ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی ہے ۔ شہر ، گاؤں اور قصبوں میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بینرز ، پوسٹر اور فلیکس نظر آرہے ہیں۔ ہر جگہ پر الیکشن کا موضوع زیر بحث ہے۔جلسے جلوس بڑے زور و شور کے ساتھ ہورہے ہیں۔ امیدواران بڑے بڑے دعوے کررہے ہیں۔ ان کے ایجنٹ عوام کو پھر سے دھوکہ دینے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ پارٹی کارکنان اپنی اپنی پارٹی کی جیت کے لیے عوام کو بھلا پھسلا رہے ہیں۔
اپنی پارٹی کا منشور ایسے بیان کررہے ہیں جیسے انہوں نے کوئی نئی چیز دریافت کی ہے۔ ہر پارٹی کا وہی ہر بار کی طرح گھیسا پھٹا منشور ہے۔ وہی تعلیم کارونا ، عوامی فلاحی کام ، بیروزگاری کا خاتمہ، امن و امان کا قیام، ملکی خود مختاری کا تحفظ اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے وعدے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ الیکشن پہلی بارہورہا ہے؟کسی بھی پارٹی کو اقتدار پہلی بار ملنا ہے۔
وہی ہر بار کی طرح پرانے چہرے ہونگے بس فرق اتنا ہوگا کہ انہوں نے پارٹیاں تبدیل کررکھی ہونگی اور اپنے اپنے منشور میں دعوے کرکے عوام کو گمرا ہ کرنے کی ایک اور کامیاب کوشش کریں گے۔اس کے بعد جب اقتدار مل جاتاہے تو پھر سب کچھ ختم۔ کونسی پارٹی ہے جس نے اپنے منشور پر عمل کرکے دکھایا؟ تاریخ اٹھا کرپڑھ کرلیں قیام پاکستان کے بعد سے آج تک اقتدار میں بہت سی پارٹیاں آئیں مگر ہر ایک نے اپنے اپنے منشور سے ہٹ کر کام کیا۔کسی نے منشور کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
2013کے الیکشن میں کسی بھی پارٹی نے اپنے منشور میں بتایا ہے کہ وہ اپنے دورحکومت میں کس کس چیز پر ٹیکس لگائیں گے؟ کسی نے نہیں بتایا اور جب اقتدار ملے گا تو پھر پیسہ بنانے کے چکر میں کبھی بجلی کے نرخ میں اضافہ تو کبھی موبائل فون کارڈ ریچارج پر، کبھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تو کبھی سی این جی مہنگی، کبھی چینی کی قیمت میں اضافہ توکبھی غریب کی روٹی مہنگی۔ ایک وقت تھا جب یہ فقرہ عام تھاکہ کسی سے پوچھا جائے کہ کیا ہورہا ہے۔
تووہ جواب میں کہتا تھا کہ بس یار ”دال روٹی کمارہے ہیں” مگر اب تو اگر کوئی دال کھا رہا ہے تو وہ بھی کوئی امیر ہوگا کیونکہ اب تو دال بھی غریب کی پہنچ سے بہت دور ہوگئی ہے۔ چند دن پہلے ایک سیاسی پارٹی کاجلسہ ہورہا تھا اور اس جلسے سے پارٹی کاامیدوار دھواں دھار خطاب کررہا تھا ۔میں اس امیدوار کی تقریر سننے کے لیے کچھ دیر وہاںرک گیا۔ امیدوار کے الفاظ کچھ یوں تھے اگر آپ نے مجھے ووٹ دیکر اسمبلی میں پہنچا دیا تو میں آپ سے حلفاً وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے مسائل حل کرنا میری اولین ترجیح ہوگی۔
میں آپ کی وو ٹ کی طاقت سے اپنے حلقے کو چار چاند لگادوں گا۔اگر آ پ نے ساتھ دیا تومیں اپنے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کرا دوں گا۔ آپ کے ووٹ سے ملک ترقی کرے گا۔ ” حالانکہ وہ امیدوار 2002ء سے 2013تک قومی اسمبلی کا ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر بھی رہا ہے۔ اپنے اس اقتدار کے دوران اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کا ذکر وہ اس جلسے میں کرتا ۔جبکہ بہت سے افراد اس جلسہ گاہ میں جو اس کی تقریر سن رہے تھے اس کے خلاف وہی پر بات کررہے تھے۔ کئی افرادیہاں تک کہہ رہے تھے کہ جو ترقیاتی کام اس نے اپنے پچھلے دس سال میں کیے ایسے ہی کام اب آگے بھی کرائے گا۔
