ضلع سیالکوٹ کے کاروباری شخصیات کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جنہوں نے اپنی مددآپ کے تحت تحصیل سیالکوٹ کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا ہوا ہے گرین بیلٹ ،پارکنگ ،کھیلوں کے میدان ،لوڈ شیڈنگ سے پریشان عوام کے اہم اور پسندیدہ مقامات تصور کیئے جاتے ہیں ضلع سیالکوٹ کی چار تحصیلوں میں ایک تحصیل ڈسکہ بھی ہے جہاں پر جنرل الیکشن میںقومی اسمبلی کی نشست این اے 113پر ڈسکہ کی کی نمائندگی کے خواہش مند میدان میں ہوتے ہیںاور کامیابی کے بعد علاقے کی عوام کی نمائندگی کے فرائض انجام دینا ان کا ہم ترین مشغلہ تصور کیا جاتا ہے۔
قارئین جتنی ترقی تحصیل سیالکوٹ نے کی ہے اتنی ہی تنزلی تحصیل ڈسکہ کو نصیب ہو ئی ہے شہر کے باسی ضلع سیالکوٹ کے ترقیاتی فنڈ میں تو باقاعدگی سے اضافہ کر تے رہتے ہیں مگر قیادت کی محرومی کی بدولت سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے اپنے حق کا فنڈ منظور کر وانے میں شروع دن سے محروم ہے جس کی بدولت تحصیل ڈسکہ تاحال ایمرجنسی سروس ریسکیو1122سے محروم ہے اور حادثات کی صورت میں مریض سڑک کنارے تڑپ تڑپ کر اللہ کو پیارا ہو جا تا ہے اور اس کے عزیزو اقارب پوسٹ مارٹم میں دن رات ذلیل و خوار ،شہر میں ٹریفک پولیس تو موجود ہے۔
مگروہ صرف جیبیں گرم کر نے میں مصروف ہے جس کی کرامات ہیں کہ 18سال سے کم عمر لڑکے چاند گاڑی چلانے میں کامیاب اور 10سال تک کے بچے موٹر سائیکل پر ،پریس ،وکیل اور پولیس کی نیم پلیٹ لگا کر دن رات حادثات کی شرح میں اضافہ کر رہے ہیں حلقہ میں سپورٹس کے میدان آباد کر نے کے لیئے افسران تو موجود ہیں اور کچھ سیاسی شخصیات کو بھی سپورٹس کمیٹی کا ممبر بنایا ہوا ہے۔
جو صرف الیکشن کے دنوں میں اپنے محبوب لیڈران کے لئے ووٹ مانگتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ حلقے کے نوجوان لڑکے لڑکیاں سپورٹس کو خیر آباد کہہ کر منشیات کی دنیا کا حصہ بن رہے ہیں ماضی میں تعلیمی سرگرمیوں کو ترقی دینے کے لیئے لائبریری تو بنائی گئی تھی مگر وہ شناختی کارڈ کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں کی بدولت اپنے زوال کا شکار ہو گئی اور اب عوام تحقیق و مطالعہ کی جگہ گائیڈ پر ہی انحصار کرلیتے ہیں ۔
مشرف نے ڈسکہ کی عوام کی سہولت کے لئے فلٹریشن پلانٹ کا قیام عمل میں لایا تھا جس سے اہل علاقہ کچھ عرصہ کے لئے ہیپاٹائٹس و دیگر موذی بیماریوں سے محفوظ رہے مگر جمہوری حکومت نے پرائیویٹ ڈاکٹروں کے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے منصوبوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تو بھارت کشمیر کے عوام کے ساتھ کر نے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔غیر تجربہ کار اور سیاسی بنیادوں پر بننے والے ٹھیکیداروں نے اپنے منصوبوں/سکیموںکے ذریعے پورے حلقے کو جوہڑو تالاب میں تبدیل کر دیا ہے اور غریب عوام کے مکان کو گلی /محلے سے نیچا کر دیا ہے۔
حلقہ کی عوام کو شروع سے تعلیم کا شوق تھا یہی وجہ ہے کہ ڈسکہ کی عوام مختلف شعبوں میں اپنا نام پید اکرتے رہے ہیں مگراب تعلیم کا حصول صرف امیر طبقے تک ہی محدود ہو گیا ہے علاقے میں کو ئی نیا سرکاری کالج کا قیا م تو عمل میں نہیں آیا مگر پرائیویٹ سکولوں،کالجوں کی تعداد میں سینکڑوں کا اضافہ ہوا ہے جن کی فیسیں 2ہزار سے بھی زیادہ ہو تی ہیں۔
Pervaiz Elahi
