سیاسی اکھاڑا تیار ہے۔پرنٹنگ پریس والوں کی ہر الیکشن سیزن کی طرح اِن دِنوں بھی ساری انگلیاں پورے وجود سمیت دیسی گھی میں تر ہیں۔آفسٹ پرنٹنگ والے ہوں یا فلیکس والے سب ہی سیاسی پارٹیوں کے مُرید ہیں ۔دراصل الیکشن پرنٹنگ والوں کا سیزن ہوتا ہے عین اُس ہی طرح جیسے ماہِ رمضان درزیوں سے لیکر ہر قسم کے کھابوں اور پہننے والوں کا سیزن ہوتا ہے۔سیزن میں دس گناہ مہنگائی دراصل سیزن کی چاہ اور انتظار میں راتیں جاگنے والوں کیلئے بونس اور اُن کے صبر کا پھل قرار پاتا ہے۔
میرے عزیز برادرم گلو شاہ نے کِسی حسینہ کی چاہت میں اپنا پرنٹنگ پریس اُس کے نام کر دیا تھا آج اُسی حسینہ کے زیرو میٹر خاوند کے زیرِ سایہ اپنے ہی پریس پر روٹا اور سولنا مشینیں صاف کر کر کے اُن میں مجنٹا،سییان،ییلو، بلیک سیاہیاں ڈالتا اور نکالتا ہے ۔بس یوں کہیں کہ گلو شاہ اُس حسینہ کے عشق میں رنگنے کی بجائے فور کلر میں رنگ گیاہے۔گلو شاہ نے ہی میری راہنمائی فرماتے ہوئے عرض کیا ہے کہ ہر قسم کی پرنٹنگ کے ریٹ بادلوں سے ہم کلام ہو رہے ہیں ۔یہاں تک کہ پیپر ،سیاہی،فلیکس میڈیا،بائینڈنگ،فٹنگ وغیرہ سب کے ریٹ بڑھ گئے ہیں۔
سوائے لیبر (مزدوروں) کے ۔گلو شاہ نے بتایا کہ میری حسینہ کا خاونداور میرا باس جِس پارٹی کا پرنٹنگ کا کام کر رہا ہے وہ اِسے ہر گز ووٹ نہیں دے گا۔میں نے حیرانگی سے پوچھا”وہ کیوں؟آخر تم لوگ اُس پارٹی کا لاکھوں کا کام کر رہے ہو ایک ووٹ دینے میں کیا حرج ہے”اِس پر گلو شاہ نے بتایا کہ ”دراصل میرا باس اِس پارٹی سے دلی کدورت ،بغض ،کینہ وغیرہ کے علاوہ اور بہت کچھ بھی رکھتا ہے ۔اُس کا کہنا ہے کہ یہ سارے مچھر ہیں جنہیں ہم ووٹ دے کر دعوتِ عام و خاص دیتے ہیں کہ آئو اور آکر ہماری رگوں سے خون کے تمام قطرے چوس لو۔
میرے باس نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ موروثی بیماریاں اتنی خطر ناک نہیں ہوتیں جتنا کہ یہ موروثی سیاست خطرہ بن گئی ہے ۔میراتجسس بڑھا میں نے ایک اور سوال کیا ”تو پھر وہ کِس کو ووٹ دے گا؟”گلو شاہ نے کان کھجایا اور راز داری سے سر گوشی کرتے ہوئے بولا اُس کا ماننا ہے کہ بریانی اور کولڈ ڈرنک سب کی کھائو پیو ،مگر ووٹ اُسی کو دو جِسے تم نے ابھی تک سمجھا ہی نہیں ہے میں نے اس بار بڑی حیرت سے پوچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
جِسے تم نے سوچا نہ سمجھا ہو اُسے کیسے ووٹ دے سکتے ہو ”اِس پر گلو شاہ نے سمجھایا کہ جسے ہم سمجھ چکے ہیں اُسے مزید کیا سمجھنا ،کِسی نے تو آنا ہی ہے تو کیوں نہ اُسے آزمائیں جسے آزمایا اور سمجھا ہی نہ گیا ہوجیسا کہ تم بھی ہو سکتے ہو۔عین ممکن ہے اِس نئی سمجھ میں آنے والا عوامی ہیرو بننے کی چاہ میں ہم پھٹے حالوں کو چند سال عیاشی ہی کرائے جائے۔ اور جب تک اُس میں وزیر بننے کے تمام تر سیاسی جراثیم منتقل ہوں گے اور وہ بھی بھوکے پیاسوں کا خون چوسنے لگے گا تب تک تو پانچ سال کی مختصر سی سیاسی مدت اختتام پزیر ہو چکی ہوگی۔
