قارئین محترم میرے بزرگ دوست مرزا افضل بیگ نے بہت ہی خوبصورت کہی کہ ووٹ کاحق ہی تو مجھے یہ احساس دیلاتا ہے کہ میں بھی انسان ہوں ورنہ آج غریب کو کون انسان سمجھتا اور جس طرح زندگی بسر کررہے ہیں کئی مرتبہ خیال گزرتا ہے کہ ہم انسان نہیںجانور ہیں۔ایسے میں ووٹ کا حق عام آدمی کوحکمرانوں کے برابر کا انسان ثابت کرتا ہے ۔میں نے حیران ہوکر بیگ صاحب سے کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا عام آدمی اور حکمرانوں کے برابر کا انسان ؟بیگ صاحب کہنے امتیاز آپ بتائو کیا ملک کا صدر دو دفعہ ووٹ کاسٹ کرتا ہے۔
یا اُس کے ووٹ کو ایک سے زیادہ تصور کیا جاتا ہے ؟ میں نے کہا نہیں ایک دوفعہ کرتا ہے اور ایک ہی تصور کیا جاتا ہے ۔بیگ صاحب جوشیلے انداز میں بولے تو ثابت ہوا کہ میرے ،آپ کے اور صدر کے ووٹ کو ایک جیسی حیثیت حاصل ہے ۔بیگ صاحب کی بات سچ تھی اور اُن کی بات سن کرمجھے لگا جیسے ووٹ کاسٹ کرتے وقت ہر ووٹر اپنے آپ کو ملک کاصدر یا وزیراعظم خیال کرسکتا ہے ۔
اگر ایسا ہے تو عام آدمی کواپنے ووٹ کی اعلیٰ حیثیت کو دیکھتے ہوئے اُس اُمیدوار کے حق میں کاسٹ کرنا چاہئے جو ووٹ کی حیثیت کے مطابق عزت دینے کا اہل ہو۔ووٹر اور ووٹ کی حیثیت اس قدر اعلیٰ ہے کہ میرے لئے لفظوں میں بیان مشکل ہے ۔میراآج کا موضوع حلقہPP159کی انتخابی سرگرمیاں اس لئے اب میں اپنے موضوع کی طرف بڑوںگا ۔حلقہ PP159کی عوام کوالیکشن میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی ۔یہ حلقہ ترقیاقی کاموں کے لحاظ سے لاہور کے پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہے۔
نہ کوئی کالج نہ پارک ،نہ سیوریج کا بہتر نظام،نہ صحت کی بنیادی سہولتیں دستیاب اور نہ ہی پینے کا صاف پانی دستیاب ہے ۔ملک کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اور ق کے اُمیدوار ہمیشہ سے اس حلقے سے کامیاب ہوتے آرہے ہیں ۔پاکستان میں آج تک کسی تیسر ی جماعت کی حکومت نہیں آئی سوائے فوج کے، یادآیا پرویزمشرف کے آمری دور میں بلدیاتی نظام کے ذریعے کروڑوں کے فنڈز اس حلقے کو بھی ملے لیکن بد قسمتی سے نااہل نمائندے فنڈز صحیح طرح استعمال نہ کرسکے۔
پرویزمشرف کے بعد پیپلزپارٹی کی وفاقی اور ن لیگ کی پنجاب حکومت اپنے پانچ سال پورے کرکے واپس الیکشن لڑنے کے لئے میدان میںہیں۔آج انتخابی مہم چلانے کے لئے دونوں جماعتوں کے پاس ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے کے علاوہ کوئی خاص مواد موجود نہ ہے جبکہ عوام بڑے ہی صبر وتحمل کے ساتھ پانچ سال تک اپنے منتخب نمائندوں کو آزما چکے ہیں۔ لیکن الیکشن 2013ء میں تیسری قوت یعنی تحریک انصاف کے منظر عام پر آنے کے باوجود اس حلقے کے عوام ایک بارپھر میاں شہباز شریف کی صورت میں ن لیگ کے اُمیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتے نظر آتے ہیں۔
Shahbaz Sharif
ن لیگ کے سرگرم کارکن چوہدری آس محمد میئو اور لیاقت گجر کا کہنا ہے کاکہنا ہے کہ میاں شہباز شریف کامیاب ہوگئے تو علاقے کو گل وگلزار کردیں گے اور پھر ملک میں ایک ہی تو سیاست دان ہے جو تیزی کے ساتھ منصوبے پورے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو خوش قسمتی سے ہمارے حلقے PP159اور NA129سے اُمیدوار ہے ۔علاقے کے عوام کے خیال میں میاں شہباز شریف کا کوئی ثانی نہیں اس لئے اُن کا کہنا ہے کہ ہم ووٹ صرف شہباز شریف کودیں گے۔