پرویز الہی نے ڈسکہ کی عوام کے لئے سرکاری ہسپتال کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اور تحصیل ڈسکہ کی عوام کی سوچ سے بھی بہتر تحصیل ہیڈکوارٹر لیول کا ہسپتال قائم کیا مگر فنڈ کی کمی کی بدولت مریضوں کو ادویات میسر نہیں ایمرجنسی میں مریض آخری لمحات میں ہو تا ہے تو اس کو بھی کہا جا تا ہے جائو یہ ادویات باہر سے لیکر آئو اور صرف ہمارے منظور شدہ میڈیکل سٹور سے یہ ادویات میسر آئے گی کیونکہ گرمی کے دنوں میں ہم ان کے دیئے ہو ئے ائرکنڈیشنز اور جنریٹر میںآرام دہ نیند حاصل کر تے ہیں۔
11مئی کا دن آنے والا ہے یہ ہی ایک موقع ہے جب این اے113کی عوام اپنے مقدر کو تبدیل کرسکتی ہے اوراہل حلقہ کی ترقی کا راستہ کھول سکتی ہے حلقہ میں کل 3لاکھ 48ہزار148ووٹر ہیں جن میں سے 2لاکھ6ہزار791مر داور1لاکھ41ہزار 357خواتین ووٹر ہیں۔
2002کے انتخابات میں ٹوٹل رجسٹر ڈ ووٹر 3لاکھ44ہزار117تھے جن میں سے42.65%ووٹ کاسٹ ہو ئے یعنی صرف 1لاکھ46ہزار 762ووٹر نے حلقے کی سیاست میں دلچسپی لی اور اپنے قیمتی فریضہ سر انجام دیا مگر ان میں سے 5ہزار233ووٹ مسترد ہو ئے ،ق لیگ کے علی اسجد ملہی نے50ہزار592ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ان کے مدمقابل امیدوار پی پی پی پی کے کرنل سلطان سکندر نے45ہزار 706،ن لیگ کے کرنل ظفر حسین گل نے 44ہزار215،آزاد امیدوار ارمغان سبحانی نے532چوہدری عبدالستار وریو نے 394ووٹ حاصل کیئے۔
2008کے انتخابات میں حلقہ کے ووٹر کی تعداد کم ہو کر 2لاکھ92ہزار 273ہو گئی جن میں سے 1لاکھ61ہزار 406ووٹ کاسٹ ہو ئے ان میں سے 5ہزار 996مسترد اور 1لاکھ 55ہزار414ووٹوں کو درست قرار دیا گیا اس دفعہ پاکستان مسلم لیگ ن کے نوجوان سیاستدان صاحبزادہ سید مرتضی امین نے77ہزار819ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی یعنی انہوں نے ٹوٹل کاسٹ ووٹ کا48.2%حاصل کیا۔
ان کے مقابل امیدوار وں میں سابقہ ایم این اے علی اسجد ملہی نے صرف 39ہزار186،پی پی پی پی کے ڈاکٹر ظہیر الحسن رضوی نے 31ہزار996،آزاد امیدوار مرزا عبدالقیوم نے4ہزار522،منور احمد گل نے 1ہزار513،احمد جلیل ساہی نے 172،چوہدری عبدالستار وریو نے 87،آغا عبدالرئوف نے 69،چوہدری شاہنواز بھلی نے 50ووٹ حاصل کی۔ 11مئی 2013ء کو ہو نے والے الیکشن کے سلسلہ میں حتمی فہرستیں جاری کر دی گئیںہے،اس دفعہ حلقہ این اے 113سے 10امیدوار، پی ٹی آئی کے مرزا عبدالقیوم (بلا)،ق لیگ کے علی اسجد ملہی(سائیکل )، پاکستان مسلم لیگ ن کے سید افتخار الحسن شاہ (شیر )،جمعیت علماء پاکستان کے چوہدری طارق محمود ساہی (چابی )۔
متحدی دینی محاذ کے خالد محمود بٹ (سیڑھی )، امین سجاد ہیرا (گائے ) ،چوہدری بشیر احمد (زرافہ )،چوہدری رئوف احمد باجوہ(بارہ سنگھا)،،طاہرہ تبسم (استری)،،،منور احمد گل(کنگھا) میدان سیاست میں ہے۔ اس دفعہ پی ایم ایل کیو سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے پی پی پی پی نے اپنے امیدوار کو میدان سیاست سے فارغ کر دیا ہے جس کی وجہ سے حلقہ میں موجود 31سے45ہزار پی پی پی پی کے ووٹر پریشان ہیں۔
وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں یا س دفعہ بائیکاٹ کردیں کیونکہ پی پی پی پی کا ووٹ ہمیشہ ہی مسلم لیگ کے خلاف تصور کیا جا تا ہے۔ اس دفعہ حلقہ کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار بھی میدان میں ہے، ممکن ہے عبدالقیوم مرزا عقل مندی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی پی پی پی کے ووٹ بنک حاصل کرسکتا ہے مگر اس کیلئے ان کو مخلص۔۔ایماندار۔۔شریف دوستوں کا ساتھ درکار ہوگا، جبکہ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ق) کے علی اسجد ملہی بھی ہر ممکن کوشش میں ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ووٹ بنک کو ضائع نہ ہونے دے۔ میری اﷲکے حضور دعا ہے کہNA113 سے وہی کامیاب ہو جو ڈسکہ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکئے، امین۔