Poor people
جو فنکار ہیں جنہوں نے غریب عوام سے ہر رائونڈ ٹاپ سکور کے ساتھ جیتنا سیکھ لیا ہے اب اگر انہیں پھر دعوتِ عام دے دی گئی تو سوچو ذرا کیا کیا نہیں ہو سکتا؟بس آج کل وہ کِسی انجان نئے سیاست دان کی تلاش میں ہے تاکہ اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کر سکے۔ میں گلو شاہ کی حقیقت پر مبنی گفتگو سن کر سن سا ہو گیا ۔ گلو شاہ کی باتوں میں سچ کی آمیزش نے میرے اندر کے حب الوطن کو جگا دیا تھا۔سوچا کاش مجھے گزشتہ حکومت کی سیاہ کاریاں یاد آجائیں تاکہ میں ووٹ کیلئے درست فیصلہ کرنے کو تیار ہو جائوںکیونکہ میرا فیصلہ ابھی بھی پُرانا ہی تھا۔
میں نے مراقبہ کرنے کے بعددماغ کا Reverseبٹن دبایا اور ہلکی سی اُونگ محسوس کرتا ہوا ماضی میں چلا گیا ۔ایک بڑا سا ویرانہ ہے میں چلتا گیا آگے چل کر راہ داریوں سے ہوتا ہوا ایک اُجڑے چمن تک جا پہنچا وہاں بہت سے دروازے تھے ہر دروازے کے اُوپرپاکستان بننے کے بعد سے اب تک کے دور کی حکومت کے سربراہ کے نام درج تھے۔جِن میں گزشتہ حکومتوں کے سیاہ و سیانے دفتر کھلے اور بکھرے پڑے تھے…میں نے ایک دروازے پر پرویز مشرف کا نام پڑھا اور ارادہ کر لیا کے اِسی دروازے میں داخل ہونا ہے ۔ابھی دروازے کو ہاتھ ہی لگایا تھ۔
نیلی اور ہیبت ناک آنکھو ں والے مضبوط اور دیو ہیکل جسامت کے مالک سیاسی چکر ویو کے داروغہ کے فولادی ہتھوڑے جیسے ہاتھ نے میرے نازک پھولوں جیسے ہاتھ کو بجلی کی سی تیزی سے دروزے کی بیرونی سمت میں دکھیل دیا ۔ہیبت ناک داروغہ نے کہا ”جِس دروازے میں تم داخل ہونا چاہتے ہو اُس کا مالک ابھی قانوں کے نرغے میں ہے اور ویسے بھی تم عوام ہو اور دوغلی پالیسی یہاں نہیں چلا سکتے یہاں توو یسے ہی بہت سی ریاکاریاں ،دھوکے ،فراڈ وغیرہ وافر مقدار میں موجود ہیں”میں نے کہا کیا مطلب دوغلی پالیسی میں ماضی میں اِسی لئے تو آیا ہوں تاکہ ماضی کے سیاست دانوں کے کارناموں کو سمجھ سکوں آخر مجھے ایک سچے اور محبِ وطن شہری ہونے کا ثبوت دینا ہے اپناقیمتی ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔
میں طے کر چکا ہوں کہ اِس بار مر جائوںگا مگر ووٹ کِسی مچھر کو نہیں دونگا”۔داروغہ نے کہا ”تم سوچ کر آئے تھے کہ گزشتہ حکومت کی کارستانیوں پر نظر ڈالوں گے،گزشتہ سے گزشتہ کی نہیں اِس لئے ایک وقت میں ایک ہی سوچ اور فیصلے پر عمل ہو سکتا ہے اور تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں یہ کہہ کر اُس نے مجھے ایک سیاہ دروازے کی جانب دھکیل دیا دروازے کے اُوپر گزشتہ پانچ سال پورے کرنے والی کامیاب جمہوری حکومت کا نام کندہ تھا۔میرے قریب پہنچتے ہی دروازہ خود بہ خود ہی کھل گیا ۔اندر مزید دو دروازے تھے ایک پر لکھا تھا (غریبوں کے نام ) اور دوسرے پر لکھا تھا (امیروں کے نام)