اگر بات کی جائے الیکشن کے دوران ہونے والی سیاسی گہما گہمی کی تو وہ نظر نہیں آتی ،نہ تو انتخابی دفاتر میں وہ پہلے سی رونقیں ہیں اور نہ ہی سیاسی ورکرز پہلے کی طرح سرگرم نظر آتے ہیں۔ہر طرف پریشانی اور بے یقینی کی فضا ہے ،کوئی کہتا ہے الیکشن نہیں ہوں گے ،کوئی کہتا ہے فوج ہی آجائے توبہتر ہے اور کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ الیکشن کے نام پر سلیکشن کی جارہی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ بجلی کی18.18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے عوام کوہلاکررکھ دیا ہے جس طرح بجلی کے آنے اور جانے کی خبر نہیں اُ سی طرح الیکشن کے ہونے نہ ہونے کا یقین نہیںرہا۔
الیکشن2013ء میں عوامی عدم دلچسپی صاف صاف بتا رہی ہے کہ ووٹنگ ٹرن آوٹ بہت کم رہے گا۔گرمی کے عالم میں لوگوں کا پولنگ اسٹیشن تک جانا بہت مشکل نظر آتا ہے اور اُس پرووٹرز کوٹرانسپورٹ مہیا کرنے پر پابندی عائد ہے ۔جبکہ ووٹر کی کسی پارٹی میں کوئی خاص دلچسپی بھی نظر نہیں آتی اُس پر سیاسی پارٹیوں کے ورکروں اور اُمیدواروں کے آپسی اختلافات ،آزاد اُمیدواروں کی بھرمارہے،حلقہ NA129اورPP159کی بات ہی کرلیتے ہیں ۔یہاں مین پارٹی مسلم لیگ ن ہے۔
یایوں کہہ لیں میاں شہباز شریف کی شخصیت میں وہ کشش ہے جو ن لیگ کی مقبولیت کی وجہ بن رہی ہے ۔ کیونکہ ن لیگ کی طرف سے سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف دونوں حلقوں سے اُمیدوار ہیں ۔یہاں ن لیگ کی طرف سے میاں شہباز شریف کی انتخابی مہم چلانے والے مقامی رہنماء مختلف دھڑوں میں تقسیم نظر آتے ہیں جہاں ایک دھڑاجاتا ہے وہاں دوسرا نہیں جاتا ۔اگر کوئی ورکر مقامی رہنمائوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیتا ہے تو پہلے اُس سے پوچھا جاتا ہے۔
آپ نے دوسرے دھڑے کے کسی فرد کو دعوت تو نہیں دی اگر دی ہے تو ہماری طرف سے معذرت ۔ن لیگ کا حقیقی ورکر پیچھے اور قادری ،مبشری اور سرداری قسم کے ورکر آگے آگے ہیں ،دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی ہے پیپلزپارٹی کے ورکر تو منظرعام سے غائب ہیں ،شاید اندر ہی اندر ورک کرکے اپنے اُمیدواروں کی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں ،تیسرے نمبر آرہی ہے تحریک انصاف جو کہ پہلی مرتبہ ان حلقوں میں اُبھر کرسامنے آئی ہے۔
تحریک انصا ف کی مقبولیت اس علاقے کے لئے بالکل نئی ہے لیکن مین اُمیدوار بہت پراناہے۔ گزشتہ تین ادوار میں کبھی ن لیگ اورکبھی ق لیگ کی طرف سے MPAمنتخب ہونے والامحمد منشاء سندھواس بار تحریک انصاف کی طرف سے حلقہ این اے 129 سے اورعلی امتیاز وڑائچ حلقہ PP159سے اُمیدوار ہیں۔شایدتحریک انصاف کے یہ دونوں اُمیدوار بھی ایک دوسرے کو زیادہ پسند نہیں کرتے اسی لئے اکٹھے انتخابی مہم چلانے کی بجائے الگ الگ کمپین کررہے ہیں۔لیکن اہل علاقہ کا خیال ہے کہ منشاء سندھوکسی بھی وقت بازی پلٹ سکتا ہے۔
National Assembly
ن لیگ کی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے درخواست دینے والے محمدسعید کھوکھر بھی قومی اسمبلی کے حلقہ129 میں آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے میاں شہباز شریف سے مقابلہ کرنے کا عزم لئے میدان میں اُترآئے ہیں ،ن لیگ کے ناراض کارکن عبدالخاق کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی ،جے یوآئی ف ، تحریک تحفظ پاکستان کے علاوہ ن لیگ کے ناراض ورکرز کی ایک بڑی تعداد بھی سعید کھوکھر کی حمائت کرے گی۔یہاں تک کہ ن لیگ کے ناراض ورکر عبدالخالق کہنا ہے کہ جناب ہم تو دیوار سے سر ٹکرانے کاعزم لئے میدان میں اُترے ہیں اگر دیوار نہ توڑ پائے توسرضرور زخمی کریں گے۔
