لکھتے لکھتے ہمارے قلم خشک ہو گئے ،ہماری انگلیاں درد کرنے لگیں ،ہمارے ہاتھ تھک گئے ،ہمارا دماغ شل ہو گیا ،ہمارا دل درد میں ڈوب گیا ،ہماری روح تھکا وٹ کا شکار ہو گئی ،اور یہ مضطرب دل پسلیوں کا پنجرہ توڑ کر نکلنے کو بے تاب ،لیکن یہ سانحات رکنے پرنہیں آ رہے ،ان کے اندوہناک مظاہرے دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں پتھراگئیں ،ان سے بہنے والے آنسوں خشک ہو گئے اور ان سے جنم لینے والے المیوں سے ہمارا رواں رواں خون کی آبشار میں تبدیل ہو گیا ۔یوں لگتا ہے کہ انسانیت ہم سے روٹھ چکی ہے ،بس اب ہم اس کا لاشہ قبر میں اتارنے کو ہیں۔
اس دور سے پہلے چشم فلک نے ایسے مناظر کب دیکھے ہوں گے جب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دہشت گردی کے نا قابل تصور اور نا قابل بیان مظاہر کو جنم دیا گیا ہو ، آزادی اور خود مختاری کے تحفظ کے نام پر ان ہی کی دھجیاں بکھیری گئیں ہوں ،انسانی حقوق کی حفاظت کی خاطر انسانوں ہی کو عدم آشنا کیا گیا ہو ،آج ہما ری گنہگار آنکھیں یہ سب کچھ دیکھنے پر مجبور کر دی گئیں ہیں۔نہ جانے یہ کون سا تمدن ہے ،یہ کونسی تہذیب ہے جو کھلم کھلا قتل و غارت گری کا لائسنس عطا کرتی ہے ؟ جو چند مجرموں (؟) کو مارنے کیلئے ہزاروں بے گناہ لوگوں کی زندگی ختم کرنے کا پروانہ دیتی ہے ،آج انسانی لہو اپنا تقدس کھو چکا ،ہر سو بہیمیت رقص عریاں میں محو ہے۔
انسانی جان کی قدرو قیمت کا تصور قصہ پارینہ بن چکا اورعزت و حرمت سے کھلواڑ سکہ رائج الوقت قرار پایا ۔ امریکیوں کو محفوظ بنانے کے لئے افغانستان کو تاخت و تاراج ہوتے ہم نے دیکھا ،عراق کی اینٹ سے اینٹ بجتے ہم نے دیکھی ،فلسطین (غزہ)میں ہونے والے ظلم سے ہم واقف،اب پاکستان کے بازوئے شمشیر زنو ں کو دہشت گر دوں کی بہیمیت کا نشانہ بنتے ہو ئے دیکھ رہے ہیں۔انسان کی یہی حیثیت ہے کہ وہ خود کش حملوں میں مریں،پھٹتے بموں کا نشانہ بنیں ،دہشت گردی کی برستی گولیا ں انہیںبھونتی رہیں ،ٹارگٹ کلنگ میں مارے جاتے رہیں ،قانون نافذ کر نے والوں کی دہشت و وحشت کا شکا ر بن جائیں ،ڈاکو اور راہزن ان سے مال و دولت کے ساتھ ساتھ متاع زیست بھی چھین لیں۔
Massacre
اخلاقی دیوالیہ پن معصوم بچیوں کو درندگی کی بھیٹ چڑھادے ،مقتدر ایوانوں میں ان سب المیوں کو دیکھتے اور سنتے بھی کو ئی لر زہ تاری نہیں ہوتا ،کسی کی غیرت و حمیت نہیں جاگتی ،اور کسی میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا کو ئی داعیہ ابھرتا دکھائی نہیں دیتا ۔کسی بھی ریاست میں ٹا رگٹ کلنگ میں انگنت لوگوں کا قتل عام ، اور لرزہ دینے والے سانحات کے بعد کون جانے کب اور کیوں کسی نہ کردہ جرم کی پاداش میںنشان عبرت سے دوچار کر دیا جائے ۔لیکن سب کچھ دیکھ کر بھی حکمراں بیانات سے آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے ،حالانکہ ارباب اقتدار کو ان دل خراش سانحات کے بعد اور کچھ نہیں تو سب کچھ چھو ڑ چھاڑ کر ،چلّو بھر پانی کی تلاش میں ہی نکل کھڑا ہونا چا ہیے۔
اس ملک کے دگر گوں حالات کے بارے میں ہر خا ص وعام جانتا ہے ۔بناء بصیرت کے قیادت ،مجرمانہ غفلت ،منجمد معیشت ،امن وامان کی غیر یقینی صورتحا ل ، عالمی کساد بازاری ،منظم بد عنوانیاں ، غربت بے روز گاری ،رشوت ،مہنگائی اور کرپشن کا نہ کم ہونے والا طوفا ن، لا قا نونیت ،سفارشی کلچر ،اربا ب اقتدار کی عیش و عشرت ، اداروں میں نا اہل اور کرپٹ افسران ،مصلحتوں کا شکار حکمراں ،مادر پدر آزاد ارباب اختیار اور ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ۔اس تنا ظر میں درپیش حالات کیا ہو ں گے ؟ کیا ہم خاموش تماشائی بنے ان غلطیوں کو دیکھتے رہیں ،جن کی قیمت پورا ملک اور عوام چکا رہی ہے یا پھر ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں ،جس پر بحیثیت قوم اجتماعی طور پر عمل درآمد کر کے درپیش مسائل سے نمٹا جا سکے۔
کیا عوام کے نصیب میں خود کش حملو ں ،بم دھماکوں ،ڈرون اٹیک ،ٹارگٹ کلنگ میں مرنا ،کاروبار کی تباہی ،لو ڈ شیڈ نگ کی تا ریکیاں ،مذہبی و لسانی منافرت ،اشرافیہ کی لوٹ مار ،بیرونی قرضوں کا بوجھ ،ٹیکسوں کی بھر مار ،مہنگائی اور بد امنی کا سیلاب ، انسانی حقوق کی پامالی ،سماجی و معاشی نا گفتہ حالات ،قومی اداروں کی تباہی جیسے لا تعداد تحا ئف ہی ہیں ؟ کیا حکومت وقت کی کوئی ذمّہ داری نہیں بنتی ؟اگر یہی ”بے نیازی” ارباب اختیار کا وطیرہ رہی تو ……حیات یونہی سسکتی رہے گی ۔اجل یونہی مسکراتی رہے گی۔