میں پہلے غریبوں کے نام والے دروازے میں داخل ہوگیا اندر اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور کہی کہی موم بتیاں جل رہی تھیں۔عقب سے ایک آواز بلند ہوئی ”یہ تمہارے اپنے ہی ووٹوں کا نتیجہ ہے”۔بے روزگاری ناچ رہی تھی ،ناخواندگی بھاگ دوڑ رہی تھی،مہنگائی منہ میں بیڑی لیے تاش کھیل رہی تھی،گیس اور پانی دھونڈنے لگتا تو شائد داروغہ کا دیا ہوا دس منٹ کا ٹائم ختم ہوجاتا ،لوٹ مار و خون خرابہ اور دھوکہ بازاری ہی اِس جہاں کا کل سرمایہ نظر آرہا تھا۔مجھ سے معصوم بچوں کی چیخ و پکار نہ سُنی گئی۔
میں بھاگ کر امیروں کے نام والے دروازے میں داخل ہوگیا ۔اندر روشنیاں ہی روشنیاں تھیں یہاں تک کہ ابھی دِن کے بارہ بجے بھی بنگلوں کے باہر لائیٹیں جل رہی تھیں،سٹریٹ لائٹز بھی آن تھیں ،سارے کا سارا ائیر کنڈیشنڈ ماحول تھا،مالی پودوں اور پھولوں پر ضرورت سے زیادہ پانی نچھاور کر رہے تھے ، حسین جل پریاں اور جل پرے سوئمنگ پول میں واش ہو رہے تھے،ماحول اتنا ائیر کنڈیشنڈ تھا کہ ملازموں نے گیس والے ہیٹر چلا رکھے تھے، ‘O’لیول سکولوں کے ہوتے ہوئے ناخواندگی کا یہاں تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا،مہنگائی ہاتھ باندھے سر جھکائے باادب ایک کونے میں کھڑی تھی۔
دِل چاہ رہا تھا کہ سوئمنگ پول والی سائیڈ کا ایک اور نظارہ لیا جائے کہ اتنے میں کِسی ہیبت ناک آواز نے پتھر کا بنا دیا ”بس دس منٹ پورے ہوگئے ”اور اگلے ہی لمحے میں واپس اپنی دنیا میں تھا۔ میں نے تہہ دل سے حتمی فیصلہ کر لیا تھا کہ اِس دفعہ اپنا قیمتی ووٹ اپنی بربادی و خون چوسوانے کیلئے ضائع نہیں کرنا ۔اور نہ اس بار کِسی منجھے ہوئے کھلاڑی کو دوبارہ اقتدار میں آنے ہی دینا ہے۔
بے شک ہر منجھاہوا پرانا سیاسی کھلاڑی پایہ کے سیل مین کی خصوصیات سے بھی لبریز ہوتا ہے جو اپنی سیاست کے کچھ منفی پہلو چھپا لیتا ہے اور کچھ کو مثبت بنا سنوار کے مخمل میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے۔اور ہم عوام تو ہیں ہی لکیر کے فقیر جو بظاہری دکھتا ہے بس اُسی کے گن گاتے ہیں۔اِس موقع کیلئے جناب عزت مآب گلو شاہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز ، سونا نہیں ہوتی دِکھنے کو تو پیتل بھی سنہرا لگتا ہے
Muhmmad Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا 0300-3535195 muhammadalirana26@yahoo.com