Pakistan People
یہ تو وہ امیدوار تھا یہاں تو ہر امیدوار عوام کو ایسے ہی پاگل بنا رہے ہیں۔ مجھ ایسے لوگوں کی تقاریر سن کر اپنا بچپن یا د آگیا جب مجھے پہلی بار سکول میں تقریر کرنے کوکہا گیا تو میں نے کہا کہ مجھ سے تقریرنہیں ہوسکتی کیونکہ اتنے لوگوں کے سامنے میں نہیں بول سکتا تو میرے استاد محترم نے کہا کہ” آپ تقریر یاد کرو اورجب تقریر کرنے سٹیج پر آؤ تو سمجھ لینا کہ آپ کے سامنے جتنے بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ سب گونگے اور بہرے ہیں۔
جب تومجھے اس بات کا پتہ نہ چل سکا مگر اب ان سیاسی میدانوں میں تقاریر سن کریہ سمجھ گیا کہ ان لوگوں کوبھی ان کے استاد نے یہی بتایا ہوگا اور شاید میرے استاد کی یہ بات بالکل ٹھیک تھی کیونکہ سننے والے واقعی گونگے اور بہرے ہیں۔تبھی تو آج یہ امیدوار اپنے حلقے کی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں جو اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کی دیمک کی طرح پورے ملک کو چاٹ گئے اور اب بھی یہی توقع کیے ہوئے ہیں اس کرسی پر بیٹھنا صرف ان کا حق ہے اورکسی کا نہیں۔
میںیہ بات ایک حلقے کی نہیں کررہا ہے اس طرح کے جھوٹے وعدے ہر حلقے میں کیے جارہے ہیں ۔ عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور ان سیاستدانوں کے سپورٹر ہر بار کی طرح قسمیں اٹھا اٹھا کر عوام کو یقین دلا رہے ہیں کہ ایک بار اب ووٹ دو اور آپ کے مسائل آپ کی دہلیز پر حل ہونگے۔نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔ مگر عوام میں سے کسی نے ان سے یہ نہیںپوچھا کہ جو پچھلے دورگزاراہے اس میںان کی کیا کارکردگی تھی۔
اگر عوام ایک بار ووٹ ڈالنے سے پہلے سوچ لے کہ وہ جس کو ووٹ دے رہی ہے کیا وہ اس ووٹ کے قابل ہے ؟ اس کی پچھلے پانچ سال ہی کی نہیں بلکہ اس امیدوار کوبھی دیکھ لے جس نے اس سے پہلے اقتدار میں رہتے ہوئے کتنے کام کرائے۔ ووٹ قوم کی امانت ہے اور اس میں خیانت نہیں کرنی چاہیے ۔ امانت میں خیانت تب ہوتی ہے جب ہم اپنے ضمیر کی بجائے کسی رشتہ دار، دوست اور یاکسی کے خوف سے غلط ووٹ دیں۔ آ پ کے پاس دن رات مختلف پارٹیوںسمیت آزاد امیدوار ووٹ مانگنے آرہے ہیں اور حسب عادت سب کو یہی کہا جارہا ہو گا کہ” ووٹ آپ ہی کا ہے۔
مگر پھر بھی جب آپ پولنگ بوتھ پر ووٹ پر مہر لگانے لگیں تو ایک بار ضرور سوچنا کہ کیا میں قومی امانت میںخیانت تو نہیں کررہا ہے اگر آپ کا ضمیر ٹھیک کہے تو پھر مہر اس پر لگاناکیونکہ یہ ایک ووٹ آپ کی ہی نہیں بلکہ پورے قوم کی باگ دوڑ سنبھالے گا۔ ووٹ کی طاقت صرف عوام کے ہاتھ میں ہے۔
چند روپوں سے یا جھوٹے لوگوں کو ووٹ دینے بہتر ہے آپ اس کا ساتھ دیں جو ملکی مفاد میں ہو۔جو عوام کااور ملک کا خیر خواہ ہو۔ جو ایک اچھا خلیفہ ثابت ہو۔ جو عوام کا خادم بن کر خدمت کرے نا کہ اپنا بنک بیلنس بنا کر عوام کو مقروض کردے۔اب ایک لمحے کی سوچ پانچ سال کی غلامی سے بہت بہتر ہے۔ ذرا سوچئے بس ایک بار۔