بہتے ہوئے لہوکودیکھ کرزمانہ یہ تو کہے گاکہ وہ دیکھوسیاسی ورکر کا انجام کم از کم لوگ یہ تو کہیں گے کہ سیاسی ورکر دنیاکابے وقوف ترین طبقہ ہے ،ہوسکتا ہے کوئی ہمارا انجام دیکھ کر عبرت کاسبق ہی سیکھ لے ۔میں نے عبدالخالق سے ن لیگ سے ناراض ہونے کی وجہ پوچھی تو وہ نہایت دکھی انداز میں بولا جناب ہم سے منافقت اور خوشامد نہیںہوتی ہم کسی کی محنت اپنے حصے میں لکھوانے کے قائل نہیںاور نہ ہمیںفوٹوسیشن کا شوق ہے ہم تو بس پارٹی اور علاقے کا بھلا سوچنے والے لوگ ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے ایسے لوگوں کی صرف ن لیگ ہی نہیں بلکہ کسی بھی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔خیر بڑی جماعتوں میں یہ روٹھنا ماننا تو چلتا رہتا ہے اور الیکشن لڑنا، اپنی مرضی سے ووٹ دینا اور اپنی پسند کے اُمیدوار کی سپورٹ کرناتو ہر شہری کا جمہوری حق ہے ۔بظاہر تو ن لیگ کے میاں شہباز شریف کو سب اُمیدواروں سے زیادہ عوامی پزیرائی حاصل ہے ،لیکن پیپلزپارٹی کی پوزیشن بھی اس قدر کمزور نہیں جتنی کہ نظر آرہی ہے کیونکہ صرف بے نظیر انکم سپورٹ سے فائدہ اُٹھانے والی خواتین کی تعداد ہزاروں میںہے اِس کے علاوہ پیپلزپارٹی کا نظریاتی ووٹر آج بھی موجود ہے۔
بڑی بڑی گاڑیوں اور بڑے بڑے محلات میں آرام وآسائش کی زندگی بسر کرنے والے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو فضول اور بے کار کہنے والے یہ نہیں جانتے کہ ایک ہزار روپے سے غریب کے گھر میں 15سے20دن کاآٹا مہیا ہوجاتا ہے جو غریب کے لئے وقتی طور پر بہت بڑی امداد ہے اور اُس پرپیپلزپارٹی کی طرف سے یہ اعلان کہ اگلی حکومت بنتے ہی بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم ایک ہزار سے دو ہزار کردی جائے گی ۔جن خواتین کو یہ رقم ملتی ہے وہ انتہائی کم پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے نہیں جانتیں کہ خارجہ پالیسی کیا ہوتی ہے۔
داخلہ پالیسی کس چڑیا کانام ہے وہ توصرف یہ جانتیں ہیں کہ اُن کو پیپلزپارٹی کی حکومت ہر مہینے بذریعہ ڈاک ایک ہزار رپے بھیجتی ہے اور اگر پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بنی تو اُن کو ملنے والی یہ رقم بند ہوجائے گی۔اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اُٹھانے والے خاندان کسی دوسری پارٹی کے اُمیدوار کو ووٹ دیں گے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ کچھ اور ووٹرز کو بھی اپنے ساتھ یہ کہہ کر ملانے کی کوشش کریں گے کہ اگر پیپلزپارٹی جیت جائے گی تو آئندہ بہت سے مزید خاندانوں کو یہ امدادی رقم ملا کرے گی۔
حلقہ PP159اورNA129کے ووٹر زکی بڑی تعداد کا غربت سے بہت گہرا رشتہ ہے ،یہی ووٹر پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ہے اور یہ سارا ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے تو پیپلزپارٹی کے ملک آصف اور سابق ایم این اے طارق شبیر بھی ان حلقوںسے میدان مار سکتے ہیں ۔ان حلقوں میں ن لیگ کے مقامی رہنمائوں کے آپسی اختلافات بھی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے بہت بڑے سپورٹر ہیں ۔قارئین محترم یہ میراذاتی تجزیہ ہے جیت ہار تو اللہ تعالیٰ کے بعد ووٹرز کے ہاتھ ہے اورکون جیتے گا اور کون ہارے گایہ توالیکشن نتائج ہی بتائیں گے۔