اب الیکشن میں صرف 13دن باقی رہ گئے ہیں ہر سیاسی جماعت الیکشن میں جیت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کروڑوں روپے کی انتخابی مہم بھی چل رہی ہے اربوں روپے والے اس الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان میں سے اکثر امیدوار ایسے ہیں جن کو غریبی کا صحیح مطلب بھی معلوم نہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس کو دیکھا ہے مگر نعرے اور وعدے سب پاکستان سے غربت ختم کرنے کے ہی کرتے ہیں ان سیاسی منافقین کی ابھی سے پاکستانی امیدوں ماری قوم کے ساتھ دو نمبری شروع ہو چکی ہیں۔
تو اور یہ سب سیاستدان آپس میں جو کھیل کھیل رہے ہیں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش سے ثابت کررہے ہیں کہ ان سے بڑا کوئی محب وطن نہیں اور مخالف سیاستدان سے بڑھ کر کوئی چور نہیں ہے یہ وہ سیاستدان ہیں جو گرمیوں میں سردیوں کااور سردیوں میں گرمیوں کا مزہ لیتے ہیں اور ان سیاسی وڈیروںکے کتے بھی مربے کھاتے ہیں مگر پاکستانی قوم کی آدھی آبادی سے بھی زائد آبادی ایسے حالات میں رہ رہی ہے۔
جس کو دیکھ کر ایک حساس انسان رونے پر مجبور ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کا ہر سیاستدان خریدوفروخت میں مصروف ہے غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھنسی ہوئی غریب عوام کے ووٹوں کی آج کھلے عام قیمت لگ رہی ہے اور ایسے حالات میں جب عوام کے پاس کھانے کو روٹی رہنے کو مکان اور علاج معالجہ کے لیے دوائی نہ ہو تو وہاں پر خریدوفروخت کا عمل تیزی سے جاری ہو جاتا ہے اگر آج ایک امیدوار پانچ سو سے لیکر پانچ ہزار تک ووٹ خرید رہا ہے۔
تو اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں کیونکہ بے بسی کی تصویر بنی عوام ان سیاسی لٹیروں کے ہاتھوں لٹتے لٹتے تنگ آچکی ہے اور اب پھر ان سیاسی ٹھگوں کے دلفریب وعدوں کی بجائے فوری طور پر ملنے والے ریلیف سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش کی جارہی ہے ان تمام اخراجات کے بعد جب ایک امیدوار الیکشن جیتنے کے بعد اسمبلی میں پہنچتا ہے تو پھر وہ اپنی لوٹ مار میں مصروف ہوجاتا ہے اور اسکے حواری اپنی اپنی لوٹ مار کی دوکانیں کھول لیتے ہیں اور انہی سیاستدانوں کی وجہ سے ملک کی حالت غیر سے غیر ہوتی جارہی ہے۔
یہاں پر ایسے ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو اپنے ورکروں سے مہینوں کام لیتے ہیں مگر تنخواہ دینے کا نام نہیں لیتے جبکہ سرکاری اداروں کا تو اتنا برا حال ہے کہ ایک غریب اور مفلوک الحال انسان کو انصاف ملنا مشکل ترین عمل بن چکا ہے مگر اس سارے برے حالات میں خوش قسمتی سے آج پاکستان کی عداتیں عوام کو ریلف دینے میں مصروف ہیں اور ان عدالتوں کی وجہ سے ہی پاکستانی عوام میں کچھ اطمینان ہے جو کسی کے دبائو میں آئے بغیر عوام کو انصاف فراہم کررہی ہیں۔
Pakistan Christmas
ورنہ اس ملک کی پولیس تو مسائل زدہ قوم کی ویسے ہی دشمن محسوس ہوتی ہے جہاں پر ایک غریب اور مسائل میں ڈوبا ہوا شہری جاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے اسی طرح کا ایک واقعہ وفاقی دارلحکوت اسلام آباد میں ہمارے ایک سینئر صحافی دوست میاں زاہد غنی کے ساتھ بھی پیش آ چکا ہے جس کے بعد میں سوچتا ہوں کہ ایک ایسی جگہ جہاں پر صدر پاکستان ،وزیر اعظم ،چیف جسٹس سمیت کئی وفاقی وزیرقیام پذیر ہیں وہی پر ہمارے اس صحافی دوست کو نہ صرف انصاف لینے میں دشواری پیش آرہی ہے۔
بلکہ الٹا بے عزتی بھی برداشت کرنا پڑرہی ہے اس واقعہ کی مختصر تفصیل عرض کرتا چلوں کہ میاں زاہد حسین ایک سینئر صحافی اور ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں بطور صحافی کام کرتے ہوئے صرف کیا اور اس دور میں انکے امریکی صدر بش سمیت دنیا کے اکثر سربراہان مملکت کے ساتھ بہترین دوستانہ تعلقات تھے۔
اس بات کی گواہ امریکہ میں اس وقت پاکستان کی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی بھی ہیں اور وہی صحافی جب انصاف کے حصول کے لیے اسلام آباد پولیس کے ایک ڈی ایس پی طارق نیازی کے پاس انصاف کے حصول کے لیے گیا تو اس نے ملزمان پارٹی کو خوش کرنے کے لیے ہمارے اس سینئر صحافی کو دل کھول کر برا بھلا کہنا شروع کردیا کیونکہ ملزمان پارٹی میں میریٹ ہوٹل کی انتظامیہ جو شامل تھی میرے اس صحافی دوست نے جب مجھے بتایا کہ مذکورہ پولیس آفیسر نے جب مجھے برا بھلا کہنے کے بعد کہا کہ تمہیں الٹا زمین پر لٹا دونگا تو میں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔
اس ملک میں پسیے کی حکمرانی ہے جس کے پاس پیسہ ہے پولیس بھی اسی کی غلام ہے اسی کی تھانہ میں سنی جائے گی میں تو صرف بات پر حیران اور پریشان ہوں کہ کیسے کیسے لوگ پولیس میں کام کررہے ہیں جو تنخواہ تو حکومت سے لیتے ہیں مگر نمک خوار پیسے والوں کے بن جاتے ہیں کیا پولیس کے اعلی ذمہ دار بھی اس بات کا کوئی نوٹس لیتے ہیں یا پھر وہ بھی انہی کا حصہ ہیں۔