیا تھا۔ پچاس کے عشرے میں اس فلم کی شوٹنگ کے لیے اس دور کی امریکی سْپر سٹارایوا گارڈنر لاہور آئی تھیں اور انھوں نے بھوانی جنکشن کے کچھ مناظر اسی ریلوے سٹیشن پر فلم بند کروائے تھے۔
اتنی مضبوط ثقافتی پہچان رکھنے والا پاکستان کا یہ سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن آج کل سنگین مالی مسائل میںگھیرا ہے۔ اسٹیشن کے تیرہ پلیٹ فارم ہیں۔ پہلے بیشتر پلیٹ فارموں پر مردانہ اور زنانہ انتظار گاہیں یعنی ویٹنگ رومز ہوتے تھے لیکن اب محض چار نمبر پلیٹ فارم پر ایک مردانہ اور ایک زنانہ ویٹنگ روم موجود ہے جبکہ باقی کسی پلیٹ فارم پر بھی ویٹنگ رومز کی سہولت نہیں ہے۔
لاہور اسٹیشن پر روزانہ نوے ریل گاڑیوں کی آمد و رفت ہوتی ہے اور ہزاروں لوگ اس ریلوے اسٹیشن کے ذریعے سفر کرتے ہیں مگر ان مسافروں کے لیے سہولتیں تیزی سے کم ہوتی جارہی ہیں۔ ریل گاڑیاں پہلے زیادہ تر وقت پر آتی تھیں مگر اب اکثر ٹرینیں لیٹ ہوتی ہیں۔” جب ہم ریلوے کے افسروں سے اس کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ محکمہ کے پاس انجن بھی کم ہیں اور تیل بھی بہت کم مقدار میں موجود ہے جس وجہ سے ٹرینیں لیٹ ہوجاتی ہیں۔
پاکستان ریلویز 250کے قریب ٹرینیں چلا رہا ہے جن میں سے محض چالیس ایسی ہیں جو ریلوے کی کل آمدنی کا اسّی فیصد کماتی ہیں جبکہ باقی دو سو سے زیادہ ٹرینیں خسارے میں چل رہی ہیں۔”دْنیا کے بیشتر ملکوں میں ریلوے کا نظام حکومت کی امداد کے سہارے ہی چلتا ہے اوراگرپاکستان میں ریلوے کے محکمے کو غیر منافع بخش ٹرینیں بند نہیں کرنے دی جائیں گی۔
تو پھر مالی وسائل کے لئے یہ ادارہ حکومت کی مزید امداد ہی کا محتاج رہے گا۔”ریلوے کے ترجمان کہتے ہیں کہ تیل کی ایک ٹرین نوے کروڑ روپے سالانہ کما لیتی ہے۔ جب کہ غیرمنافع بخش ایک سو دو ٹرینوں کی کل آمدن پچھتر کروڑ روپے بنتی ہے۔لاہور ریلوے اسٹیشن میں آج بھی سیاست کا راج ہے لیکن ملکی سلامتی کیلئے نہیں بلکہ کہ سرکاری غیر سرکاری قبضہ گروپوںکا ہے۔